اس جہاز کی حتمی منزل امریکہ میں نیو یارک کا شہر تھا لیکن پانچ ستمبر 1986 کو فلسطینی شدت پسندوں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر اس جہاز کو 16 گھنٹے کے لیے ہائی جیک کیا جس کا خونی اختتام 22 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہوا جبکہ اس واقعے میں 150 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے نے دنیا کو چونکا دیا تھا جس پر بعد میں ایک فلم بھی بنی لیکن جہاز کا بچ جانے والے عملہ کافی مدت تک خاموش رہا۔
پین ایم فلائٹ 73 کو کراچی ایئر پورٹ پر ہائی جیک کیے جانے کے واقعے کے لگ بھگ 30 سال بعد یعنی سنہ 2016 میں جہاز کے عملے کے چھ اراکین نے پہلی بار میڈیا سے بات کی تو فلائٹ اٹینڈنٹ نوپر ابرول نے بی بی سی نیوز کو بتایا تھا کہ ’میرا پہلا ردعمل ہنگامی دروازہ کھول کر اتنے مسافروں کے ساتھ فرار ہو جانے کا تھا جتنا ممکن ہو سکتا لیکن پھر میں نے سوچا کہ باقی مسافروں کا کیا ہو گا۔‘
ہائی جیکنگ کے ایک ہفتے کے بعد جہاز کے عملے نے ایف بی آئی کو واقعات کی تفصیل فراہم کی تھیں اور بعد میں 2005 میں مرکزی ملزم کے پیرول کی سماعت میں بھی شرکت کی لیکن پہلی بار انھوں نے تفصیل سے اس جہاز میں پیش آنے والے ان واقعات پر بات کی جن میں عملے کی ایک رکن نیرجا بھنوت بھی ہلاک ہوئی تھیں۔
ان کے مطابق انھوں نے اپنی خاموشی اس لیے توڑی کیونکہ وہ جہاز پر سوار تمام افراد کے کردار کو سراہنا چاہتے تھے جن کے بارے میں عام لوگ زیادہ نہیں جانتے۔
اس واقعے پر سنہ 2016 میں بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جو آج ذیل میں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔
عملے کی رکن نوپر ابرول نے بی بی سی کو بتایا کہ’مجھ سمیت میرے ساتھیوں کے لیے ہائی جیکنگ کا یہ واقعہ ختم نہیں ہوا۔ بچ جانے والے مسافروں اور عملے کے اراکین اب تک ماضی کی تکلیف سے گزر رہے ہیں، اس واقعے کی پہلیاں سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
’ہماری کہانیاں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ان سب کہانیوں کی روح ایک جیسی ہے۔‘
AFP
پانچ ستمبر کو پین اے ایم 73 فلائٹ ممبئی سے نیو یارک کے لیے جا رہی تھی جو کراچی میں تھوڑے وقفے کے لیے رُکی تھی جہاں سے اسے فرینکفرٹ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس طیارے میں 300 سے زائد مسافروں کے علاوہ 14 عملے کے افراد سوار تھے جس میں سے 12 فلائٹ کے پرواز بھرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
صبح چھ بجے چار بندوق بردار ایک گاڑی میں اس طرح سوار ہو کر آئے جیسے وہ ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا عملہ ہو۔ مگر جلد ہی یہ لوگ ہوا میں فائرنگ کرتے ہوئے جہاز میں داخل ہو گئے۔
طیارہ اغوا کرنے والوں کا تعلق ابو ندال تنظیم (اے این او) سے تھا جو فتح انقلابی کونسل کے نام سے بھی جانی جاتی تھی۔ یہ گروپ اب غیر متحرک ہے لیکن امریکہ، اسرائیل اور یورپی یونین نے اسے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔ 1970، 1980 میں اس گروپ پر متعدد حملوں کا الزام لگا۔
نوپر نے ان مسلح افراد کو اپنے ساتھیوں کے پیروں کے پاس فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جو حملہ آوروں کو دیکھ کر جہاز کے دروازے بند کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
فلائٹ کی ایک میزبان (ایئرہوسٹس) شیرین پون نے اسی وقت ہوشیاری سے کاک پٹ کو خالی کرانے کے لیے ایمرجنسی بٹن دبا دیا اور دوبارہ ایسا کرنے پر پائلٹ نے ان کی کال لے لی اور پائلٹ چپکے سے کاک پٹ سے نکل گئے۔
ایک دوسری فضائی میزبان سن شائن ویزوالا نے دیکھا کہ ایک ہائی جیکر نے ان کی ساتھی نرجا بھنوت کے سر پر بندوق تان رکھی ہے۔
ایک دوسرے ہائی جیکر نے سن شائن کو کیپٹن کے پاس چلنے کو کہا۔
سن شائن کہتی ہیں کہ انھیں پتہ چل گيا تھا کہ کاک پٹ کو خالی کرنے کا اشارہ کیا جا چکا ہے لیکن ’میں نے دانستہ طور پر اس بات کو نظر انداز کیا اور تھوڑی تاخیر بھی کی تاکہ اگر پائلٹ نہ نکلے ہوں تو اب بھی انھیں باہر جانے کا وقت مل جائے۔ ہائی جیکر کو جہاز کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں تو اس نے اس بات کا نوٹس بھی نہیں لیا۔‘
وہ کہتی ہیں: ’بہت سے لوگوں نے اس بات پر نکتہ چینی کی کہ پائلٹ باقی عملے کو چھوڑ کر کیسے باہر نکل گئے، لیکن مجھے جب پتہ چلا کہ پائلٹ جہاز چھوڑ کر جا چکے ہیں تو مجھے بڑا سکون ہوا کیونکہ ہم فضا میں اڑنے کے بجائے اس صورت میں زمین پر زیادہ محفوظ تھے۔ اور اس لیے بھی کہ کم سے کم تینوں پائلٹوں کی جان تو بچ گئی۔‘
عملے کے ایک اور رکن دلیپ بیڈیچندانی بھی اسی موقف کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’پائلٹ کا جہاز سے باہر نکل جانے کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم شدت پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں رہیں گے جو کہیں بھی جہاز لے جانے کی ہدایت کرتے یا پھر دوران پرواز اسے اڑا دیتے۔‘
بندوق برداروں کا منصوبہ یہ تھا کہ جہاز کو قبرص یا پھر اسرائیل لے جایا جائے، اسی لیے وہ پائلٹ بھیجنے کے مطالبے پر بضد تھے۔
ادھر کراچی ایئر پورٹ پر پین ایم فلائٹ کے آپریشن کے ڈائریکٹر وراف ڈوگرا نے بندوق برداروں سے بات چیت شروع کی اور انھیں یقین دلاتے رہے کہ پائلٹ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
اسی دوران 29 سالہ امریکی مسافر راجیش کمار کو ان کی سیٹ سے گھسیٹ کر کھلے والے دروازے پر لا کر انھیں جھکنے کو کہا گیا اور پھر جب ایک گھنٹہ ہونے کے باوجود بھی کوئی پائلٹ نہیں آیا تو ان کے سر میں گولی مار دی گئی اور انھیں جہاز کے باہر پھینک دیا گیا۔
سن شائن کہتی ہیں کہ ’بس اسی سے سب کچھ بدل گیا اور ایسا لگا کہ ہائی جیکر بے رحم قاتل ہیں۔‘
ایک گھنٹہ اور گزرنے کے بعد ہائی جیکروں نے فلائٹ میں سوار امریکی شہریوں کی شناخت کرنی شروع کی۔
لیکن مادھوی بہوگنا اور ایک دوسری ایئر ہوسٹس نے چپکے چپکے مسافروں کے پاسپورٹ جمع کرنے شروع کر دیے تھے تاکہ مسافروں کی شناخت کا پتہ نہ چل سکے اور امریکیوں کے پاسپورٹ لے کر ان لوگوں نے کہیں سیٹ کے نیچے تو کہیں اور ادھر ادھر چھپا دیے تھے۔
اس جہاز میں سوار ایک مسافر مائیک تھیکسٹن نے اس واقعے پر ’واٹ ہیپن ٹو دی ہیپّی مین‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انھوں نے فلائٹ کی ایئر ہوسٹسوں کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے: ’مجھے لگتا ہے اس دن نے یہ ثابت کر دیا کہ اس فلائٹ کا عملہ اس صنعت کے بہترین کارکنوں میں سے ایک تھا۔‘
جب ہائی جیکرز کسی امریکی کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے ایک برطانوی شہری مائیک پر اکتفا کرتے ہوئے اسے جہاز میں نیچے بٹھا کر اس کے ہاتھ سر پر رکھوا دیے۔ تاہم صرف ایک بار لات مارے جانے کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ ان کو جسمانی طور پر اذیت نہیں دی گئی اور وہ آخری لمحات میں زندہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
شیرین اور سن شائن اس کیبن کریو کا حصہ تھے جنھوں نے مرکزی ہائی جیکر زیاد حسن عبدالطیف سفرانی کے ساتھ سب سے زیادہ وقت بتایا۔ وہ کئی بار ان دونوں کو اسلحے کے زور پر جہاز کے اگلے مقام تک لے کر گئے اور ان کو باہر جھانکتے وقت انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کیا۔
شیرین بتاتی ہیں کہ ’وہ میرے بال پکڑ کر میرا چہرہ کھڑکی کی جانب کر کے سوال کرتا کہ باہر کیا نظر آ رہا ہے۔ وہ کہتا کہ اسے امریکی لڑاکا جنگی طیاروں کی آمد کا خدشہ ہے۔‘
مہرجی خاراس 28 سالہ مکینک تھے جن کو مذاکرات کرنے والوں سے ریڈیو پر رابطہ قائم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت ہائی جیکرز کا خیال تھا کہ جہاز کو اڑانے کے لیے کسی پائلٹ کو تلاش کر لیا جائے گا۔
سن شائن کا کہنا ہے کہ ان پُرخطر لمحات میں کئی بار سفرانی نے ان سے مذاق اور فلرٹ کیا اور ان کو اپنے ساتھ قبرص لے جانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انھیں تیراکی سکھائیں گے۔
لیکن سن شائن چوکنا رہیں۔ ایک موقع پر انھوں نے ایمرجنسی دروازہ کھولنے کے لیے موجود کلہاڑی کی جانب دیکھا جو کاک پٹ میں شیشے کے ایک ڈبے میں موجود تھی تو سفرانی نے اپنی بندوق کا رخ ان کے سر کی جانب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا سوچنا بھی مت۔‘
آخرکار ہائی جیکرز نے دھمکی دی کہ اگر پائلٹ فراہم نہیں کیا گیا تو وہ ہر 15 منٹ بعد ایک مسافر کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔
نپور ابرول نے مسافروں کو تسلی دینے کی کوشش کہ جب کہ ان کے ساتھی دلیپ نے سینڈوچ مہیا کیے اور نیرجا نے پانی دیا۔
سٹیورڈ ماسی کیسپر نے کہا کہ ’اس دن جانے انجانے میں ہم ایک ٹیم بن گئے اور ہم نے اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا اپنا کردار نبھایا۔‘
ہائی جیکرز جہاز کے دروازے بند کر چکے تھے لیکن ایئر کنڈیشنر اور بتیاں چل رہے تھے۔ شام ہوئی تو جہاز کی پاور سپلائی کم ہونا شروع ہو گئی، بتیاں مدھم ہوئیں اور ایئر کنڈیشنر نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
مہرجی نے سفرانی کو بتایا کہ ایمرجنسی پاور 15 منٹ کے بعد بند ہو جائے گی اور جہاز میں اندھیرا چھا جائے گا۔ شیرین کہتی ہیں کہ ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وقت کم رہ گیا ہے۔
جس وقت بتیاں بجھیں، فلائٹ اٹنڈینٹ اور مسافر کیبن کے وسطی حصے میں موجود تھے۔ بہت سے لوگ نیچے بیٹھے تھے اور کچھ دروازوں کے قریب تھے۔
سن شائن کہتی ہیں کہ ایسے میں ہائی جیکرز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، ’انھوں نے ایک جنگی نعرہ بلند کیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ اندھیرے میں روشنی کی لہریں پھیلیں اور دوسری جانب سے چیخیں۔‘
شیرین نے دیکھا کہ مکینک مہرجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس افراتفری اور اندھیرے میں کم از کم تین دروازے کھل چکے تھے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہوا۔ جہاز کے پر کے قریب موجود دروازہ فرار کا سب سے بہتر راستہ فراہم کرتا تھا اور بہت سے لوگوں نے اسی کا رخ کیا۔ نپور اور مادھوی بھی جہاز کے پر سے پھسلتے ہوئے بیس فٹ نیچے جا گرے جس سے ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔
اس واقعے کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک جبکہ 150 زخمی ہوئے تھے۔
سن شائن اور دلیپ بھی جہاز کے پر کے اوپر موجود تھے جب انھوں نے ایک اور دروازہ کھلا ہوا دیکھا جس سے ایمرجنسی سلائیڈ لٹک رہی تھی۔
وہ واپس جہاز میں داخل ہوئے اور شیرین اور ایک اور ساتھی کی مدد سے اندر موجود باقی زندہ مسافروں کو سلائیڈ کے ذریعے باہر نکلنے کی ترغیب دینے لگے۔
سٹیورڈ ماسی کیسپر کچھ ہی دیر قبل اسی راستے سے تین بچوں کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو چکی تھیں۔
جب تمام مسافر باہر نکل گئے تو جہاز کے عملے نے ایک حیران کن کام کیا۔ اب فائرنگ کی آواز نہیں آ رہی تھی لیکن اندھیرے میں وہ نہیں جانتے تھے کہ مسلح ہائی جیکر کہاں ہیں لیکن وہ زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں واپس جہاز میں چلے گئے۔
تبھی سن شائن نے نیرجا کو دیکھا جن کو گولی لگ چکی تھی اور ان کا خون بہہ رہا تھا لیکن وہ ہوش میں تھیں۔ سن شائن نے دلیپ کو مدد کے لیے بلایا اور دونوں نے مل کر نیرجا کو سلائیڈ سے نیچے اتارا۔
سن شائن اور رانی واسوانی جہاز سے نکلنے والے آخری افراد تھے۔ تین ہائی جیکر ایئر پورٹ سے فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار ہوئے جبکہ سفرانی جہاز میں ہی موجود تھے جب پاکستانی سکیورٹی اہلکار اندر داخل ہوئے۔
نیرجا کے ساتھیوں کے مطابق جب ان کو کراچی کے جناح ہسپتال پہنچایا گیا تو وہ زندہ تھیں۔
سن شائن نے بتایا کہ ’وہاں جنگ جیسا ماحول تھا۔ نیرجا اب بھی زندہ ہوتی اگر اس کو فوری طور پر طبی امداد دی جاتی۔‘
دلیپ نے بتایا کہ ’ایئر پورٹ پر بنیادی فرسٹ ایڈ کے علاوہ کوئی طبی سہولت موجود نہیں تھی اور ہسپتال ایئر پورٹ سے کافی دور تھا۔ نیرجا کو ایمبولنس میں سٹریچر کی مدد کے بغیر ڈالا گیا۔‘
AFPفلسطینی عسکریت پسندوں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر اس جہاز کو 16 گھنٹے کے لیے ہائی جیک کیا جس کا خونی اختتام 22 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہوا
شیریرن کا کہنا ہے کہ ’اگر ہسپتال میں حالات بہتر ہوتے تو نیرجا کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔‘
ایک وقفے کے بعد جہاز کا تمام عملہ کام پر پین ایم واپس آ گیا۔ کبھی وہ ایک ہی فلائٹ میں ہوتے اور کبھی ان کی ملاقات ایئر پورٹ پر ہوتی لیکن انھوں نے کبھی اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کی۔
ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اس واقعے کو جھیلا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس دن کوئی ایک ہیرو نہیں تھا اور جن لوگوں کا انٹرویو نہیں ہوا انھوں نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔
مادھوی کا کہنا ہے کہ ’ایسے واقعات میں زندہ بچ جانے والے پر دن ان یادوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔‘ ان کو امید ہے کہ اپنی کہانیاں سنا کر ’ہم آگے بڑھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘
1986 میں اس جہاز کے عملے کو ایئر لائن نے بہادری کا ایوارڈ دیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے 2005 اور امریکی اٹارنی جنرل نے 2006 میں ان کی بہادری کا اعتراف کیا۔
جہاز کے عملے کی رکن نیرجا بھنوت واحد رکن تھیں جن کو بعد از مرگ پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں نے بہادری کے ایوارڈ سے نوازا۔
پاکستانی حکام نے ہائی جیکرز کے سرغنہ زیاد حسن عبد الطیف سفرانی کو ستمبر 2001 ایک میں جیل سے رہا کر دیا تھا لیکن امریکہ نے ان کو گرفتار کر لیا۔
اب سفرانی ایک امریکی جیل میں 160 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ دیگر ہائی جیکرز کو بھی امریکہ اور انڈیا کی خواہشات کے برخلاف 2008 میں جیل سے رہا کر دیا گیا۔