سرکاری محکمے یا شوگر مِلز: پاکستان سے اضافی چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کن بنیادوں پر اور کون کرتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 05, 2023

Getty Images

پاکستان میں محض چند ماہ پہلے تک چینی ایک سو روپے سے کم پر فروخت ہو رہی تھی جبکہ ان دنوں مارکیٹ میں چینی دو سو روپے کے لگ بھگ فروخت ہو رہی ہے۔

نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں اتنی چینی میسر نہیں ہے کہ آئندہ پیداوار آنے تک ملکی ضرورت کو پورا کیا جا سکے اسی لیے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت چینی درآمد کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ساتھ ہی حکومت نے چینی کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ابھی چند ہی ماہ پہلے کی بات ہے جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے دور میں حکومت نے ملک میں بظاہر ’وافر چینی‘ موجود ہونے پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر چینی ’وافر‘ تھی تو کچھ ہی ماہ میں اس کی کمی کیسے پیدا ہو چکی ہے؟

پاکستان میں چینی کی طلب اور رسد میں بڑھتا فرق اور قیمتوں میں دگنا اضافہ اس وقت زیرِ بحث ہے مگر چینی کی صنعت و پیداوار پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں چینی کی ’وافر‘ مقدار موجود ہی نہیں تھی۔ ان کا خیال ہے کہ گذشتہ حکومت کا چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل سابق وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت کے سابق وفاقی عہدیداران اس نکتے پر ایک دوسرے کی وزارتوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

اس معاملے کی سیاسی نوعیت میں جائے بغیراہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں چینی کو برآمد کرنے کا فیصلہ کون کرتا ہے اور یہ کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور کیا حکومت کے پاس چینی کی دستیابی اور پیداوار کے حوالے سے مستند اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت صرف چینی بنانے والے کارخانوں اور ملوں کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں چینی کی صنعت سے جڑی بڑی کاروباری شخصیات سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتی ہیں۔

چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیسے ہوتا ہے؟Getty Images

پاکستان میں چینی آٹھ بنیادی اجناس میں شامل ہے اور اس کی برآمد کا فیصلہ وزیرِاعظم کی کابینہ کی ایک کمیٹی کرتی ہے جسے ای سی سی یا اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کہا جاتا ہے۔

ڈاکڑ اشفاق حسن اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں سوشل سائنسز سکول کے پرنسپل ہیں اور ماضی میں ای سی سی کے ممبر رہ چکے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ چینی کے حوالے سے ای سی سی کے سامنے اعداد و شمار رکھے جاتے ہیں جن کی روشنی میں یہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ اعداد و شمار نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت جمع کرتی ہے جو بنیادی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں چینی کا کتنا ذخیرہ موجود ہے، کتنے کی ضرورت ہے اور کتنی چینی وافر ہے۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ان اعداد و شمار ہی کی بنیاد پر ای سی سی فیصلہ کرتی ہے کہ کیا وافر چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ ’اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گنے کی آئندہ پیداوار کا ہدف کیا ہے اور کرشنگ کے سیزن میں چینی کا آؤٹ فلو کیا ہو گا۔‘

’اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ چینی وافر تو موجود ہے تاہم کیا ایسا تو نہیں کہ چینی کے آئندہ پیداواری سیزن میں پیداوار کم ہونے کی صورت میں ایسے وافر ذخائر کی مقامی سطح پر ضرورت پڑ جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ای سی سی کے سامنے جو اعداد و شمار وزارت کی جانب سے رکھے جاتے ہیں اس نے انھی کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔‘

وفاقی حکومت اعداد و شمار کیسے حاصل کرتی ہے؟

عارف حبیب کموڈیٹیز کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر احسن محنتی کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس چینی کے حوالے سے اعداد و شمار حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ ’ساتھ ہی وہ چینی کی صنعت یعنی شوگر ملوں سے بھی اعداد و شمار حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔‘

بظاہر حکومت یہ اعداد و شمار مقامی سطح پر ضلعی انتظامیہ کے ذریعے حاصل کرتی ہے۔ احسن محنتی سمجھتے ہیں کہ گذشتہ حکومت نے خود سے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سابق وزیر خزانہ نے یہ باضابطہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر چینی وافر بھی ہو گی تو برآمد نہیں کی جائے گی لیکن بعد میں جب حکومت نے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو اس کے بعد وافر چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

احسن محنتی کے خیال میں حکومت کا اعداد و شمار جمع کرنے کا طریقہ کار کافی حد تک مستند مانا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس کے آغاز میں اس وقت کی حکومت نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ملک میں چینی کی کھپت سات ملین ٹن کے لگ بھگ ہے تاہم گذشتہ برس کے آخر میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ملک میں آٹھ ملین ٹن سے زیادہ چینی موجود تھی۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبروں میں شوگر ملز ایسوسی ایشن مسلسل اس وقت کی حکومت سے اضافی چینی برآمد کرنے کا مطالبہ کرتی رہی تھیں۔

کیا حکومت کا طریقہ کار مؤثر ہے؟Getty Images

ڈاکٹر وقار احمد پاکستان میں معیشت پر آزادانہ تحقیق کار ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں چینی کی پیداوار اور ذخائر جانچنے کے لیے حکومت کے طریقہ کار میں ’کافی چھید ہیں۔‘

’چینی کی پیداوار اور ذخائر کے حوالے سے اعداد و شمار لے کر ای سی سی کے سامنے رکھنے تک اور اس پر فیصلے ہونے تک اعداد و شمار بدل چکے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی کا سپلائر اتنا انتظار نہیں کرتا اور غیر رسمی طور پر چینی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔‘

ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ اس طرح اعداد و شمار کے برعکس ذخائر بدل جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا صرف رواں برس نہیں ہوا۔ ’ایسا پاکستان میں لگ بھگ ہر برس ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کا طریقہ کار درست نہیں ہوتا۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے سنہ 2020 میں ایک ’ٹریک اینڈ ٹریس‘ کا نظام بنایا گیا تھا جو کافی حد تک مؤثر تھا تاہم وہ زیادہ چل نہیں سکا۔

ٹریک اینڈ ٹریس کا نظام کیا ہے؟

وقار احمد کہتے ہیں کہ سنہ 2020 میں جو نظام بنایا گیا تھا اس میں ہر علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو روزانہ رات آٹھ بجے اپنے علاقے میں آٹھ بنیادی اجناس کے ذخائر کے حوالے سے اعداد و شمار وفاقی حکومت کو جمع کرانے ہوتے تھے جن میں چینی بھی شامل تھی۔

’اس طرح ملک میں موجود تمام شوگر ملز کے چینی کے ذخائر کے حوالے سے بروقت اور درست اعداد و شمار حکومت کے پاس موجود ہوتے تھے۔‘

ان کے خیال میں ان اعداد و شمار کی روشنی میں چینی کی برآمد یا درآمد کے حوالے سے درست فیصلہ کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔

تاہم ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ یہ نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ حکومتیں اعداد و شمار کے لیے زیادہ تر شوگر ملز ایسوسی ایشنز پر ہی انحصار کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی برآمد کے حوالے سے فیصلے میں غلطی کے امکانات موجود رہتے ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی امکان موجود ہے کہ ملک میں چینی کی مصنوعی قلت بھی پیدا ہو جائے۔ اس کے بعد حکومت کو چینی درآمد کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

چینی برآمد اور درآمد کون کرتا ہے؟

معاشی تحقیق کار ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں چینی برآمد کرنے، درآمد کرنے اور قومی سطح پر ملک کے اندر فروخت کرنے والا زیادہ تر ایک ہی ہاتھ ہوتا ہے۔

’یہاں جو مقامی سطح پر چینی فروخت کرتا ہے، وہی چینی برآمد بھی کرتا ہے اور زیادہ تر درآمد بھی وہی کرتا ہے۔ ہر کوئی چینی درآمد نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے لائسنس ہوتا ہے۔‘

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب برآمد ہونے یا کسی دوسری وجہ سے حکومت کو چینی درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ درآمد بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کے پاس لائسنس ہوتا ہے۔ اور یہ لائسنس زیادہ تر انھی کے پاس ہوتا ہے جنھوں نے چینی برآمد کی تھی۔

ڈاکٹر وقار احمد کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں چینی کے حوالے سے پالیسی پر چینی برآمد اور درآمد کرنے والے اثرانداز ہوتے ہیں جو زیادہ تر چینی بنانے والی ملوں کے مالکان ہوتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More