نیب ترامیم کالعدم: سپریم کورٹ نے احتساب کے قوانین میں کن اصلاحات کو رد کیا؟

بی بی سی اردو  |  Sep 15, 2023

EPA

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے، جس کے تحت عوامی عہدے رکھنے والوں کے خلاف نیب کے مقدمات کی واپسی اور نیب کے پاس پچاس کروڑ روپے سے کم کے مقدمات کی تفتیش نہ کرنے سے متعلق شقیں شامل ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا جبکہ اس بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب سمیت تمام عدالتیں اگلے سات روز میں مقدمات کو متعقلہ عدالتوں میں بھیجنے سے متعلق فیصلہ کریں۔

اس فیصلے میں پلی بارگین سے متعلق ہونے والی ترمیم کو بھی کالعدم قرار دیا گیا۔ فیصلے میں مختلف معاملات میں کی جانے والی انکوائری اور تفتیش کو بھی بحال کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ ترامیم آئین میں مفاد عامہ سے متعلق بنائے گئے قوانین کے خلاف ہیں۔

عمران خان نے نیب کے قوانین میں ترمیم کے خلاف اپنی درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ نیب کے قانون کے سیکشن 2،4،5، 6،25، 26 14،15، 21، 23 میں کی جانے والی ترامیم آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9، 14، 19اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

سپریم کورٹ نے نومبر 2022 میں اس درخواست پر سماعت شروع کی تھی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 40 سے زیادہ سماعتوں کے بعد رواں برس چھ ستمبر کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

نیب کے قانون میں کیا ترامیم کی گئیں؟

نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔

اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہنا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔

قانون میں جواہم ترمیم کی گئی اس میں کہا گیا تھا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ نیب دھوکہ دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو۔

نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔

ان ترامیم کے بعد چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے تین سال کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بنے گا۔

Getty Imagesنیب ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں نے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 50 سے زائد ریفرنس عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر نیب کو واپس کر دیے تھےنیب ترامیم سے کون مستفید ہوا تھا؟

ایک ترمیم کے تحت احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے بھی تین سال کی مدت بھی مقرر کی گئی تھی اور عدالتوں کو ایک سال کے اندر مقدمے کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنایا گیا تھا۔ ترمیمی قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔

قومی احتساب بیورو نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران ترامیم سے فائدہ حاصل کرنے والے ملزمان سے متعلق رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس کے مطابق رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے جبکہ ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر متعلقہ فورمز کو بھیج دیے گئے۔

اسی رپورٹ کے مطابق ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں متعدد سابق وزرائے اعظم سمیت ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنما بھی شامل تھے۔

ان ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں نے سابق صدر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 50 سے زائد ریفرنس عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر نیب کو واپس کر دیے تھے۔

جو مقدمات واپس کیے گیے ہیں ان میں آصف زرداری کے خلاف پارک لین اور منی لانڈرنگ ریفرنس، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس، سابق وزیر اعظم اور موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنس، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ ریفرنس، سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی کے خلاف نیب ریفرنس، اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں مبینہ خرد برد کے ریفرنسز کو واپس کیا گیا ہے۔

احتساب عدالتوں نے مضاربہ سکینڈل اور کمپنیز فراڈ کے وہ ریفرنس بھی نیب کو واپس کر دیے ہیں جن میں متاثرین اور شکایت کنندگان کی تعداد 100 سے کم تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More