’جلد بازی میں دیے گئے فیصلے، پارلیمان سے پاس کردہ قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کی روایت، اپنے ہی دیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد میں ناکامی اور سپریم کورٹ کے ججوں میں واضح تقسیم‘
قانونی ماہرین کے مطابق یہ وہ چند حقائق ہیں جو پاکستان کے 28 ویں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ملک کے ’متنازع‘ چیف جسٹس صاحبان کی فہرست میں نمایاں کرتے ہیں۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چییرمین ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ ’اُن کے دور میں اعلیٰ عدلیہ اور بالخصوص سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان ایک واضح تقسیم نظر آئی جو اُن کی ریٹائرمنٹ تک برقرار رہی اور اس تقسیم کی وجہ سے جو بینچ تشکیل دیے جاتے تھے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔‘
پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست ہو، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں انتحابات کروانے کا معاملہ ہو یا پھر رکن پارلیمان کا پارٹی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دینے کا معاملہ، چیف جسٹس کی سربراہی میں مخصوص بینچ ہی اس نوعیت کے کیسز کو سننے کے لیے دستیاب ہوتے۔
اور اس نوعیت کے کیسز میں آنے والے فیصلے ہی تھے جن کے خلاف ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج بھی کیا جہاں ایسے پلے کارڈز بھی دیکھنے کو ملے جن پر چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ججز کے خلاف نعرے درج تھے۔
ہارون الرشید کے مطابق سیاسی جماعتوں اور باالخصوص اس وقت کے پی ڈی ایم حکمراں اتحاد نے متعدد مواقع پر یہ الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس کا جھکاؤ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب رہا اور انھوں نے ’آؤٹ آف دی وے‘ جا کر اس جماعت کو ریلیف فراہم کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کون ہیں؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے دو فروری 2022 کو چیف جسٹس کے عہدے کا چارج سنبھالا اور وہ ایک سال سات ماہ اور چودہ روز تک اس عہدے پر فائز رہے۔
اس سے قبل انھیں 17جون 2014 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دوسرے عبوری حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں انھیں ان کے گھر میں نظر بند بھی کیا گیا۔
عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں وہ دیگر ججز کے ساتھ اپنے عہدے پر بحال ہوئے۔
قانونی حلقوں میں جسٹس عمر عطا بندیال ایک ’دھیما مزاج‘ رکھنے والے جج تصور کیے جاتے ہیں جنھیں بینکنگ، ٹیکس اور جائیداد کے اُمور کے معاملات پر مہارت ہے۔
وہ لاہور ہائیکورٹ کا جج بننے سے پہلے وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں تدریس کے کام سے بھی منسلک رہے۔
متنازع فیصلے
سیاسی اور قانونی حلقوں میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی شخصیت اس وقت زیادہ متنازع ہو گئی جب انھوں نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس پر 17 مئی 2022 کوفیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ جو کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا تو اس کی رکنیت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا۔
قانونی ماہر شاہ خاور کا کہنا ہے کہ 63 اے پر صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا معاملہ ہو تو اس میں سینیئر ججز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی بینچ کے دو اراکین نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں 63 اے شق ایک جامع قانون ہے اور اس بارے میں کوئی نئی رائے قائم کرنا ’آئین کو از سر نو تحریر‘ کرنے کی ایک کوشش ہو گی۔
یاد رہے کہآئین کی اس شق میں یہ واضح لکھا ہوا ہے کہ جماعت کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دینے والے رکن پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہو سکتی ہے، لیکن اس کا ووٹ شمار ہو گا۔
سپریم کورٹ کا یہی وہ فیصلہ تھا کہ جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنا دیا گیا۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب اسمبلی کو14 جنوری کو تحلیل کر دیا اور اسی طرح 18 جنوری 2023 کو خیبرپختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔
دونوں صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے ان دونوں صوبوں میں 90 دنوں میں انتخابات کروانے سے متعلق چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینے کے بارے میں لکھا اور اس دوران ان دونوں اسمبلیوں کے سپیکرزنے بھی بروقت انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
ان درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس نے پہلے نو رکنی اور پھر سات رکنی بینچ تشکیل دیا اور پھر اس درخواست کی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی، تاہم اس کیس میں تین سماعتوں کے بعد جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل بھی اس بینچ سے الگ ہوئے۔
AFP
نو رکنی بینچ سے شروع ہونے والا معاملہ بالآخر چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سنا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ چودہ مئی کو ان دونوں صوبوں میں انتخابات کروائے جائیں۔
اس وقت کی وفاقی حکومت اور خود سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس فیصلے کے بارے میں لکھا کہ ان درخواستوں کو تین کے مقابلے میں چار ججز نے مسترد کیا ہے۔
تاہم جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس تین رکنی بینچ نے ان دونوں صوبوں میں بروقت انتخابات کروانے کے لیےوفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 20 ارب روپے کےفنڈز اور سکیورٹی فراہم کرے۔
حکومت نے نہ صرف اس عدالتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس پر عمل درآمد کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا اور پھر پوری پارلیمنٹ اس وقت کے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑی ہو گئی کہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم نہیں کیے جائیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نہ تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروا سکے اور نہ ہی اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر سکے۔
سابق حکومت نے چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی اور یہ قرار پایا کہ کسی معاملے پر از خود نوٹس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی۔
تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آٹھ ججز پر مشتمل ایک لارجر بینچ بنا کر اور حکومت کا موقف سنے بغیر اس پر حکم امتناعی جاری کر دیا جو ابھی تک برقرار ہے۔
اس آٹھ رکنی بینچ کے بارے میں وکلا کے ایک دھڑے کی رائے ہے کہ یہ جسٹس عمر عطا بندیال کے ہم خیال ججز تھے کیونکہ اس بینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز جن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کو بھی شامل نہیں کیا گیا تھا۔
شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے معاملے پر جو آٹھ رکنی بینچ بنایا گیا اس میں اپنے ہم خیال ججز کے علاوہ جونیئر ججز کو شامل کیا گیا، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔‘
Getty Images
جسٹس عمر عطا بندیال سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھاس بینچ کا حصہ تھے جنھوں نے سابق وزیر اعظمعمران خان کو ’صادق‘ اور ’امین‘ قرار دیا تھا اس کے علاوہ انھوں نے رکن پارلیمان کو 63 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ بھی لکھا، تاہم چیف جسٹس بننے کے بعد انھوں نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’تاحیات نااہلی ایک بدنما داغ ہے اور پارلیمان کے پاس اس قانون کو تبدیل کرنے کااختیار ہے۔‘
ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں ارکان پارلیمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں ’کریمینل مائنڈڈ‘ (جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل) لوگ بھی ہیں جس کے بعد پارلیمنٹ سے بھی ان کے خلاف آوازیں اٹھیں۔
پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ارکان کی قابلیت کے بارے میں متعدد بار سوال اٹھائے تاہم اسی بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں متعدد بارکہا کہ اس عدالت کے پاس پارلیمانی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔
جمعے کے روز اس کیس میں آنے والے فیصلے کے تحت پارلیمان کی نیب ترامیم سے متعلق قانون سازی کے اہم حصوں کو کالعدم قرار دیا گیا، اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی ہے۔
آڈیو لیکس کے معاملے پر سابقہ حکومت نے نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا۔
اس کمیشن کیایک کارروائی کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک بینچ تشکیل دے کر اس کمیشن کو تاحکم ثانی مزید کارروائی سے روک دیا۔
اس جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے لیے جو پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا اس میں خود چیف جسٹس شامل تھے جس پر حکومت نے اعتراض کیا۔
اس بینچ پر حکومتی اعتراضات پر فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خود تحریر کیا۔
اس فیصلے کے بعد حکومت نے چیف جسٹس، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر پر اس بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھایا تھا جسے سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔
ججز میں تقسیم
قانونی ماہر شاہ خاور کے مطابق ’اس سے بڑھ کر ججز میں تقسیم کیا ہو گی کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو ایک مرتبہ بھی اس بینچ میں شامل نہیں کیا گیا جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کرتے تھے۔‘
اس دورانیے میں سپریم کورٹ کے ججز کے درمیانتقسیم واضح طور پر نظر آئی اور ججز میں یہ خلیج اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان تحریک انصاف کے دور میں نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مبینہ اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک دس رکنی بینچ نے سماعت کی۔
چار کے مقابلے میں چھ ججز نے یہ صداتی ریفرنس مسترد کر دیا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ سات، تین کے تناسب سے آیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر اقلیتی فیصلے میں شامل تھے۔
اعلی عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کے سینیئر ججز میں تقسیم نظر آئی کیونکہ نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مؤقف تھا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو سپریم کورٹ کا جج بنایا جائے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال دیگر ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کروانا چاہتے تھے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ عمر عطا بندیال جب سے چیف جسٹس بنے ہیں انھوں نے بینچز کی تشکیل کے حوالے سے دیگر سینیئر ججز سے مشاورت ختم کر دی ہے جبکہ اس سے پہلے یہ روایت رہی ہے کہ چیف جسٹس دیگر سینیئر ججز کے ساتھ بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کرتے تھے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دود میں زیادہ تر کام اِن چیمبر ہی کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی مبینہ آڈیو کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر اس معاملے کو قانون کے مطابق حل کرنے کے لیے خط لکھا لیکن اس پر کوئی اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔
اس دوران سپریم کورٹ کے ججز کی طرف سے بھی یہ آوازیں اٹھتی رہیں کہ مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجرز کے قانون پر فیصلہ کیا جائے۔
نو مئی کے واقعہ کے بعد سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائےجانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے لیے جب چیف جسٹس نے لارجر بینچ تشکیل دیا تو نامزد چیف جسٹس سمیت متعدد ججز اس نقطے پر بینچ سے الگ ہو گئے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجر سے متعلق فل کورٹ تشکیل دے کر اس کا فیصلہ کرے اور پھر بینچ کی تشکیل کرے۔