سارہ اتنی بُری طرح زخمی تھیں کہ اُن کی والدہ مردہ خانے میں اپنی بیٹی کو ’پہچان نہیں پائیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 06, 2023

برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والے 10 سالہ سارہ شریف کی والدہ اور نانی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی میت کو مردہ خانے میں بمشکل پہچانا کیونکہ اس کا چہرہ بُری طرح زخمی تھا۔

سارہ کی والدہ اولگا شریف کا کہنا تھا کہ سارہ کے ایک گال پر سوجن تھی اور دوسری جانب چوٹیں تھیں۔

’آج بھی جب میں اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں، تو میں دیکھ سکتی ہوں کہ میرا بچی کیسی لگ رہی تھی۔‘

سارہ 10 اگست کو ووکنگ میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی۔ پولیس ان کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں خاندان کے تین افراد سے تفتیش کرنا چاہتی ہے۔

وہ سرے کے مکان میں اپنے والد، سوتیلی ماں، اپنے چچا اور اپنے پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ ان کے والد عرفان شریف، سوتیلی ماں بینش بتول اور خاندان کے دیگر افراد 9 اگست کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

پاکستان میں پولیس انھیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سرے پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ سارہ کو ’متعدد اور شدید چوٹیں آئیں جو ممکنہ طور پر طویل عرصے تک رہیں تھیں۔‘

پولش ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اولگا شریف کا کہنا تھا کہ وہ 2015 میں عرفان شریف سے علیحدہ ہو گئی تھیں۔ سارہ اور ان کے ایک بھائی ابتدا میں والدہ کے ساتھ رہتے تھے مگر بعدازاں عدالت نے بچوں کی کسٹڈی والد کے حوالے کر دی تھی۔

اولگا شریف بنیادی طور پر پولینڈ سے تعلق رکھتی ہیں اور برطانیہ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو وہ اپنے دو بچوں کو باقاعدگی سےملتی تھیں لیکن پھر حالات مشکل ہو گئے۔ انھوں نے ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’ان کی سوتیلی والدہ نے مجھے کہا کہ میں مزید نہ آؤں، کیونکہ بچے مجھے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔‘

’یہ معمول کی بات نہیں ہے کہ ایک مرتبہ بچے خوش ہوتے ہیں، اور اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ پہلے ماں سے کون بات کرے گا، اور پھر بچے مجھ سے فون پر بھی بات نہیں کرنا چاہتے اور مجھے بدترین ناموں سے پکارتے ہیں۔‘

سارہ کی نانی سلویا کرز کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی چاہتی ہیں کہ عرفان شریف کی کسٹڈی میں موجودہ سارہ کے بھائی کو واپس کر دیا جائے۔

’اولگا اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو واپس لانا چاہتی ہیں۔‘

’میرا نواسا 13 سال کا ہے، اس لیے اسے معلوم ہو گا کہ سارہ کے ساتھ کیا ہوا۔‘

اولگا کا کہنا تھا کہ جب ان کی شادی عرفان شریف سے ہوئی تھی تو انھوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ بی بی سی ان کے دعووں کا جواب دینے کے لیے عرفان شریف سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔

’پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے، میرے بیٹے عرفان نے بتایا یہ ایک حادثہ تھا‘BBCسارہ کے دادا اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے

10 سالہ سارہ شریف کے دادا محمد شریف کا کہنا ہے کہ سارہ کے والد کے مطابق ان کی ’بیٹی کی موت محض ایک حادثہ تھی۔‘

عرفان شریف کے والد محمد شریف نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو پاکستان آنے کے بعد دیکھا تھا۔

سارہ کے دادا کے مطابق ’یہ ایک حادثہ تھا تاہم میرے بیٹے نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا۔ اس کے بعد عرفان نے خوفزدہ ہو کر برطانیہ چھوڑ دیا تھا۔‘

سارہ کے دادا نے تصدیق کی کہ انھوں نے اپنے بیٹےعرفان کو پاکستان میں اس وقت دیکھا جب وہ جہلم آئے تھے جہاں نہ صرف ان کا بچپن گزرا تھا بلکہ وہاں اب بھی ان کے خاندان کے دیگر افراد رہائش پذیر ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر سارہ کی موت ایک حادثہ تھی تو عرفانپاکستان کیوں چلے آئے تو محمد شریف نے جواب دیا کہ ’ڈر کی وجہ سے۔‘

’اس کی بیٹی مر گئی تھی اور ظاہر ہے جب آپ اتنے بڑے صدمے کا سامنا کرتے ہیں تو آپ ٹھیک طرح سے سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنے بیٹے کے پاکستان آنے کے فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو محمد شریف نے کہا ’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ انھیں کیس کا سامنا کرنا چاہیے تھا اور پاکستان آنے کی بجائے وہیں رکنا چاہیے تھا۔‘

عرفان کے والد نے دعویٰ کیا کہ ’میرا بیٹا بالآخر برطانیہ واپس جائے گا اور اپنے کیس کا سامنا کرے گا۔‘

یاد رہے کہ برطانیہ میں 10 سالہ پاکستانی بچی سارہ کے قتل کے معاملے پر تین افراد کی بین الاقوامی سطح پر تلاش کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں پولیس کئی ہفتوں سے عرفان شریف، ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور ان کی 29 سالہ بیوی بینش بتول کی تلاش کر رہی ہے۔

برطانوی پولیس کے مطابق انھیں 10 اگست کی صبح اطلاع ملی تھی کہ انگلینڈ کی کاؤنٹی سرے کے قصبے ووکنگ کے ایک گھر میں بچی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔

بچی کی لاش 10 اگست کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً دو بج کر 50 منٹ پر ان کے خالی گھر سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹمکی رپورٹ میں سارہ کے جسم پر بے شمار گہرے زخم پائے گئے ہیں۔

برطانیہ کی پولیس سارہ کی موت کی تفتیش کے سلسلے میں خاندان کے تین افراد سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن وہ تینوں افراد نو اگست کو سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل برطانیہ چھوڑ کر پاکستان جا چکے تھے۔

’سارہ میری بہت پیاری پوتی تھی‘

سارہ کے دادا اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔

’مجھے اپنی پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے اور اس کے جانے کا غم اب زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سارہدو مرتبہ پاکستان آئی تھیں۔ اس کی ہر بات بہت پیاری تھی۔ وہ میری بہت پیاری پوتی تھی۔‘

انھوں نے اپنے بیٹے عرفان شریف کے لیے براہ راست پیغامبھی دیا۔ ’وہ جہاں بھی ہوں گے، وہ یہ بات سن سکیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ انھیں سامنے آ کر اپنے کیس کا دفاع کرنا چاہیے، چاہے کچھ بھی ہو۔ انھیں پولیس کی تفتیش میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دینے چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انھیں چھپ کر رہنا چاہیے۔‘

’میرے کچھ بیٹے فرار تو کچھ پولیس کے پاس ہیں‘

پاکستانی پولیس کے مطابق ’برطانیہ سے آنے والے سارہ کے خاندان کے افراد 10 اگست کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترے تھے جہاں سے انھوں نے جہلم شہر کا سفر کیا تھا۔ وہ جہلم میں کچھ دن ٹھہرے تھے، ڈومیلی گاؤں میں چند گھنٹے رکے اور 13 اگست کو وہاں سے روانہ ہوئے۔‘

سارہ کے دادا حال ہی میں اپنے بیٹے عرفان کے ساتھ رابطے میں آنے کی تردید کرتے ہیں۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سارہ کے خاندان نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ عرفان ان سے بالکل نہیں ملے تاہممحمد شریف کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے ملاقات کی کبھی تردید نہیں کی۔

جہلم کی پولیس عرفان کے پاکستان میں مقیم خاندان کے افراد کو دو بار عدالت میں پیش کر چکی ہے۔پولیس پرعرفان کے بھائیوں اور بھابھیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کا الزام ہے۔

پہلی مرتبہپولیس نے یقین دہانی کروائی کہ وہ انھیں مزید گرفتار نہیں کرے گی تاہم منگل کو عدالت میں پیشی کے موقع پر پولس نے انھیں حراست میں لینے کی تردید کی۔

عدالت میں جج نے پولیس کو دو ہفتوں میں واقعے کی مفصل رپورٹ پیش کر نے کا حکم دیا۔

محمد شریف نے بی بی سے کہا ’گزشتہ تین ہفتوں میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے کچھ بیٹے فرار ہیں، کچھ پولیس کے پاس ہیں۔ پولیس کے ڈر سے کوئی ہم سے رابطہ نہیں کر رہا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More