Getty Images
’مجھے آمدن بڑھانے کے لیے کوئی اضافی کام یا نوکری چاہیے تمھاری نظر میں کوئی کام ہو تو بتانا۔‘
’اس مہنگائی کے دور میں تم ایک تنخواہ سے گھر کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہو؟ اب تو بل اور گھر کا راشن پورا کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں بچوں کی سکول فیس اور پیٹرول کا خرچ کہاں سے پورا ہو، یہی حالات رہے تو لگتا ہے بچوں کو سکول سے اٹھانا پڑے گا۔۔۔‘
یہ گفتگو اور مسائل پاکستان میں اب کسی ایک گھر یا دفتر تک محدود نہیں۔ ملک میں گذشتہ ڈیڑھ برس سے پیٹرول، گیس، بجلی اور اشیائے خردونوش کی بڑھتی قیمتوں نے ہر طبقے اور شخص کو متاثر کر رکھا ہے۔
بازار میں ملنے والےلوگ یہی گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’ہم گھر کا کرایہ ادا کریں، راشن خریدیں یا بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کریں۔۔۔ بتائیں ہم کیا کریں؟‘
پاکستان میں گذشتہ ڈیڑھ برس سے بڑھتی مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ایسے میں کسی گھر میں صرف ایک کمانے والا ہو تو کیا اس کی محدود آمدن سے گھر چلانا ممکن ہے؟
پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار مہنگائی کی شرح کا تناسب دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید ملک کی بیشتر آبادی کے لیے ایسا ممکن نہیں رہا۔
ایسے میں پاکستان میں کچھ لوگ آمدنی بڑھانے کے مختلف طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ہر کسی کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہے؟ کیا اس کوشش میں ان کو ان دیکھی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے؟
بی بی سی نے چند ایسے افراد سے گفتگو کی ہے جو اپنے گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف ذرائع آمدن یا دوہری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
BBCایک کمپنی میں مارکیٹنگ مینیجر حرا رمضان سنگل مدَر ہیں’اچھی تنخواہ کے باوجود دوسری نوکری کرنی پڑی‘
ایک کمپنی میں مارکیٹنگ مینیجر حرا رمضان سنگل مدَر ہیں اور انھوں نے تین سال قبل اپنے بچے اور خود کا خرچ اٹھانے کے لیے کام شروع کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس مہنگائی کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے، ایک دور میں ایک بندہ گھر کا خرچ اٹھاتا تھا لیکن اب یہ مشکل ہو گیا ہے۔ گھر کا کرایہ، بچوں کا سکول، سودا سلف اور بلز پورا کرنا ناممکن ہے۔‘
اسی لیے حرا نے نوکری کے ساتھ ساتھ اپنا چھوٹا سے کاروبار شروع کیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے دوسری نوکری بھی کی لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچے کو وقت نہیں دے پا رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اچھی تنخواہ مل رہی تھی لیکن اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے مجھے اضافی کام کرنا پڑا۔پہلے میں نے دوسری نوکری کی لیکن اس میں بہت زیادہ وقت لگ رہ تھا۔ پھر میں نے اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔‘
حرا کہتی ہیں کہ دوہری نوکری سے بچے کا وقت بھی کام کی نظر ہوتا ہے اور کام کا دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔
مگر دوسری ملازمت کی بجائے اپنا کاروبار شروع کرنے سے ’میں اپنے وقت اور مرضی کے مطابق پراجیکٹ کا چناؤ کر سکتی ہوں۔‘
BBCوقاص ریستوران کے کام کے بعد رات کو آن لائن کام کرتے ہیں
ایسے ہی ایک اور فرد وقاص ملک ہیں جنھوں نے دو سال قبل اسلام آباد میں ریستوران کے کاروبار کا آغاز کیا اور دو برانچز قائم کی۔ لیکن آج وہ اپنے کاروبار میں گھٹتے منافع کے باعث اضافی نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔
’دو سال پہلے بھی چیلنجز تھے لیکن ڈیڑھ سال سے معیشت کے حالات خراب ہیں، پرافٹ مارجن کم ہے، ایسے میں بس گزارہ ہی ہو رہا ہے۔‘
وقاص اپنی دوسری ملازمت کرنے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پہلے میں نے سوچا فری لانسنگ کروں لیکن پھر مجھے آن لائن نوکری مل گئی۔‘
وقاص ریستوران کے کام کے بعد رات کو آن لائن کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مہنگائی کی بعد چیزوں پر بہت فرق پڑا ہے۔ ایک وقت کے بعد ہمیں کھانے کی قیمت بڑھانی پڑ جاتی ہے تاکہ ریستوران کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ جو لوگ پہلے ہفتے میں ایک بار ریسٹوران آ کر کھانا کھاتے تھے اب وہ مہینے میں ایک بار آتے ہیں۔‘
مگر کاروبار کرنا یا آن لائن کام کرنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
Getty Imagesاضافی روزگار کی تلاش
اس لیے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے حساب سے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے مختلف کام یا روزگار کے ذرائع تلاش کرنے شروع کیے ہیں۔
ملک کے بڑے شہروں میں بہت سے نوکری پیشہ افراد نے دفتر سے چھٹی کے بعد آن لائن ٹیکسی چلانا شروع کر دی ہے۔ مگر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے ان کے اس روزگار کو بھی متاثر کیا ہے۔
ایک ڈرائیور نے بی بی سی کو بتایا کہ پیڑول کی موجودہ قیمت کے باعث اب خرچہ بھی نہیں نکل پاتا۔
اسی طرح اسلام آباد کے ایک پیٹرول سٹیشن پر کام کرنے والے نوجوان نے بتایا کہ ’پیڑول کی قیمت تو بڑھتی ہے لیکن میری تنخواہ اب بھی 25000 ہی ہے۔‘
اس کے لیے اضافی کام کسی بھی گاڑی کے ڈرائیور کی اجازت سے اس کی ونڈ سکرین کو صاف کرنا ہی ہے جو بخوشی اسے ٹپ دے دیں تو ٹھیک ورنہ اس نے اپنا گھر انھیں پچیس ہزار سے چلانا پڑتا ہے۔
بہت سے لوگ دفتر آنے جانے کے لیے اپنی گاڑی کے پیٹرول کا خرچ کار پولنگ کے ذریعے کسی سواری کو بٹھا کر پورا کرتے تھے۔
ایسے ہی چند لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملا تو ان کا کہنا تھا اب دفتر کے بعد گھر جانے کے بجائے وہ اضافی وقت میں یہی کام کرتے ہیں۔
راولپنڈی کی ایک سکول ٹیچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب وہ سکول کے بعد گھر پر کھانا پکا کر فروخت کرتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اضافی کام کرنا چاہتی تھیں لیکن سکول کی نوکری کے ساتھ ایک اور نوکری کرنا آسان نہیں تھا۔
مہنگائی کا اوپر جاتا گراف
ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں بجلی، گیس، پیٹرول اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کا گذشتہ برس سے موازنہ کریں تو واضح ہو گا کہ لوگ دوسری نوکریوں یا ذرائع آمدن بڑھانے پر کیوں مجبور ہیں۔
بجلی کی قیمت کا جائزہ لیں تو مارچ 2022 میں بجلی اوسطاً 18 روپے فی یونٹ دستیاب تھی، جو اب بڑھ کر اوسطاً 30 روپے فی یونٹ ہو چکی ہے۔
اسی طرح گیس کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور گھریلو صارفین کے لیے 400 کیوبک میٹر گیس کا سلینڈر جو 1460 روپے میں دستیاب تھا آج اُس کی قیمت 3100 روپے ہو چکی ہے۔
مارچ 2022 میں پیٹرول 160 روپے فی لیٹر تھا جو اب بڑھ کر 305 روپے فی لیٹر ہو چکا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ آٹا 58 روپے فی کلو سے بڑھ کر 145 روپے فی کلو اور چینی، جو 90 روپے فی کلو دستیاب تھی، اب اس کی قیمت تقریباًدوگنی ہو چکی ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔ مارچ 2022 میں ڈالر کی قیمت 172 روپے تھی جو اب 300 کے آس پاس ہے۔
Getty Images
ملک میں مہنگائی سے جہاں بیشتر افراد دوسرے ذرائع آمدن کی تلاش میں ہیں وہیں غریب اور متوسط طبقے پر اس کے کچھ ان دیکھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک بچوں کی تعلیم چھڑوا کر انھیں کام پر لگانا بھی ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی تقریباً دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
اسی طرح متوسط طبقے کی بات کی جائے تو بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں سے ہٹا کر کم فیس والے سکولوں میں بھیج دیا ہے۔
حل کیا ہے؟
دوہری ملازمت یا کام کرنے سے آمدن بڑھانا طویل مدتی حل نہیں ہے۔ اس لیے معاشی ماہرین حکومت وقت کو درست فیصلوں کا مشورہ دے رہے ہیں۔
انگلینڈ کی لیورپول یونیورسٹی کے ماہر معیشت ڈاکٹر ایاز ملک کہتے ہیں کہ حکومت کو اس مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اپنے درآمدی اور برآمدی کھاتوں کے رجحان کو بدلنا پڑے گا۔
انھوں نے ملک میں چینی کے بحران کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اس لیے پیدا ہوا کہ حکومت نے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی۔‘
’فروری میں ملکی ضرورت اور پیداوار کے غلط اعداد و شمار کی بنا پر ایک ملین ٹن چینی برآمد کی اور اس وقت لوگ مہنگی چینی خریدنے پر مبجور ہیں۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ مقامی اور قومی ضرورت کے مطابق زراعت اور صنعت کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر ایاز ملک کہتے ہیں کہ توانائی کے ذرائع سمیت بہت سے لگژری آئٹمز کِو درآمد کیا جاتا ہے۔ ’حکومت کو انھیں سوچ سمجھ کر امپورٹ کرنا ہو گا۔‘