BBCصاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے شوہر زندہ بھی ہیں یا فوت ہو گئے ہیں
’جو لوگ پیسے کمانے بیرون ممالک جاتے ہیں انھیں کم از کماس عورت کے بارے میں بھی ضرور سوچنا چاہیے جنھیں وہ اپنے گھر میں اکیلا چھوڑ کر جاتے ہیں۔‘
یہ الفاظ شکر گڑھ کی چالیس سالہ خاتون صاعقہ نجیب کے ہیں جن کے شوہر بارہ سال قبل غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک گئے اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔
صاعقہ نجیب ایک باہمت خاتون ہیں جنھوں نے شوہر کی عدم موجودگی میں ان کی مالی معاونت کے بغیر نہ صرف اپنے پانچ بچوں کی پرورش کی، ان کو پڑھایا لکھایا بلکہ اب وہ اس قابل ہو گئیں ہیں کہ اپنی بڑیبیٹی کو مزید تعلیم دلوانے کے لیے قانونی طریقے سے بیرون ملک بجھوا رہی ہیں۔
صاعقہ نجیب نے بتایا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر میڈیکل ریپ (دوائیوں کی کمپنی میں کام کرتے تھے) کا کام کرتے تھے اور وہاں سے جو تنحواہ ملتی تھی اس سے گھر کا خرچہ چلنا مشکل ہو گیا تھا، جس کو دیکھتے ہوئے ان کے شوہر نے بیرون ملک جانے کے بارے میں سوچا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے شوہر غیر قانونی طریقے سے ترکی اور پھر یونان اور اس کے بعد اٹلی پہنچے اور اٹلی پہنچنے میں انھیں دو سال کا عرصہ لگا اور اس دوران ان کا اپنے شوہر سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
صاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے شوہر زندہ بھی ہیں یا فوت ہو گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تین سال کے بعد کسی جاننے والے نے بتایا کہ ان کے شوہر زندہ ہیں اور اس وقت وہ اٹلی میں ایک دوبارہ آباد کاری والے سینٹر میں ہیں، جہاں پر ان کا علاج چل رہا ہے کیونکہ اس سفر کے دوران انھیں بہت سے نامساعد حالات سے گزرنا پڑا جس کا اثر ان کے ذہن پر ہوا۔
BBCصاعقہ نجیب ایک باہمت خاتون ہیں جنھوں نے شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے پانچ بچوں کی پرورش کی’کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے‘
صاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ شوہر کے بیرون ملک جانے کے بعد سسرال والوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے انھیں اپنے پانچ بچوں سمیت گھر چھوڑ کر سر چھپانے کے لیے کرائے پر گھر لینا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور ان کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے بہت کم تنخواہ پرایک نجی کمپنی میں ریسیپشنسٹ کی نوکری شروع کی۔
انھوں نے کہا کہ ان کمپیسوں میں کبھی کھانے کو ملتا تھا اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ دن میں صرف ایک وقت کا ہی کھانا کھاتے تھے بلکہ بچوں کے سکولکی فیس بھی کئی کئی ماہ کی ادا نہیں کی جاتی تھیں لیکن مدد کے لیے انھوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ وہ کرائے کے گھر میں رہتی تھیں اور چھ ماہ کا کرایہ نہ دینے پر مالک مکان نے ان کا سامان ضبط کر لیا تھا جو کہ تھوڑے تھوڑے پیسے دے کر واپس لیا۔
BBCصاعقہ کے شوہر جب غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک گئے تو اس وقت ان کا سب سے چھوٹا بیٹا پیدا ہوا تھا جو اس وقت بارہ سال کا ہےمینیجر سے بزنس پارٹنر
صاعقہ نجیب نے نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور وہ نئے مواقعوں کی تلاش میں رہیں اور پھر اس دوران ان کی ملاقات ایک تاجر سے ہوئی جنھوں نے فاسٹ فوڈ کا بزنس شروع کرنے میں دلچسپی ظاہر کی اور صاعقہ نجیب کو اس کی مینجمینٹ سنبھالنے کو کہا۔
فاسٹ فوڈ کے کاروبار چلانے کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود صاعقہ نجیب نے اس کو چیلنج سمجھتے ہوئے اس کی حامی بھرلی۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور کھانا پکانے کا تجربہ تھا اس لیے انھوں نے یہ کام کرنے کی ٹھان لی۔
انھوں نے کہا کہ شکر گڑھ ضلع ناروال کی تحصیل ہے اور یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی پروڈکٹ کی سیل کے لیے گلی گلی محلہ محلہ پیدل گھومتی رہیں اور بلاآخر وہ اس کاروبار کو چلانے میں کامیاب ہو گئیں۔
صاعقہ نجیب تین سال سے کامیابی کے ساتھ یہ بزنس چلا رہی ہیں اور اب وہ مینیجر سے بزنس پارٹنر بن گئی ہیں۔صاعقہ نجیب کے اپنے کیفے میں زیادہ تر ویٹرز لڑکیاں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ لڑکیاں ہیں جو نامساعد حالات کا شکار ہیں۔
اس عرصے کے دوران صاعقہ نجیب نے شکر گڑھ میں ایک پانچ مرلے کا پلاٹ خرید کر گھر بنایا، جہاں پر وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں اور ان کے بچے تعلیم کے لیے اچھے پرائیویٹ سکولوں میں جا رہے ہیں۔
BBCصاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ اب وہشوہر کی وجہ سے جذبات کی رو میں بہہ جانے والی خاتون نہیں رہیں’اب میرے لیے شوہر کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں‘
انھوں نے کہا کہ ان کے بچوں کا اپنے والد کے ساتھ واٹس ایپ پر رابطہ ہوتا ہے تاہم صاعقہ نجیب کے بقول ابھی تک ان کے شوہر انھیں گھر چلانے یا بچوں کی تعلیم کے لیے پیسے نہیں بھیجتے کیونکہ اتنا عرصہ گزرنے جانے کے باوجود اٹلی میں ان کا سٹیٹس لیگل نہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب ان کے شوہر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک گئے تو اس وقت ان کی عمر بمشکل انتیس یا تیس سال تھی لیکن وہ پانچ بچوں کو لے کر جینے کی کوشش کر رہی تھیں۔
صاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جذبات سمیت بہت ساری چیزوں کی قربانی دے کر اپنے بچوں کی خاطر گھر سے باہر نکلیں اور اب وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں کہ جو کوششیں انھوں نے اپنے بچوں کےبہتر مستقبل کے لیے شروع کی تھیں ان کا ثمر انھیں ملنا شروع ہو گیا اوران کے بچے تعلیم میں بہتر پوزیشن لے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ ان کے بچے پڑھائی میں تیز ہیں اس لیے وہ اپنی بڑی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیےقانونی طریقے سے پرتگال بجھوا رہی ہیں۔
صاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ اب وہ شوہر کی وجہ سے جذبات کی رو میں بہہ جانے والی خاتون نہیں رہیں کیونکہ انھوں نے نامساعد حالات کا جم کر مقابلہ کیا اور ’اب میرے لیے اس کا ہونا یا نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جب ان کے شوہر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک گئے تو اس وقت ان کا سب سے چھوٹا بیٹا پیدا ہوا تھا جو اس وقت بارہ سال کا ہے۔
صاعقہ نجیب کا کہنا تھا کہ ان کے بچے اپنے والد کی شفقت سے تو محروم رہے لیکن شاید ان سے اپنی والدہ کی وہمحبت بھی ان سے چھن گئی، جس کے وہ حقدار تھے۔