ایم ڈی کیٹ نتائج روکنے کا حکم: خیبر پختونخوا میں ’جاسوسی کے آلات‘ سے نقل کا معاملہ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 15, 2023

BBC

پشاور ہائی کورٹ نے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کے نتائج روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا ہے جبکہ دوران ٹیسٹ نقل کے معاملے کی تحقیقات کے لیے محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔

ہائیکورٹ نے جمعے کو یہ حکم صوبہ خیبر پختونخوا میں ایم ڈی کیٹ کے دوران بعض طلبہ کی جانب سے نقل کرنے کے الزامات سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے دیا۔ اس کیس کی آئندہ سماعت 21 ستمبر تک ملتوی کی گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں 10 ستمبر کو جب ڈاکٹر بننے کے خواہش مند طلبا و طالبات میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے درجنوں امتحانی مراکز میں پرچہ دینے بیٹھے تو مقامی عملہ پہلے سے ہی چوکنا تھا۔

بی بی سی نے خیبر پختونخوا کی سیکرٹری برائے اعلی تعلیم انیلا محفوظ اور ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایویلوئیشن ادارے (ایٹا) کے ڈائریکٹر یاسر عمران سے اس چیٹنگ سکینڈل کے بارے میں بات چیت کی، جس میں ایک خفیہ آلے کی مدد سے نقل کا انکشاف ہوا۔

یاسر عمران کے مطابق اب تک صوبے کے 44 امتحانی مراکز سے درجنوں طلبہ و طالبات کو متعلقہ پولیس تھانوں کے حوالے کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جا چکی ہیں۔ ان مقدمات میں ’ان فیئر مینز‘ یعنی بے ایمانی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

لیکن یہ آلات کیا ہیں اور ان کے ذریعے امتحانی مرکز میں بیٹھے طلبا کیسے نقل کر رہے تھے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تو علم ہوا کہ خیبرپختونخوا محکمہ تعلیم کو ایک ایسے گروہ کے بارے میں متنبہ کیا جا چکا تھا جو چیٹنگ سکینڈل میں ملوث تھا۔

BBCخیبر پختونخوا کی سیکرٹری برائے اعلٰی تعلیم انیلا محفوظ دُرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس ٹیسٹ سے قبل اطلاع موصول ہوئی کہ خیبر پختونخوا میں ایم ڈی کیٹ امتحان میں نقل کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا’ٹیسٹ سے قبل اطلاع موصول ہوئی‘

میڈیکل کالجوں میں داخلے کے انٹری ٹیسٹ کے لیے 10 ستمبر کو خیبرپختونخوا میں 46 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کے لیے صوبے کے ساتوں ڈویژن میں 44 امتحانی مراکز قائم کیے گئے تھے۔

تاہم خیبر پختونخوا کی سیکرٹری برائے اعلٰی تعلیم انیلا محفوظ دُرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس ٹیسٹ سے قبل اطلاع موصول ہوئی کہ خیبر پختونخوا میں ایم ڈی کیٹ امتحان میں نقل کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔

ایک بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’صوبائی چیف سیکرٹری کی جانب سے خصوصی ہدایات ملیں کہ انٹری ٹیسٹ میں ایک ایسا گروہ سرگرم ہے جو کانوں میں لگے خُفیہ بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے امتحانی مراکز میں طلبا کو پرچہ حل کروائے گا۔‘

انیلا محفوظ دُرانی کے مطابق یہ اطلاع ایٹا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز ایوب کو دی گئی اور ان کو کارروائی کا کہا گیا۔ یوں امتحانی عملہ چوکنا تھا۔ اگر یہ اطلاع موصول نہ ہوتی تو اس سکینڈل کو پکڑنا انتہائی مشکل ثابت ہوتا کیونکہ یہ جدید قسم کے آلات آسانی سے نظر نہیں آتے۔

امتحان کے دن کیا ہوا؟

ایٹا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے امتحانی مراکز، جو صوبے میں مختلف مقامات بشمول شادی ہالز میں قائم تھے، میں طلبا کے داخلے کے وقت خصوصی چیکنگ کا اہتمام کیا۔

اس کے باوجود بہت سے طلبا و طالبات یہ آلات اپنے ساتھ اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔

دوران امتحانی امتحانی عملے نے ایک خصوصی ترکیب لڑائی۔ عملے کو ہدایت تھی کہ وہ اپنے موبائل فون پر بلیو ٹوتھ آن کریں اور دیکھیں کہ ان کو کسی ڈیوائس کا سگنل تو نہیں ملتا۔

عملے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وہ ہال میں طلبا کے قریب کھڑے ہو کر اپنے موبائل فون پر بلیو ٹوتھ آن کرتے اور اگر ان کو کسی اور بلیو ٹوتھ کے سگنل وصول ہوتے تو وہ قریبی طلبا کی تلاشی لیتے۔

تلاشی کے دوران چند طلبا سے ایک مخصوص قسم کا بلیو ٹوتھ ڈیوائس ملا جس کا ایک اہم جزو کان میں چھپایا جانے والا ایئر پلگ تھا جس کی مدد سے نقل کروائی جا رہی تھی۔

یوں امتحانی عملے نے تقریبا 213 طلبا سے ایسے ڈیوائس برآمد کیے جو دراصل جاسوسی یا خفیہ طریقے سے رابطہ کرنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔

BBCیہ خفیہ آلات کیا ہیں؟

پاکستان یا دنیا بھر میں نقل کا رواج نیا نہیں لیکن ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ساتھ نقل کے طریقوں میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔

خیبرپختونخوا کے ایم ڈی کیٹ امتحان کے دوران اسی مقصد کے لیے استعمال ہونے والے جو آلات پکڑے گئے ان کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔

حکام کے مطابق اس آلے میں دو سے تین حصے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بظاہر کسی قلم یا کارڈ کی شکل کا ہوتا ہے۔

اس کارڈ یا پین میں ایک سم لگائی جاتی ہے جو اسے فعال کرتی ہے۔ اسی آلے میں ایک چارجنگ پورٹ بھی ہوتا ہے جس کی مدد سے یہ آلہ آٹھ گھنٹے تک کام کر سکتا ہے۔

اس میں بلیو ٹوتھ کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے جبکہ اسی آلے کا دوسرا حصہ، ایئر پلگ، کان کے اندر چھپا لیا جاتا ہے۔

BBC

یاسر عمران نے بتایا کہ کہ یہ ڈیوائس انتہائی چالاکی سے تیار کیے گئے ہیں جنھیں تلاش کرنا یا شناخت کرنا انتہائی مشکل تھا کیونکہ ان کو طالبات دوپٹے، بالوں یا عبائے میں آسانی سے چھپا لیتی ہیں۔

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق یہ آلات ایک چینی کمپنی ’ایڈیمیگ‘ نے جاسوسی کے مقاصد کے لیے تیار کیے ہیں۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ان آلات کا مقصد سرویلنس، وی آئی پی پروٹیکشن اور تفتیش میں مدد فراہم کرنا ہے جب خفیہ طریقے سے کام کرنا مقصود ہوتا ہے۔

تاہم یہ آلات باآسانی دستیاب ہیں اور ان کی قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں۔ مختلف ویب سائٹ پر یہ آلات 45 سے 60 ڈالر تک دستیاب ہیں۔

پکڑے جانے والے طلبا اور طالبات کا کہا کہنا تھا؟

امتحان کے ایک ایگزامنر نے بی بی سی کو بتایا کہ جن طلبا اور طالبات سے یہ ڈیوائس برآمد ہوئی ہیں انھوں نے اس کے استعمال کی مختلف وجوہات بتائیں۔

ایک طالبہ نے حکام کو بتایا کہ ان کے جاننے والے طلبا اور طالبات یہ ڈیوائس خرید رہے تھے تو ان کی دیکھا دیکھی انھوں نے بھی یہ ڈیوائس خرید لی تھی۔

ایک اور طالبہ نے حکام کو بتایا کہ ان کے والد یہ ڈیوائس خرید کر لائے تھے۔

انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک طالبہ کی والدہ امتحانی مرکز کے باہر موجود تھیں اور انھوں نے عملے کے ایک اہلکار کو ایسی ہی ایک ڈیوائس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی بیٹی کو دے دی جائے کیونکہ ہو سکتا ہے پہلے والی کام نہ کر رہی ہو۔

یہ وضاحتیں اپنی جگہ لیکن حکام کے مطابق نقل کے اس سکینڈل کے پیچھے، جس میں جدید آلات کا استعمال ہوا، ایک منظم گروہ ہے جس کی شناخت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

BBC’خفیہ گروہ‘ جو جواب فراہم کرتا ہے

خفیہ آلات کی موجودگی کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ طلبا اور طالبات کو کون اور کیسے نقل کروا رہا تھا؟

خیبر پختونخوا میں ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایویلوایشن کے ڈائریکٹر یاسر عمران کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف ڈیوائسز ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا ایک نیٹ ورک ہے۔‘

حکام کے مطابق اس گروہ میں اعلی تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں جن کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تاہم اب تک اس گروہ یا اس میں شامل افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔

ماہرین کے مطابق یہ خفیہ آلات ایک کمپیوٹر سسٹم سے منسلک ہوتے ہیں اور جب پرچہ شروع ہوتا ہے تو اس گروہ کے لوگ، جن میں ہر مضمون کے ماہر پروفیسر موجود ہوتے ہیں، مخصوص طلبا کو سوالات کے جوابات بتا دیتے ہیں۔

لیکن اس گروہ کو یہ کیسے علم ہوتا ہے کہ سوالات کیا ہیں؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یاسر عمران کا کہنا تھا کہ ’نقل کی روک تھام کے لیے ایٹا ہر مضمون کے چار پرچے تیار کرتا ہے تاکہ ہر بچے کو الگ پرچہ ملے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس گروہ کے پاس ان تمام پرچوں میں موجود سوالات پہلے سے ہی ہوتے ہیں۔‘

’جب پرچہ شروع ہوتا ہے تو مسلسل ایئر پلگز میں سوالات کے جواب آتے رہتے ہیں اور بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ پہلے پرچے کے ایک نمبر سوال کا جواب یہ ہے، دوسرے پرچے کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے اور اس طرح تمام پرچوں کے تمام سوالات کے جواب بتائے جاتے ہیں۔‘

یاسر عمران نے بتایا کہ ’ہو سکتا ہے کہ پرچہ حل کروانے والے افراد کو اس پورے نظام کے بارے میں علم بھی نہ ہو‘ لیکن ان کی اطلاع کے مطابق یہ نظام متحرک ہے اور خفیہ طور پر کام کر رہا ہے۔

شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد کے مطابق عام طور پر جب میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز میں داخلے کے خواہشمند طلبا اور طالبات ایف ایس سی کے امتحان کے بعد داخلہ امتحان کی تیاری کے لیے اکیڈمی میں پڑھنے جاتے ہیں تو ایسے گروہ ان گروہ امیر طلبا اور طالبات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اسی جگہ سے طلبا اور طالبات سے رابطہ کیا جاتا ہے اور ان کو پرچہ حل کروانے میں مدد کی پیشکش کی جاتی ہے۔

خیبرپختونخوا میں جن طلبا اور طالبات نے اس سال چیٹنگ کے اس سکینڈل میں حصہ لیا، ان کو یہ سودا مہنگا پڑا ہے۔

یاسر عمران کے مطابق ان یہ طلبہ و طالبات مُستقبل کے کسی بھی قسم کے ٹیسٹ میں بیٹھنے کے اہل نہیں رہے جبکہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جا رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More