’یہ منصوبہ ہمارے بغیر ممکن نہیں‘: ترکی کو انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان مجوزہ اقتصادی راہداری پر کیا اعتراض ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 13, 2023

Getty Images

دہلی میں منعقدہدنیا کی بڑی معیشتوں والے 20 ممالک کی تنظیم جی-20 کے سربراہی اجلاس کے دوران انڈیا، امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپی یونین، اٹلی، فرانس اور جرمنی نے 'انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور' کی تعمیر کا معاہدہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں ایک ایم او یو پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔

انڈیا کو یورپ سے جوڑنے والی اس اقتصادی راہداری کے راستے میں ترکی بھی آتا ہے، لیکن اسے اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

معاہدے کے دو دن بعد ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اس منصوبے میں اپنے ملک کی عدم شمولیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ راہداری اُن کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔

دنیا کے نقشے پر ترکی ایک ایسی کڑی ہے جو مغرب کو مشرق سے ملاتی ہے، کیونکہ اس کا کچھ حصہ یورپ اور کچھ حصہ ایشیا میں ہے۔

ترکی نہ صرف تجارتی نقطہ نظر سے مضبوط پوزیشن میں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی اس کا اچھا اثر و رسوخ ہے، وہ نیٹو کا رکن ملک بھی ہے، مگر پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ اسے اس اقتصادی راہداری سے دور رکھا گیا ہے؟

اس کے علاوہ یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ اس منصوبے میں امریکہ کا کیا کردار ہے؟ کیا یہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشیئیٹیو کا مقابلہ کرنے پر مبنی منصوبہ ہے؟

راہدی منصوبہ کیا ہے؟Getty Images

’انڈیا، مڈل ایسٹ-یورپ کوریڈور‘ نامی اس منصوبے پر کام کب شروع ہو گا، کون کون سے ممالک اس پر کتنی رقم لگائیں گے، اور اس کا فائنل روٹ کیا ہو گا؟ اس بارے میں فی الحال زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

انڈین حکومت کے مطابق اس منصوبے میں دو کوریڈور ہوں گے۔ ایک مشرقی راہداری، جو انڈیا کو خلیجی ممالک سے جوڑے گی اور دوسری جانب شمالی راہداری ہو گی، جو خلیجی ممالک کو یورپ سے جوڑے گی اور اس منصوبے کے تحت زمینی، سمندری اور ریل کا ٹریک بچھایا جائے گا۔

اس منصوبے کا مقصد طویل سمندری راستے طے کرنے میں لگنے والے وقت اور ایندھن کی لاگت کو کم کرنا اور انڈیا سے یورپ تک تجارتی رابطے کو مضبوط بنانا ہے۔

دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شعبہ ویسٹ ایشیئن سٹڈیز کی پروفیسر سجاتا ایشوریہ کا کہنا ہے کہ ’اس اقتصادی راہداری کی مدد سے سامان سب سے پہلے ممبئی بندرگاہ سے دبئی کی جبل علی بندرگاہ پہنچے گا اور وہاں سے بذریعہ سڑک یا ریل گاڑی سعودی عرب پہنچایا جائے گا۔¬

وہ بتاتی ہیں کہ ’سعودی عرب میں سڑک یا ریل گاڑی کے ذریعے ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد سامان کو اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک پہنچایا جائے گا، جو پھر یونان کی پریوس بندرگاہ کے راستے یورپ میں داخل ہو گا۔

اگر موجودہ صورتحال کی بات کریں تو ممبئی سے سامان لے کر یورپ جانے والے بحری جہاز بحیرہ عرب، خلیج عدن، بحیرہ احمر سے گزرتے ہیں اور پھر نہر سویز سے نکل کر بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں سے یورپی ممالک کا سفر کرتے ہیں۔

ترکی اس راہداری منصوبے سے کیوں پریشان ہے؟

اس منصوبے میں نظر انداز کیے جانے پر اقتصادی اور معاشی نقصان کے علاوہ ترکی کو کچھ دیگر خدشات بھی ہیں۔

انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سینیئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر فضل الرحمان صدیقی کہتے ہیں کہ ’اسرائیل بھی اس اقتصادی راہداری میں شامل ہے، جس کی وجہ سے اسے امریکی قیادت کے منصوبے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ کا متبادل بنانے کی بات ہو رہی ہے۔‘

اُن کے مطابق ’یہ چیز ان ممالک کو زیادہ پریشان کر رہی ہے جن کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جن میں ایران، ترکی اور مصر جیسے ممالک شامل ہیں۔‘

ڈاکٹر فضل الرحمان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ’بحیرہ روم میں ترکی کا غلبہ ہے، وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں کوئی دوسرا تجارتی محاذ اسے چیلنج کرے اور دنیا میں اس کی سٹریٹجک پوزیشن کمزور ہو۔ اسے خدشہ ہے کہ اب محض اقتصادی راہداری نہیں رہے گی بلکہ جیو پولیٹیکل راہداری میں تبدیل ہو جائے گی۔‘

اس کا مطلب ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے خود کو پیچھے نہیں ہٹا رہا ہے اور وہ اس خطے میں رہنا چاہتا ہے۔

پروفیسر سجتا ایشوریہ کو بھی شک ہے کہ یہ امریکہ کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کی مدد سے امریکا دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم ثابت ہو سکتا ہے اور اس بہانے اسرائیل کو بھی جی 20 میں شامل کیا جا سکتا ہے۔‘

ترکی کے اس اہم منصوبے سے باہر رہنے سے سعودی عرب کو اس خطے میں ایک سٹریٹجک برتری بھی ملے گی اور ترکی کے ’ٹرانس شپنگ زون‘ میں بھی کمی واقع ہو گی۔

ترکی کے ساتھ تعاون کتنا مشکل ہے؟

اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل سے سامان ترکی کی مدد کے بغیر بھی یونان بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ان دونوں ممالک کے درمیان نہیں آتا۔

پروفیسر سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’ریاضی کی زبان میں اگر بات کریں تو سیدھا راستہ سب سے بہتر اور فائدہ مند ہوتا ہے اور اس میں کم وقت بھی لگتا ہے۔ اگر ہم ترکی کو دیکھیں تو وہ قدرے اونچائی پر ہے، جو اس راہداری کے معاملے میں مناسب اور درست نہیں بیٹھتا۔‘

صرف سٹریٹجک نقطہ نظر سے ہی نہیں، ترکی کو ساتھ نہ لانے کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

سجتا ایشوریا کہتی ہیں کہ ’اسرائیل سے ترکی اور پھر وہاں سے یونان پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ قبرص ہے، جو کہ ایک دیرینہ تنازع ہے، اس ہی کی وجہ سے اسرائیل اور ترکی آپس میں پائپ لائن نہیں بچھا سکتے۔‘

ترکی کے نہ صرف قبرص بلکہ یونان کے ساتھ بھی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ کئی بار یونان اور ترکی کے درمیان جنگی حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔

مشرقی بحیرہ روم میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے وسائل اور سمندری حدود پر قبضے کو لے کر کئی بار کشیدہ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ارد گرد کے ممالک کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے باعث ترکی کو اس منصوبے سے باہر رکھا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں ان مشکلات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بھی بچا جا سکے۔

اقتصادی راہداری کی تکمیل کتنی مشکل ہو گی؟

سب سے پہلے تو یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ چین کا ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبہ اس منصوبے کی تکمیل میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

چین کا ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبہ دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جس میں صحاراِ افریقہ کے 38 ممالک، یورپ اور وسطی ایشیا کے 34 ممالک، مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے 25 ممالک، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 17 ممالک شامل ہیں۔ لاطینی امریکہ، امریکہ اور کیریبئین خطے کے 18 ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے 6 ممالک شامل ہیں۔

پروفیسر سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’مجوزہ اقتصادی راہداری منصوبہ کھوکھلا دکھائی دیتا ہے کیونکہ چین پہلے ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مجوزہ راہداری کے تحت ریلوے لائن بچھا رہا ہے، اس لیے نئی راہداری کے لیے دوبارہ ریلوے کی ضرورت ہو گی۔ بہت مشکل اور یہ ایک طرح ایک ہی کام کی نقل کرنے جیسا ہو گا۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’چین کو ساتھ لے کر یہ پراجیکٹ بنانا آسان ہوتا لیکن امریکہ کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔‘

اُن کے مطابق ’سعودی عرب اور انڈیا بھی امریکہ کو عالمی نظام میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے مفادات چین سے زیادہ امریکہ سے ملتے جلتے ہیں۔‘

دوسری جانب ڈاکٹر فضل الرحمان صدیقی اس منصوبے کو چین کے بی آر آئی سے زیادہ جمہوری اور مثبت قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بی آر آئی مکمل طور پر چین سے تعلق رکھتا ہے۔ بہت سے ممالک چین کے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو اس منصوبے میں شامل ہیں۔ جبکہ ’انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور‘ میں بہت سے ممالک سے پیسہ شامل ہو گا اور یہ زیادہ جمہوری ہو گا۔

راہداری سے کتنا فائدہ ہو گا؟

دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نئے کوریڈور کی تعمیر کے بعد انڈیا سے یورپ تک سامان کی ترسیل میں تقریباً 40 فیصد وقت بچ جائے گا اور ٹرانسپورٹ پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔

لیکن پروفیسر سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’نئے کوریڈور میں یورپ پہنچنے کے لیے سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کی ضرورت ہو گی اور اس میں ٹرانسپورٹ کے متعدد طریقے شامل ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے سامان ممبئی کی بندرگاہ سے جہاز میں چڑھایا جائے گا، پھر دبئی میں جہاز سے اتارا جائے گا، ٹرک یا ٹرین میں سوار ہو گا، پھر اسرائیل پہنچ کر جہاز میں لاد دیا جائے گا، اور اس طویل سفر کے بعد یہ سامان یورپ پہنچے گا۔ ایسے میں جب 10 روپے کا سامان ممبئی سے یورپ پہنچتا ہے تب تک اس کی قیمت میں دس گنا اضافہ ہو چُکا ہوتا ہے۔‘

سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’موجودہ دور میں ایک بار جب سامان ایران کی چابہار یا بندر عباس بندرگاہ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ زمینی راستے سے براہ راست یورپ پہنچ جاتا ہے، اسے بار بار لوڈ اور ان لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

دوسری جانب ڈاکٹر فضل الرحمان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’اس راہداری سے کیا معاشی فوائد حاصل ہوں گے اس کے بارے میں کہنا قبل از وقت ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس نئی راہداری سے یقینی طور پر 'گلوبل ساؤتھ' میں ہندوستان کا غلبہ بڑھے گا اور یہ چین کو بہتر انداز میں چیلنج کر سکے گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More