1300 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے کرہ زمین پر موجود حیران کن پہاڑی چٹانوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ کسی خواب جیسا راستہ ہے جس کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
اس پہاڑی راستے پر سفر کرتے ہوئے تیز ہوا گاڑی کی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ موسم گرما کے باوجود سات ہزار میٹر بلند چوٹیوں پر برف چمک رہی تھی اور گلیشیئر کے پگھلتے پانی آبشار کی شکل میں ہنرہ وادی سے گزرتے ہوئے دریا میں گر رہے تھے۔
اس وادی کو برطانوی ناول نگار جیمز ہلٹن نے ’شنگریلا‘ کا نام دیا تھا۔
کسی زمانے میں قراقرم ہائی وے شاہراہ ریشم کا حصہ ہوا کرتی تھی جس کی بنیاد یہاں کے مقامی باشندوں نے صدیوں پہلے رکھی تھی۔ تاہم 1978 میں، 24 ہزار پاکستانی اور چینی مزدوروں کی 20 سالہ محنت کے بعد، اس سڑک پر باقاعدہ طور پر گاڑیوں کی آمدورفت ممکن ہوئی جس کے باعث اس دور دراز علاقے کے لیے تجارت، سیاحت اور سفری آسانی کے دروازے کھل گئے۔
1300 کلومیٹر طویل سڑک پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب حسن ابدال کے چھوٹے سے شہر سے شروع ہوتی ہے اور 4700 میٹر کی بلندی پر خنجراب کے مقام پر دنیا کی سب سے بلند پکی سڑک سے ہوتی ہوئی چین میں شنکیانگ تک جاتی ہے۔
تاہم میرے لیے اس سڑک کا سب سے دلچسپ حصہ وہ 194 کلومیٹر تھے جو وادی ہنزہ میں موجود ہیں۔ یہ علاقہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جن کی وجہ سے ہی اس سڑک کا نام قراقرم ہائی وے رکھا گیا۔
یہ علاقہ غیر یقینی حد تک خوبصورت ہے جہاں سفر کے دوران آپ کو شفاف گلیشیئر، جھیلیں اور برف سے اٹی چوٹیاں ہر طرف نظر آتی ہیں۔ یہ سفر تو خوبصورت ہے ہی لیکن اس جگہ پر ہائی وے کو خاص بنانے والی ایک اور اہم بات ہنزہ کے لوگ اور اس وادی کی روایات ہیں۔
گلگت بلتستان میں شنکیانگ اور واخان کاریڈور کے درمیان موجود ہنزہ 20ویں صدی تک باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ یہاں کی مقامی آبادی بروشو اور واکھی لوگوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی اپنی زبان، موسیقی اور ثقافت ہے جو پاکستان یا دنیا بھر میں کہیں اور نہیں ملیں گے۔
قراقرم ہائی وے نے دنیا کے لیے اس وادی تک کا سفر آسان تو کر دیا ہے لیکن ماحولیاتی اعتبار سے ایک منفی اثر بھی مرتب ہوا اور مقامی لوگوں کی اکثریت کو اپنی روایتی زندگی ترک کرنا پڑی۔ اب یہاں طویل عرصے تک ’جینانی‘ جیسے جشن منانے والے لوگ کم رہ گئے ہیں جو بہار کی آمد کا جشن ہے۔
تاہم اب کچھ مقامی لوگ ہنزہ کی مخصوص روایات کو زندہ رکھنے کے لیے کافی محنت کر رہے ہیں۔
میرے سفر کے دوران پہلا پڑاؤ التت میں تھا جو 1100 سال پرانے قلعے اور ثقافتی روایات کو محفوظ رکھنے کے لیے مشہور گاؤں ہے۔ یہاں میری ملاقات موسیقار مجیب رزاق سے ایک کیفے میں ہوئی جہاں سے راکاپوشی اور دران کی چوٹیاں دور فاصلے میں دکھائی دے رہی تھیں۔
ہم سے چند قدم دور ہی لیف لارسن میوزک سینٹر نامی سکول تھا جہاں وادی کی روایتی موسیقی اگلی نسل کو سکھا کر زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نجیب نے بتایا کہ ’ہم موسیقی پر بہت انحصار کرتے ہیں کیونکہ موسیقی ہماری زندگی کے ہر حصے سے جڑی ہوئی ہے چاہے آپ کاشتکاری کر رہے ہیں یا فصل کاٹ رہے ہیں (ہم روایتی لوک گیت گاتے ہیں)۔ نوجوان نسل اس کے بارے میں نہیں جانتی تھی لیکن اب وہ جان رہے ہیں کہ ثقافت کی روح کیا ہے۔‘
موسیقی کا یہ مرکز 2016 میں قائم کیا گیا لیکن نجیب کا کہنا ہے کہ اس کا اصل آغاز اس وقت ہوا جب ضیا الکریم نے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔
عام طور پر یہاں موسیقی کو مشغلے کے طور پر سیکھا جاتا ہے لیکن التت کے ضیا الکریم موسیقی میں ڈگری حاصل کرنے والے پہلے مقامی باشندے تھے جن کو کئی آلات میں مہارت حاصل تھی۔ 2022 میں ایک موٹر سائیکل حادثے میں افسوسناک ہلاکت سے قبل انھوں نے 100 سے زیادہ طلبا کو موسیقی سکھائی۔
نجیب مجھے پریکٹس روم میں لے کر گئے جو کسی مقامی گھر جیسا تھا۔ مقامی تکیے کمرے کی دیواروں کے ساتھ موجود تھے اور تقریبا دو درجن طلبا بھی۔ اگرچہ پاکستان ایک پدرشاہی معاشرہ ہے، ہنزہ ایک لبرل خطہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ یہاں اسماعیلی فرقے کی اکثریت ہے۔ یہ اسلام کا ایک معتدل فرقہ ہے جس کی شناخت برداشت اور خواتین کے حقوق کا پرچار ہے۔
یہاں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور متعدد لڑکیاں یونیورسٹی یا اس سے بھی آگے تک تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
ایسے ہی ماحول کی وجہ سے اس میوزک سینٹر میں بھی کئی لڑکیاں بھی رباب تھامے موجود تھیں۔
تین طلبا نے ہریپ موسیقی کا نمونہ پیش کیا جو مقامی ہنزائی دھنوں کا نام ہے جس میں ایک لمبا اور نسبتا پتلا رباب اور ساتھ میں چھوٹا ڈھول بجایا جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں سحر انگیز موسیقی گونج رہی تھی جس نے مجھے خوشی کا احساس دلایا کہ وسطی ہنزہ کا روایتی فن ابھی زندہ رہے گا۔
پرانے التت کی پتھریلی گلیوں سے نکل کر میں نے قراقرم ہائی وے کے ذریعے اس وادی کے سب سے مشہور مقام کی جانب رخ کیا۔ یہ ہنزہ بالا یا مقامی طور پر گوجال کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وسطی ہنزہ جیسی ثقافت رکھنے والے گوجال میں مقامی لوگ واکھی زبان بولتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کے مقامی سینکڑوں سال قبل واخان کاریڈور سے آ کر بسے تھے۔ ہائی وے کھلنے سے پہلے ہنزہ کے ان دو علاقوں کے درمیان کئی دنوں کا سفر ہوا کرتا تھا۔ اب یہ صرف ایک گھنٹے کا سفر ہے جس میں نیلی رنگ کی عطا آباد جھیل نے مجھے علاقے میں خوش آمدید کہا۔
قدرتی نظر آنے والی یہ عطا آباد جھیل دراصل مصنوعی جھیل ہے جس کی پیدائش ایک سانحے کی وجہ سے ہوئی۔ چار جنوری 2010 کو ایک سیلابی ریلے نے متعدد دیہات کو ملیا میٹ کرتے ہوئے ہنزہ دریا کے پانی کا راستہ روک دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک مصنوعی جھیل معرض وجود میں آئی۔
پر آسائش ہوٹلوں میں گھری ہوئی اس جھیل کا نام بھی ایک ایسے گاؤں پر رکھا گیا ہے جو 2010 میں تباہ ہو گیا تھا۔ اب یہ ہنزہ کی جدت کی علامت ہے بلکل ایسے ہی جیسے قراقرم ہائی وے میں سفر کی آسانی کے لیے ہونے والی تبدیلیاں: چین پاکستان دوستی کے نام سے پانچ سرنگیں 2015 میں مکمل کی گئی تھیں جن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ دنیا کے کسی مصروف شہر میں موجود ہیں، اتنے دور دراز علاقے میں نہیں۔
سڑک پر چند کلومیٹر کے سفر کے بعد مجھے بزلانج کیفے نظر آیا جو خواتین کی ملکیت میں چلنے والا ریسٹورنٹ ہے اور ایسا کھانا فراہم کرتا ہے جس کی مجھے شدت سے طلب ہو رہی تھی۔
پاکستانی خوراک مسالوں سے بھرپور ہوتی ہے لیکن ہنزہ کے روایتی پکوان میں مسالے صرف پودینے کے چند پتوں کی شکل میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ ان میں یاک کا گوشت اور خوبانی کا تیل بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
میں نے ’مول‘ کا آرڈر دیا جو مقامی دودھ، چینی اور سیب اور سرکے کی آمیزش سے بنایا جانے والا مقامی پنیر ہے۔ اس کے ساتھ ’غلمندی‘ بھی منگوایا جو دہی اور میوے سے بھری پتلی روٹی کا سینڈوچ تھا۔
ملیکہ سلطانہ اور راشدہ بیگم اس ریسٹورنٹ کی مالک ہیں جنھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے 2016 میں اس کا آغاز ان مقامی پکوانوں سے کیا تھا جو انھوں نے اپنی والدہ یا نانی سے سیکھے تھے۔ گلمت گاؤں میں شروع ہونے والا یہ ریسٹورنٹ اب قراقرم ہائی وے کے ایک خوبصورت موڑ پر واقع ہے۔
سلطانہ نے بتایا کہ ’مقامی پکوان کا رواج تقریبا ختم ہو چکا تھا کیوں کہ ہمارے بچے یہ کھانے نہیں پکا رہے تھے۔ کوئی نہیں پکا رہا تھا۔ پھر ہم نے آغاز کیا اور اب اور خواتین بھی شامل ہو چکی ہیں، اور لوگ یہ کھانے آتے ہیں۔‘
مجھے علم ہوا کہ گوجال اور خصوصا گلمت خواتین کے کاروبار کا مرکز ہے۔ پاکستان میں عموما صرف 20 فیصد خواتین ہی کام کرتی ہیں جو دنیا کے اعتبار سے کافی کم اوسط ہے لیکن ہنزہ وادی میں خواتین ریسٹورنٹ چلا رہی ہیں، دکانیں چلا رہی ہیں اور لکڑی کا کام تک کر رہی ہیں۔
سلطانہ اور راشدہ کے ریسٹورنٹ سے کچھ ہی دور جہاں میں نے پاسو کونز کو پہلی بار دیکھا، ایک اور مثال ملی۔ یہ کورگاہ نامی قالین کی فیکٹری تھی جسے خواتین ایک 400 سال پرانے گھر میں چلا رہی ہیں۔
میں یہاں داخل ہوئی تو پانچ خواتین تصاویر اور بین الاقوامی ایوارڈز سے آراستہ ایک آرام دہ کمرے میں کام کر رہی تھیں جس کی دیواروں پر مہارت سے بنے قالین سجے ہوئے تھے۔
شمیم بانو کورگاہ چلاتی ہیں اور وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم نے 1998 میں کام شروع کیا جب قراقرم ایریا ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے 30 خواتین کو تربیت دی۔‘
شمیم بھی اس تربیت کا حصہ تھیں اور آج ان کی فیکٹری قراقرم ہائی وے پر ایک مشہور سیاحتی مقام بن چکا ہے جس کی مدد سے کورگاہ میں خواتین ایک جانب اپنے خاندانوں کے لیے روزگار کما سکتی ہیں تو دوسری جانب ایک قدیم فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
شمیم نے بتایا کہ ’ہمارے روایتی قالین کو واکھی زبان میں شارما یا پلوس کہتے ہیں جو یاک اور بکری کے بال سے بنتا ہے۔ یہ ہماری ثقافت میں صدیوں سے موجود ہے، تربیت ملنے سے بہت پہلے سے۔‘
اس ملاقات کے تقریبا ایک گھنٹے بعد وسطی ہنزہ کی جانب واپسی پر پاسو کونز پیچھے رہ گئیں اور سڑک کے کنارے کندھوں پر لکڑی سے بنی روایتی ٹوکریوں میں گھاس لادے بزرگوں اور مویشیوں کو دیکھ کر یہ واضح تھا کہ ہنزہ کی روایتی زندگی کا ایک اور حصہ بچا ہوا ہے۔
قراقرم ہائی وے ایک حیرت کدہ ہے لیکن یہ مقامی لوگوں اور ہنزہ کی ثقافت کے بغیر ادھوری ہوتی۔ جدید سرنگوں سے گزرتے ہوئے میں نے ہنزہ وادی کی ثقافت کے روایتی محافظوں کے بارے میں سوچا جن میں موسیقار اور فنکار بھی شامل تھے۔
میں صرف یہ امید رکھ سکتی ہوں کہ مستقبل میں یہاں آنے والے مسافروں کو بھی ان سے ملاقات کا موقع مل سکے گا تاکہ وہ قراقرم ہائی وے کا اصلی تجربہ حاصل کر سکیں۔