شہنشاہ اکبر کی ’تعریف‘: مودی حکومت کا مغل بادشاہوں سے متعلق مؤقف جو جی 20 کانفرنس کے لیے بدلا

بی بی سی اردو  |  Sep 15, 2023

Getty Images

انڈیا میں جی 20 کانفرنس کے لیے مودی حکومت کی طرف سے نکالے گئے میگزین میں مغل شہنشاہ اکبر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کی جمہوری سوچ دوسروں سے مختلف تھی اور وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔

اس رسالے میں ہندوستان کے اب تک کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی سفر کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔ ’انڈیا: مدر آف ڈیموکریسی‘ نامی میگزین میں ہندوستان کی قدیم تہذیب، جمہوری روایات، مذاہب، سنتوں، عقائد، عظیم انسانوں اور حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہندوستان کے حکمرانوں میں، رامائن میں رام کا ذکر، مگدھ کے اجاتشترو، مغل بادشاہوں اور آزادی کے بعد سے انڈیا کے تمام وزرائے اعظم کا ذکر کیا گیا ہے۔

میگزین میں مغل شہنشاہ اکبر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ’اچھی انتظامیہ میں سب کی فلاح و بہبود شامل ہونی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں۔

’تیسرے مغل بادشاہ اکبر نے بھی ایسی ہی جمہوریت کو اپنایا تھا۔ اکبر نے ’صلح کل‘ یعنی عالمگیر امن کا اصول دیا۔ یہ مذہبی امتیاز کے خلاف بنایا گیا ایک اصول تھا۔‘

رسالے میں اکبر کی سخاوت، مذہبی رواداری اور اس کی حکمرانی کی جمہوری نوعیت کے بارے میں کافی بحث کی گئی ہے۔

Getty Imagesصحافی شرد گپتا کہتے ہیں G-20 کانفرنس میں ترکی بھی موجود تھا اور بہت سے افریقی مسلم ممالک بھی اسی لیے رسالے میں کسی مسلمان بادشاہ کی تعریف کی گئی ہو گی۔جی 20 کانفرنس کے میگزین میں اکبر کے بارے میں کیا لکھا ہے؟

جی 20 کانفرنس کے لیے جاری ہونے والے میگزین میں اکبر کو ایک جمہوری، روادار بادشاہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا۔

بی جے پی حکومت کا یہ قدم چونکانے والا لگتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب بی جے پی کے کئی لیڈر اکبر سمیت مغل حکمرانوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

مگر کیا حکومت اس کے ذریعے کوئی سیاسی پیغام دینا چاہتی ہے؟

سینیئر صحافی شرد گپتا کہتے ہیں کہ ’الیکشن آ رہے ہیں۔ اس لیے حکومت اقلیتوں کو پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ خاص طور پر عالمی رہنماؤں کے سامنے۔ آپ تاریخ کو اچانک تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے اکبر کو امن اور جمہوریت کا علمبردار قرار دیا جا رہا ہے۔

’جی 20 کانفرنس میں ترکی بھی موجود تھا اور بہت سے افریقی ممالک بھی، جہاں اسلام بنیادی مذہب ہے۔ اسی لیے رسالے میں کسی مسلمان بادشاہ کی تعریف کی گئی ہو گی۔‘

پچھلے کچھ سالوں میں بی جے پی کے مسلم نمائندوں کا انڈین پارلیمنٹ میں پہنچنا تقریباً بند ہو گیا ہے۔

ایسے میں کیا مودی حکومت عالمی برادری کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر رہی؟

کیا جی 20 کانفرنس کے میگزین میں اکبر کی بطور مہربان بادشاہ کی تعریف اسی حکمت عملی کا حصہ ہے؟

شرد گپتا کہتے ہیں، ’بی جے پی کے پاس راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں کوئی مسلم چہرہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں بھی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہ دیں۔ لیکن G-20 ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی۔ اس لیے وہاں اپنا جامع چہرہ دکھانے کی ضرورت تھی۔‘

وہ کہتے ہیں، ’بی جے پی کی اس حکومت کو دنیا میں اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اقلیتوں کو عزت اور جگہ نہیں دیتی۔ اس لیے مودی حکومت نے G-20 کانفرنس کے میگزین میں اکبر کی رواداری کی تعریف کرکے بین الاقوامی برادری کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ دنیا سوچتی ہے۔‘

مصنفہ پاروتی شرما نے ’اکبر آف ہندوستان‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اکبر کے تمام پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔

بی بی سی ہندی نے ان سے پوچھا کہ جی 20 کانفرنس کے میگزین میں اکبر کی تعریف کرنے کا کیا مطلب ہے؟

جواب میں انھوں نے کہا کہ ’بی جے پی مسلمان یا مغل بادشاہوں کو ایسے دکھاتی ہے جیسے وہ غیر ملکی حملہ آور حکمران ہوں اور ہندوستانی معاشرے میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا، ایسے میں اگر حکومت کی جی 20 کانفرنس کے میگزین اکبر کی تعریف کی گئی ہے تو یہ یقینی طور پر ایک تضاد ہے۔‘

قدیم زمانے سے ہندوستانی معاشرے میں جمہوری اقدار پر بات کرنے کے لیے دیگر مثالیں دی جا سکتی تھیں۔

مہاجن پداس کے وقت، اتفاق رائے سے بادشاہ کے انتخاب سے لے کر بعد کے بادشاہوں کے جمہوری طریقوں تک ہر چیز پر بحث کی جا سکتی تھی۔

لیکن جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اکبر کی مثال کیوں دی گئی؟

اس سوال پر پاروتی شرما کہتی ہیں، ’یہ حکومت خود کو سیکولر، تنوع کا احترام کرنے والی اور بین الاقوامی فورمز پر شامل ہونے والی قرار دیتی ہے۔ وزیر اعظم یا حکومت کا کوئی بھی سینئر نمائندہ اسے انڈیاکی انفرادیت کہتا ہے۔ انڈیا کا تنوع اس کی طاقت ہے۔ وہ سب کا ساتھ، سب کی ترقی کی بات کرتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ تنوع میں اتحاد ہمارا خاصہ ہے۔ لیکن یہ باتیں صرف بین الاقوامی فورمز پر کہی جا رہی ہیں۔ گھریلو سیاست میں بی جے پی کی پالیسیاں پوری طرح اس کے خلاف جا رہی ہیں۔‘

پاروتی شرما کہتی ہیں، ’اکبر کو ایک استثنیٰ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاریخ کی تحریروں میں اور عام لوگوں کی سوچ میں بھی وہ ’جنونی‘ مسلمان بادشاہوں میں مستثنیٰ ہیں۔

انھوں نے کہا جی 20 کانفرنس کے میگزین سے بھی ظاہر ہے کہ انھیں ایک استثنیٰ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ورنہ یہاں ان کے لیے ’مختلف‘ یا غیر معمولی لفظ استعمال نہ ہوتا۔

پاروتی شرما کا خیال ہے کہ اس رسالے میں صرف اکبر کی ’جمہوریت‘ کو باقیوں سے مختلف بتایا گیا ہے۔ ایک طرح سے یہ اسے ’غیر معمولی‘ دکھانے کی کوشش ہے۔

یہاں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ وہ اکبر کو ہندوستان میں صدیوں سے جاری جمہوری بہاؤ سے کس طرح 'مختلف' کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ وہ جمہوریت جس کی تعریف اس میگزین میں ہو رہی ہے۔

پاروتی شرما کہتی ہیں ’اکبر نے پچاس سال حکومت کی۔ ان کی سوچ، پالیسیاں اور طرز حکمرانی آہستہ آہستہ جامع ہوتا جا رہا تھا۔ وہ سمجھنے لگے کہ انھیں زندگی کے ہر شعبے اور ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ ہندوستانی سلطنت میں ہر مذہب اور نسل کے لوگ چاہتے تھے۔ لہٰذا، صلہ کل یا مذہبی بقائے باہمی اور امن، صلہ کل، کا تصور ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔

’اس لیے، اکبر نے عبادت گاہوں سے متعلق مباحث شروع کیے، جن میں تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ بحث ہوئی۔ ابتدائی طور پر اکبر کے ماتحت زیادہ تر بااثر افراد کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انھوں نے طاقت تقسیم کی۔‘

بی جے پی رہنماؤں کے مغل مخالف بیانات

جی 20 کانفرنس کے میگزین میں اکبر کی توجیح ہو سکتی ہے لیکن بی جے پی لیڈر مغل بادشاہوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ ماہ مدھیہ پردیش میں سنت روی داس مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں کہا تھا، ’جب ہمارے عقائد پر حملے ہو رہے تھے اور ہماری شناخت مٹانے کے لیے ہم پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں، تو سنت روی داس ثابت قدم تھے۔ اور وہ مغلیہ راج کا دور تھا۔ سب سے بڑا گناہ کسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں انھیں کسی کی عزت نہیں ملتی۔‘

اس سال جون میں جب مہاراشٹر کے کولہاپور میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی تو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کے اس بیان پر کافی تنازع ہوا کہ وہ ’اورنگ زیب کے بیٹے‘ ہیں۔

مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ نے بھی ایک بار کہا تھا کہ مؤرخوں نے مہاراجا پرتاپ کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اکبر کو عظیم کہا جاتا ہے لیکن مہاراجا پرتاپ کو عظیم کیوں نہیں کہا جاتا۔ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ مہارانجا پرتاپ ایک قومی لیڈر تھے۔

اکبر کے معاملے پر یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک بار کہا تھا کہ اکبر حملہ آور تھا اور اصل ہیرو مہاراجا پرتاپ ہیں۔ یوگی نے کہا تھا کہ نوجوان جتنی جلدی اس سچائی کو قبول کریں گے، اتنی ہی جلد ملک کو تمام مسائل سے نجات مل جائے گی۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاجپوشی کی تقریب کے 350 ویں سالگرہ پر بحریہ کو شیواجی کے نشان کو اپنانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانیوں کا مغلوں سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے نریندر مودی حکومت نے انڈین بحریہ کے لیے شیواجی سے جڑے نشان کا انتخاب کیا۔

اسی طرح 2020 میں یوگی آدتیہ ناتھ نے تاج محل کے قریب بنائے جانے والے مغل میوزیم کا نام بدل کر چھترپتی شیواجی میوزیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت ان سے کہا گیا کہ مغل ہمارے ہیرو کیسے ہو سکتے ہیں؟ شیواجی کا نام لوگوں میں قوم پرستی اور خود اعتمادی پیدا کرے گا۔نئے اتر پردیش میں ذہنی غلامی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

سنہ 2017 میں، یوپی بی جے پی کے ایم ایل اے سنگیت سوم نے اکبر اور اورنگزیب کو ’غدار‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے نام تاریخ کی کتابوں سے مٹا دیے جائیں۔

سنگیت سوم نے کہا تھا کہ تاج محل ایک ایسے شہنشاہ نے بنایا تھا جس نے اپنے ہی باپ کو جیل میں ڈال کر ہندوؤں کو نشانہ بنایا تھا۔

سنگیت سوم نے تاج محل کو ہندوستانی ثقافت پر داغ قرار دیا تھا جبکہ مرکزی وزیر وی کے سنگھ نے ایک بار اکبر روڈ کا نام مہاراجا پرتاپ رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل اورنگزیب روڈ کا نام عبدالکلام روڈ رکھا گیا تھا۔

بی جے پی لیڈر شائنا این سی نے ایک بار مغل حکمران اکبر کا موازنہ ہٹلر سے کیا تھا۔

تاریخ کی کتابوں سے مغلوں سے متعلق سبق نکال دیا گیا

اس سال اپریل (2023) کے مہینے میں، نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے 12ویں جماعت کی تاریخ کی کتابوں سے مغلیہ سلطنت سے متعلق اسباق کو ہٹا دیا تھا۔

این سی ای آر ٹی نے 12ویں جماعت کے لیے ’تھیمز آف انڈین ہسٹری‘ کے عنوان سے تین حصوں میں تاریخ کی کتاب شائع کی ہے۔

اس کے دوسرے حصے کا سبق 9 – ’بادشاہ اور تاریخ، مغل دربار‘ کتاب سے ہٹا دیا گیا تھا۔

مغل حکمرانوں پر توجہ مرکوز کرنے والا یہ 28 صفحات کا باب این سی ای آر ٹی کی ویب سائٹ پر ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب تاریخ کی نئی کتابوں سے غائب ہے۔

نصاب سے انڈیا کے سابق مسلم حکمرانوں کو ہٹانے کے اس قدم کو ہندوستانی تاریخ سے مغلوں کو ہٹانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

این سی ای آر ٹی کا استدلال ہے کہ یہ طلبا پر نصابی بوجھ کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

تاریخ کی کتاب میں کی گئی تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے میڈیا سے بات کرتے ہوئے، اس وقت کے این سی ای آر ٹی کے سربراہ دنیش سکلانی نے کہا تھا، ’مغلوں کی تاریخ کو نہیں ہٹایا گیا ہے بلکہ طلبہ سے سلیبس سے کا بوجھ کم کرنے کے لیے کچھ حصوں کو کم کیا گیا ہے۔‘

مغل حکمرانوں پر توجہ مرکوز کرنے والا یہ 28 صفحات کا باب این سی ای آر ٹی کی ویب سائٹ پر ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب تاریخ کی نئی کتابوں سے غائب ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More