BBC
اگرچہ موجودہ نگراں حکومت کو گذشتہ پارلیمنٹ ناگزیر اقتصادی فیصلے کرنے کے اختیارات سے بھی مسلح کر گئی ہے۔ مگر اختیار کا ہونا اور اختیار استعمال کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔
بچپن میں جب میں ایک روپے سے پانچ سو روپے تک کے کرنسی نوٹ دیکھتا تھا تو یہ باتسمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ہر چھوٹے نوٹ پر اگر سیکرٹری وزارتِ مال اور بڑے نوٹ پر گورنر سٹیٹ بینک دستخط کرتا ہے تو اتنے سارے کرنسی نوٹوں پر دستخطکر کے ان کے تو ہاتھ شل ہو جاتے ہوں گے۔ پھر وہ باقی کام کیسے کرتے ہوں گے؟
ایک دن جب میں نے اپنی پریشانی والد صاحب کے سامنے رکھی تو انھوں نے سر پے چپت لگاتے ہوئے کہا بے وقوف وہ ہر نوٹ پر قلم سے تھوڑی دستخط کرتے ہیں۔ ان کے دستخط کا نمونہ لے کر نوٹ کے ڈیزائن میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر نوٹ چھاپا جاتا ہے۔ جب میں نے ان دستخطوں کو گیلے انگوٹھے سے رگڑ کے دیکھا تب یقین آیا کہ ابا جان سچ ہی کہہ رہے ہیں۔
2018 کے بعد سے بالخصوص ملک میں جو نظام نافذ ہے۔ اسے اب تک گذار کے جانے کیوں لگتا ہے کہ جتنے بھی قوانین، احکامات، پالیسی نکات، معاہدات، یاداشتوں اور فیصلوں پر آئینی عہدیداروں کے دستخط نظر آتے ہیں وہ بھی سیکرٹری وزارتِ مال اور گورنر سٹیٹ بینک کے دستخطوں کی طرح ایک ہی بار بطور نمونہ لے کے بار بار ہر مطلوبہ دستاویز پر پرنٹ ہو جاتے ہیں۔
آپ ان دستاویزات کو روشنی کی جانب کر کے دیکھیں تو ہر صفحے پر سٹیشنری فراہم کرنے والی ایک ہی کمپنی کا واٹر مارک صاف دکھائی دے گا۔
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر عوام کو بنیادی سہولتوں میں ریلیف دینے اور گورننس کے ڈھانچے کو مٹھی بھر اشرافیہ کے مفاداتی تحفظ کے بجائے اکثریتی مفادات کی پاسبانی کے لیے کھولنے کا جو کام پچھلی سیاسی و نیم سیاسی و آمرانہ حکومتیں نہ کر پائیں۔ ان کی توقع ایسی نگراں حکومت سے کرنا نرا بھول پن ہے کہ جس کو دیکھ کے پہلا تصور ہی چابی والے کھلونے کا آتا ہے۔
جن اصحاب سے ریاستی فلمی سیٹ پر اعلیٰ عہدیداروں کی اداکاری کروائی جا رہی ہے وہ تو خود کام ڈھونڈنے کے لیے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے مرہونِ منت رہتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ ان کے ہاتھ میں جو سکرپٹ تھمایا گیا ہے اس میں بھی اتنے بڑے بڑے جھول اور جھٹکے ہیں کہ لگتا ہے سکرپٹ بھی کسی خانہ ساز یا سستے رائٹر سے عجلت میں لکھوایا گیا ہے۔
نگراں کابینہ کو برا بھلا کہنا یا انھیں موجودہ اقتصادی، سیاسی و سٹرٹیجک ابتلا کا ذمہ دار قرار دے کے سنگِ تنقید پر رکھنا ایسے ہی ہے جیسے بجلی کے چھت پھاڑ بلوں کا غصہ واپڈا یا کے الیکٹرک کی گاڑیوںکے شیشے توڑ کے اور عملے کو لاتوں مکوں پر رکھ کے نکالا جائے۔
جنھوں نے پالیسی بنائی یا نافذ کی یا جو پتلی تماشہ ڈائریکٹ کر رہے ہیں ان تک تو کسی کی رسائی ممکن نہیں۔ انھوں نے اونچی دیواروں پر برقی رو دوڑنے والی خاردار تاریں لگائی ہوئی ہیں۔ اپنی حفاظت کے لیے چھ چھ فٹ کے مسٹنڈے محافظ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ریموٹ آپریٹڈ سیاہ شیشے والی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ لے دے کے عوام کے ہاتھ اپنے ہی جیسے مسکین ورکرز یا نچلے درجے کے اہلکار آتے ہیں کہ جو بے چارے خود حکم کے غلام ہیں۔
ان اہلکاروں اور نگراں حکومت کے اداکاروں میں بس لباس، صفائی ستھرائی، گاڑی کے ماڈل اور گھروں کی حالت کا فرق ہے۔ کچھ مشترک ہے تو بے اختیاری۔
Getty Images
اسلام آباد کے ایک سٹرٹیجک تھنک ٹینک (پکس) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق نومبر 2014 کے بعد اگست 2023 کے مہینے میں سب سے زیادہ (99) مصدقہ دہشت گرد کارروائیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔یہ حملے جولائی کے مقابلے میں 83 فیصد زیادہ ہیں۔
اس برس اب تک کے آٹھ ماہ میں 22 خودکش حملوں میں 227 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ بارودی تپش خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں محسوس کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی کے مقابلے میں اگست میں سکیورٹی اہلکاروں کے جانی نقصان میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یعنی دہشت گردوں کے زیرِ استعمال اسلحے اور پیشہ ور منصوبہ بندی کا معیار بہتر ہوا ہے۔
حالانکہ دہشت گردی ایک بار پھرپاکستان کے لیے سب سے بڑا بقائی خطرہ بن کے ابھر رہی ہے۔ مگر آج کے دن میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹی ٹی پی زیادہ بڑا خطرہ ہے یا پی ٹی آئی؟ پی ٹی آئی زیادہ بڑا اندرونی خطرہ ہے یا ٹی ایل پی؟ چوہدری پرویز الہی یا ایمان مزاری زیادہ بڑے دشمن ہیں یا پھر نور ولی محسود؟
اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر کے مطابق اب جو اچانک سندھ میں چھاپوں کے دوران اربوں روپے کی کرنسی سابق حکومت سے جڑے بھانت بھانت کے لوگوں کے گھروں سے نکل رہی ہے۔ یہ کیا پچھلے 20 دن میں جمع ہونے والی لوٹ ہے، 16 ماہ میں جمع ہوئی یا پانچ برس میں؟ یہ آج ہی کیوں برآمد ہو رہی ہے؟ کیا یہ کرپشن کے خلاف نیا جہاد ہے یا پھر نئی صف بندی کے لیے تازہ مکینیکل انجنئیرنگ؟
اس گیم میں بچاری نگراں حکومت نہ تین میں نہ تیرہ میں؟
مگر عوام بھی کیا کریں ۔غلام کا بس غلام پر ہی چل سکتا ہے۔