Getty Images
’یہ کہنا کہ حالات ’مشکل‘ ہیں۔۔۔ بہت چھوٹی بات ہے۔‘ ایک پی ٹی آئی رہنما نے قدرے سنجیدہ اندازہ میں کہا۔ ’آج کل یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگلی رات جیل میں گزرے گی یا عقوبت خانے میں۔‘
آج سے لگ بھگ پانچ ماہ پہلے تک کسی پی ٹی آئی رہنما کے منھ سے ایسا بیان سننے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
تب لاہور کے علاقے زمان پارک میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پرجوش کارکنان اور رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی، ہر شام عمران خان کا یوٹیوب پر خطاب ہوتا جس میں وہ حکومت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے۔
ایسے میں نو مئی کی دوپہر کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کا آغاز ہوا جن میں عسکری املاک کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
حکومت اور فوج کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان پر عائد کی گئی، جس کے بعد سے جماعت پر ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔
اس دوران متعدد پی ٹی آئی رہنما روپوش ہوئے، جنھیں حراست میں لیا گیا ان میں سے اکثریت اس وقت بھی جیل میں ہے جبکہ متعدد رہنماؤں نے حراست میں چند روز گزارنے کے بعد پی ٹی آئی یا جماعت میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ان متعدد نمایاں رہنماؤں میں شیریں مزاری، اسد عمر، فواد چوہدری، پرویز خٹک، عثمان بزدار سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جیسے شبلی فراز اور شفقت محمود روپوش تو نہیں مگر خاموش ضرور ہیں۔ روپوش رہنماؤں میں مراد سعید، عمر ایوب، فرخ حبیب، حماد اظہر سمیت دیگر شامل ہیں۔
ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے رہنماؤں کی اکثریت پارٹی یا عہدہ چھوڑ چکی ہے، جس کے بانی اور چیئرمین عمران خان سمیت متعدد رہنما جیل میں ہیں اور ایک بڑی تعداد روپوش ہے، اس وقت چل کیسے رہی ہے اور اگر آنے والے دنوں میں صورتحال تبدیل نہیں ہوتی تو اس کی انتخابات کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟
Getty Imagesجماعت چلتی کیسے ہے اور کیا ’روپوشی‘ جماعت کی حکمتِ عملی ہے؟
نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کے اکثر رہنماؤں کو نقصِ امن سمیت مختلف مقدمات کے تحت حراست میں لیا گیا۔ تاہم ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو تاحال روپوش ہے۔
یہ رہنما آپ کو سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیان دیتے دکھائی دیتے ہیں، کچھ ٹی وی پر بھی نظر آتے ہیں لیکن یہ کہاں موجود ہیں یہ فی الحال خفیہ رکھا گیا ہے۔
تاہم ان رہنماؤں میں سے کچھ پی ٹی آئی کی روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی میٹنگ میں بقول ایک سینیئر رہنما ’کہاں سے شامل ہوتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن وہاں دن کے ایجنڈا پر بحث ہوتی ہے اور پھر مشاورت کے ساتھ فیصلے کیے جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کر دیا جاتا ہے۔‘
ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’عمران خان نے جیل میں جانے سے بھی پہلے یہ بتا دیا تھا کہ ان کے جیل جانے کی صورت میں پارٹی کیسے چلے گی۔۔۔ کچھ حلقوں کو اسی بات کا غصہ ہے کہ جماعت ابھی تک چل کیسے رہی ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنما کی جانب سے میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔
ایسے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ شاید روپوش رہنما دراصل جماعت کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ کسی بھی رہنما کا انفرادیفیصلہ ہے، پارٹی پالیسی نہیں ہے۔‘
تو پھر ایک ایسی جماعت کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے جس کی آج سے ایک سال پہلے تک ملک کے دو صوبوں میں حکومتیں تھیں اور جس کی مقبولیت کا اعتراف اکثر تجزیہ کار بھی کرتے ہیں۔
Getty Images’الیکشن اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک پی ٹی آئی کی ہار کا یقین نہ ہو‘
سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے بارے میں پی ٹی آئی اور عمران خان کا مؤقف واضح ہے کہ وہ ہر سٹیک ہولڈر سے بات کرنے کے لیے تیار ’مگر انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں۔‘
پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان کی جانب سے گذشتہ دنوں عمران خان سے ملاقات کے بعد بھی اس بات کو دہرایا گیا ہے۔
اس بارے میں پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے کسی قسم کی بات چیت یا مذاکرات کی تردید اور تصدیق کیے بغیر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم وہ جماعت نہیں ہیں جو مذاکرات کرتے ہوئے ڈھنڈورا پیٹیں۔۔۔ جیسے ہم سے پہلے اس جماعت میں کچھ لوگ پیٹا کرتے تھے۔‘
’ہم سب کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن پہلے 90 دن میں الیکشن پر بات ہو گی۔‘
گذشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے ایک روپوش رہنما عثمان ڈار کے مبینہ ’اغوا‘ کی خبریں منظرِ عام پر آئی تھیں۔
اسی طرح صداقت عباسی کو بھی کچھ عرصہ قبل مبینہ طور پر ’اغوا‘ کیا گیا تھا اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی سے متعلق رپورٹ جمع کرواتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ انھیں کہاں سے اغوا کر کے کہاں لے جایا گیا۔
ایسی صورتحال میں جب پی ٹی آئی کے روپوش رہنما بھی لاپتہ ہو رہے ہیں تو آنے والے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا ہو گی؟
یہ سوال جب ہم نے ایک سینیئر پی ٹی آئی رہنما سے پوچھا توانھوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک اُنھیں پی ٹی آئی کی ہار کا یقین نہ ہو۔‘
تاہم چند روز قبل نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے پروگرام الیونتھ آور میں پی ٹی آئی کے روپوش رہنما عمر ایوب نے صحافی وسیم بادامی کے اسی سوال کے جواب میں کہا کہ ’پی ٹی آئی انتخابات کے لیے تیار ہے۔۔۔ اگر عمران خان کے گرد فولاد کی دیواریں اور چھت بھی لگا دیے جائیں تو بھی وہ اللہ کے حکم سے اگلے وزیرِ اعظم ہوں گے۔‘
Getty Images’پی ٹی آئی سمجھتی ہیں کہ اگر الیکشن میں وہ کھمبا بھی کھڑا کریں تو لوگ ووٹ ڈالیں گے‘
تو ایسی صورتحال میں بھی پی ٹی آئی رہنماؤں کے پراعتماد رویہ کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں ہم نے تجزیہ کاروں سے پی ٹی آئی کی انتخابی حکمت عملی اور آئندہ لائحہ عمل پر بات کی ہے۔
پی ٹی آئی سے آئندہ کچھ ہفتوں میں رابطہ کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ الیکشن جب بھی ہوتے ہیں ظاہر ہے پی ٹی آئی سے الیکشن کمیشن کو بات تو کرنی پڑے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہے گی، وہ الیکشن لڑنا چاہے گی لیکن ایسا اسے کٹے ہاتھوں سے کرنا پڑے گا۔‘
انھوں نے پی ٹی آئی کے الیکشن سے متعلق پراعتماد رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت پی ٹی آئی کا یہ ماننا ہے کہ کٹے ہاتھوں کے ساتھ بھی اگر انھیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ اگر کھمبا بھی کھڑا کریں گے تو لوگ اس کو بھی ووٹ ڈالیں گے۔‘
’اور ان کی یہ بات حقیقت سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی مقبولیت میں شہروں میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن گاؤں دیہاتوں میں جہاں دھڑے بندی کی سیاست ہوتی ہے وہاں بھی مہنگائی کے حوالے سے لوگوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں کی روپوش ہونے سے بطور جماعت ان پرسوالیہ نشان ہے، کیا یہ واقعی سیاسی رہنما ہیں یا شخصیت پرستی کی بنیاد پر عمران خان کی حمایت کرتے تھے۔‘
’ماضی میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی دلیری سے جیلیں کاٹی ہیں اور ازیتیں برداشت کی ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں روپوشی والا پہلو نیا ہے۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی اس سے کچھ سیکھے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ سنہ 2018 والی صورتحال ہے۔ ’تب ن لیگی رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات درج ہو رہے تھے، اب پی ٹی آئی رہنماؤں پر نقصِ امن کے ہو رہے ہیں۔‘
’اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات تو کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، میرا نہیں خیال وہ دروازہ کسی بھی جماعت کے لیے ہمیشہ کے لیے بند رہ سکتا ہے۔‘
سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ ’ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ یہ تو نہیں چاہے گی کہ عمران خان کی جماعت اکثریت لے کر آئے اور ان کی جانب سے کیے گئے فیصلوں میں تبدیلیاں کرے۔‘
’یہ سنہ 2018 والی صورتحال ہے، بلکہ شاید اس سے بھی تھوڑی زیادہ سنگین ہے، جب ن لیگ کے رہنماؤں کے خلاف کیس چلائے گئے تھے اور انھیں جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔ میرے نزدیک ہر جماعت کو قومی اسمبلی میں سیٹیں ملیں گی لیکن کوئی بھی جماعت اکثریت نہیں لے پائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سے ظاہر ہے کہ ہر جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ تو نہیں ملے گی۔‘