پراسیکیوٹر جنرل اور ڈپٹی چیئرمین کے استعفوں کے نیب کی کارکردگی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 12, 2023

پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) میں رواں دنوں حکام کی جانب سے پے در پے استعفے پیش کیے جانے کے بعد متعدد سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر کے استعفے کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ ڈپٹی چیئرمین نیب ظاہر شاہ بھی ناگزیر ذاتی وجوہات کے باعث مستعفی ہو گئے۔

ڈپٹی چیئرمین نیب ظاہر شاہ اور پراسیکوٹر جنرل اصغر حیدر کے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے سے متعلق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ان افسران نے ذاتی وجوہات کی بنا پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیب کے حکام نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے سے پہلے پیش بندی کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ فیصلہ بھی محفوظ کر چکا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس کی آخری سماعت پر ریمارکس دیے تھے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ (16 ستمبر) سے قبل اس درخواست پر فیصلہ سُنا دیں گے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کروائی گئی، اس میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے جن اہم شخصیات نے فائدہ اٹھایا ان میں سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کا بیٹا بھی شامل ہیں۔

’حکام کے استعفے ظاہر کرتے ہیں نیب میں کچھ بڑا ہونے والا ہے‘

نیب کے سابق ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس کا کہنا ہے کہ ان استعفوں سے نیب کی ورکنگ پر اثر پڑے گا کیونکہ اگر کسی کے خلاف کوئی نئی انکوائری شروع کرنی ہے، پہلے سے جاری انکوائری کو انویسٹیگیشن میں بدلنا ہے یا کوئی نیا ریفرنس فائل کرنا ہے تو اس کے لیےپراسیکیوٹر جنرل کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ نیب کی لیگل ٹیم کی سربراہی پراسیکیوٹر جنرل ہی کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مختلف اداروں یعنی ایف آئی اے یا انسداد رشوت ستانی محکمے کو جو مقدمات بھیجے گئے تھے، ان مقدمات کو واپس لینے کے لیے خط و کتابت بھی پراسیکیوٹر جنرل کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔

راجہ عامر عباس کا کہنا ہے کہ اگر پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں تاخیر ہوئی تو اس سے عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ نگراں سیٹ اپ طاقتور شخصیات کے خلاف کارروائی کرنے میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں تعینات ہونے والے نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان اور اس کے بعد ڈپٹی چییرمین ظاہر شاہ اور پھر پراسیکیوٹر جنرل کا اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نیب میں سب ٹھیک نہیں۔

واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے گذشتہ برس جون میں پارلیمنٹ سے نیب آرڈیننس میں 27 ترامیم منظور کی تھیں اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے اس ترمیمی آرڈیننس کی منظوری نہ ملنے کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے اس آرڈیننس کی منظوری دلوائی گئی تھی۔

اس قانون سازی کے تحت اب بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے۔

اس قانون میں جو سب سے بڑی ترمیم کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ نیب پچاس کروڑ سے کم مالیت کے مقدمات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔

اس کے علاوہدھوکہ دہی کا مقدمہ جس میں متاثرین کی تعداد ایک سو سے زائد ہو تو پھر ہی یہ معاملہ نیب دیکھ سکتا ہے۔

نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کی طرف سے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو اس سے یہ تاثر جائے گا کہ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ اس فیصلے کو طاقتور حلقوں کی بھی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ موجودہ نگراں سیٹ اپ اور اسٹیبلشمینٹ نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔

یاد رہے کہ نیب کے قانون میں ترامیم کے بعد سے 50 کے قریب ریفرنسز متعقلہ احتساب عدالتوں سے واپس نیب کو بھجوائے گئے ہیں۔

’ان استعفوں سے نیب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘Getty Imagesاس قانون میں جو سب سے بڑی ترمیم کی گئی، اس میں کہا گیا ہے کہ نیب پچاس کروڑ سے کم مالیت کے مقدمات کی تحقیقات نہیں کر سکتا

نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ان عہدوں سے مستعفی ہونے والے افراد کا متبادل تعینات کرنے کا اختیار چیئرمین نیب کے پاس ہے۔

انھوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسیکوٹر جنرل کے عہدوں سے مستعفی ہونے سے نیب کی ورکنگ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کسی بھی ایسے شخص کو جس کا وکالت میں پریکٹس کا 15 سال کا تجربہ ہو اور وہ ہائیکورٹ کا جج بننے کی اہلیت پر پورا اُترتا ہو تو اس کو پراسیکیوٹر جنرل تعینات کرنے کی سمری حکومت کے توسط سے صدر مملکت کو بھجوا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی فوری نوعیت کے معاملات ہوں تو چیئرمین نیب، ادارے کے کسی بھی ایڈیشنل پراسیکیوٹر کو پراسیکیوٹر جنرل کا اضافی چارج دے سکتے ہیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ڈائریکٹر جنرل رینک کے افسر کو بطور ڈپٹی چییرمین نیب تعینات کرنے کی سفارش وفاقی حکومت کو کر سکتے ہیں اور پھر وفاقی حکومت ان سفارشات کی روشنی میں ڈپٹی چیئرمین نیب کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More