انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے منگل کو چاند کے جنوبی قطب پر اپنے چندریان تھری کو کامیابی کے ساتھ اتارا۔ اس موقع پر سائنسدانوں سمیت پورے ملک کو مبارکباد دیتے ہوئے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے آدتیہ ایل ون (Aditya L-1) کا ذکر کیا۔
انڈین وزیر اعظم نے کہا کہ ’جلد ہی اسرو سورج کے باغور اور تفصیلی مطالعہ کے لیے آدتیہ ایل ون نامی مشن کو لانچ کرنے جا رہا ہے۔‘
اسرو کے سربراہ ایس سومناتھ نے یہ بھی بتایا کہ اگلا مشن ’آدتیہ ایل ون‘ ہے جسے ’سری ہری کوٹا‘ میں تیار کیا جا رہا ہے۔ ایس سومناتھ نے اسی سال جون میں ’آدتیہ ون‘ کے لانچ کا ذکر کیا تھا۔
انڈیا اگر اپنے اس مشن کو بھیجنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ سورج کا مطالعہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ بھیجنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔ انڈیا سے قبل امریکہ، روس اور یورپی خلائی ایجنسی اس قسم کی تحقیق کے لیے اپنے مشن بھیج چُکے ہیں۔
سورج کی تحقیق اتنی اہم کیوں ہے؟
ہم میں سے اکثر یہ بات تو جانتے ہیں کہ ہماری کائنات لاتعداد ستاروں سے بنی ہے اور سائنسدان جہاں اس کائنات میں چھپے راز جاننا چاہتے ہیں وہیں اس کے مستقبل کے بارے میں بھی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بس اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ سائنسدان اُس نظام شمسی کو سمجھنے کے لیے، جس میں ہم رہتے ہیں، سورج کے مطالعے کو انتہائی ضروری اور اہم سمجھتے ہیں۔
اب سورج سے نکلنے والی توانائی اور درجہ حرارت کو سمجھنے اور اس کے بارے میں دُنیا کو سمجھانے کے لیے ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ اس کا مطالعہ زمین پر بیٹھ کر نہیں ہوسکتا۔
اس لیے اس کام کے لیے دنیا بھر کے خلائی تحقیق کے ادارے سورج کے زیادہ سے زیادہ قریب جانا چاہتے ہیں۔
ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے سورج کا مطالعہ کرنے کے لیے بہت تحقیق کی ہے۔ مگر اب انڈیا، ’آدتیہ ایل ون‘ کے ذریعے سورج کے قریب پہنچ کر اس کا باغور اور تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتا ہے۔
آدتیہ ایل ون کو سورج کے قریب جانے کے لیے زمین سے تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’لاگرینج ون‘ (Lagrange-1) پوائنٹ تک پہنچنا ہے۔
وہاں پہنچنے کے بعد یہ سورج کے گرد چکر لگانا شروع کرے گا جس دوران یہ سورج پر نظر رکھے گا یعنی سورج کا مطالعہ کرے گا۔
’لاگرینج‘ (Lagrange) پوائنٹ کیا ہے؟
یہ سمجھنے کے لیے ہم بات کا آغاز یوں کرتے ہیں کہ ’زمین اور سورج کے درمیان کل پانچ لاگرینج پوائنٹس ہیں جہاں کشش ثقل یا ’گریوٹی‘ مرکزی قوت یعنی ’سینٹریپیٹل فورس‘ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی خلائی جہاز کم ایندھن کے ساتھ اس مقام پر رُک کر مطالعہ کر سکتا ہے۔
لاگرینج پوائنٹ زمین اور سورج کے درمیان وہ جگہ ہے جہاں سے سورج کو گرہن یا کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر دیکھا جا سکتا ہے۔
خلائی تجزیہ کار ڈاکٹر اجے لیلے منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس میں سینئر فیلو رہ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’سورج کو ایک خاص نقطہ سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور ’لاگرینج ون‘ پوائنٹ سے اسے بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر پانچ لاگرینج پوائنٹس ہیں۔ زمین سے ’لاگرینج ون‘ پوائنٹ کا فاصلہ تقریباً 15 لاکھ کلو میٹر ہے۔ تاہم آدتیہ ایل ون مشن کو تمام پانچ لاگرینج پوائنٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘
وہ ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’جہاں مشن کے کامیاب ہونے اور کم خطرناک ہونے کا امکان ہو، اُسی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔‘
مشن آدتیہ ایل ون کا مقصد کیا ہے؟
ڈاکٹر یوگیشورناتھ مشرا، ’ناسا کالٹیک‘ میں جیٹ پروپلژن لیبارٹری کے سائنسدان اور آئی آئی ٹی اندور کے پروفیسر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لاگرینج ون وہ مقام ہے جہاں زمین اور سورج دونوں کی کشش ثقل کا کم سے کم اثر ہوتا ہے، اس لیے یہ ایک سیٹلائٹ کے لیے یہ مقام انتہائی موزوں ہوتا ہے کہ جہاں ایک خلائی جہاز نا صرف آسانی سے مدار میں چکر لگا سکتا ہے بلکہ توانائی کا استعمال بھی کم ہوتا ہے۔
آدتیہ ایل ون سورج کا فوٹو سپیئر (سورج کا وہ حصہ جسے ہم دیکھتے ہیں)، بیرونی ماحول کا کروموسفیئر (فوٹو اسپیئر کے بالکل اوپر سورج کی دکھائی دینے والی سطح) اور کورونا (سورج سے چند ہزار کلومیٹر اوپر کی بیرونی تہہ)، اس کا مقناطیسی میدان ہوگا۔ یہ فیلڈ، ٹاپولوجی اور شمسی ہوا کا مطالعہ کریں گے۔
اسرو کے مطابق، ’پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل (PSLV) کی مدد سے آدتیہ ایل ون گاڑی کے ساتھ سات پے لوڈ بھیجے جائیں گے۔ ان میں سے چار پے لوڈ مسلسل سورج کی نگرانی کریں گے اور باقی تین پے لوڈز لاگرینج ون پر ذرات اور دیگر شعبوں کی تحقیق کریں گے۔ (پے لوڈ: خلا میں مطالعہ کے لیے لے جانے والے آلات کو کہتے ہیں)
آدتیہ ایل ون کا پے لوڈ کورونل ہیٹنگ، کورونل ماس ایجیکشن، پری فلیئر اور فلیئر سرگرمیوں اور ان کی خصوصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔
اس کے ساتھ پے لوڈز خلائی موسم میں ہونے والی تبدیلی، سولر فلیئر یعنی سورج سے نکلنے والے ذرات کے پھیلاؤ کو سمجھنے کے لیے بہت سی اہم معلومات اکٹھی کریں گے۔
بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں، ناسا کالٹیک کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے سائنسدان اور آئی آئی ٹی اندور کے مہمان پروفیسر ڈاکٹر یوگیشورناتھ مشرا بتاتے ہیں، ’سورج کا مقناطیسی میدان بدلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے مقناطیسی توانائی کی ایک بڑی مقدار متاثر ہوتی ہے۔ اس میں ذرات پیدا ہوتے ہیں اور اس سے جو روشنی خارج ہوتی ہے اسے سولر فلیئرز کہتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں، ’سورج پلازما کی ایک گیند ہے، مقناطیسی میدان کے پھسلنے سے ہونے والے دھماکے کی وجہ سے یہ پلازما خلا میں پھیل جاتا ہے۔ اسے کورونل ماس ایجیکشن کہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر مشرا بتاتے ہیں، ’سورج کے اندر سے جو حرارت نکلتی ہے وہ گرم ہواؤں کو چلاتی ہے، اسے سولر ونڈ کہتے ہیں۔ یہ ذرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ الیکٹران۔ پروٹون۔ یہ دور دور تک پھیلتی ہیں۔ یہ شمسی ہوائیں نظام شمسی سے باہر پھیلتی ہیں۔‘
NASAآدتیہ ایل ون کو کن چیلنجز کا سامنا ہوگا؟
اسرو کے مطابق سورج کی روشنی کے ساتھ کئی طرح کی لہریں اور مقناطیسی میدان ہوتے ہیں لیکن زمین کی بیرونی تہہ کی وجہ سے بہت سی لہریں زمین تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
اس وجہ سے آدتیہ ایل ون مشن ’لاگرینج ون‘ کو اپنے قیام کی جگہ کے طور پر استعمال کرے گا۔ اسی لیے اسرو نے اس مشن کے لیے لاگرینج پوائنٹ کا انتخاب کیا ہے۔
اسرو کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آدتیہ ایل ون کو ’لاگرینج ون‘ پوائنٹ پر بھیجنا ہے، جس کا فاصلہ زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر بتایا جاتا ہے۔
چاند زمین سے تقریباً تین لاکھ کلومیٹر دور ہے اور انڈیا اب اپنا چندریان وہاں اتارنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
جب انڈیا نے سنہ 2019 میں ’چندریان ٹو‘ کو چاند پر اتارنے کی کوشش کی تھی تو اس کا لینڈر سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ اب ایسے میں ’لاگرینج ون‘ جس کا فاصلہ چاند کے مقابلے میں پانچ گُنا زیادہ ہے پر آدتیہ ایل ون سے رابطہ بحال اور برقرار رکھنا اسرو کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
دوسری جانب اس مشن میں لگنے والا وقت بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
دیگر خلائی اداروں کی مدد کی یقین دہانی
یورپی خلائی ادارے نے اس بات کی یقین دھانی کروائی ہے کہ وہ انڈیا کے آدتیہ ایل ون مشن سے رابطہ بحال رکھنے اور اس پر نظر رکھنے میں مدد فراہم کرے گا۔ تاہم اس پر تاحال اسرو کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔
یورپی خلائی ادارے (ESA) کے مطابق، ’آدتیہ ایل ون کو ای ایس اے کے 35 میٹر گہرے اینٹینا سے زمینی مدد فراہم کی جائے گی جو یورپ میں کئی مقامات پر واقع ہے۔‘
’ای ایس اے 'مدار کے تعین' سافٹ ویئر کے ساتھ بھی مدد کرے گا جو آدتیہ ایل ون مشن میں استعمال کیا جانا ہے۔ یہ سافٹ ویئر خلائی جہاز کی اصل پوزیشن کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘
یورپی خلائی ایجنسی کے بارے میں ڈاکٹر یوگیشورناتھ مشرا کہتے ہیں، ’اسے کسی غیر ملکی ایجنسی کی مدد نہیں کہا جا سکتا، یہ باہمی تعاون ہے۔ گہرے خلائی نیٹ ورک کے حوالے سے ممالک کے درمیان کچھ معاہدے ہوتے ہیں، جیسے کہ فضائی حدود کے حوالے سے ممالک کے درمیان معاہدے۔ یہ صرف اسی طرح کام ہوتا ہے۔‘
’ایک گہرا خلائی نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے، ہم خلائی جہاز پر مسلسل نظر رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارا سیٹلائٹ ہر وقت زمین کے دوسری طرف سفر کرنے والے خلائی جہاز کا سگنل وصول کرتا رہے۔‘
کتنے ممالک نے سورج کا مطالعہ کیا ہے؟
خلائی تجزیہ کار ڈاکٹر اجے لیلے بتاتے ہیں، ’خلا میں سفر کرتے وقت بہت طاقتور اینٹینا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور سگنل وصول کرنے کے لیے صرف اینٹینا ہی نہیں، بلکہ زمین کی جغرافیائی سمت بھی اہمیت رکھتی ہے۔‘
’خلا میں جانے کے بعد گاڑی سے بھیجے جانے والے سگنلز بہت کمزور ہو جائیں تو ایسی صورت میں زمین کے کئی خلائی سپورٹ انٹینا کی مدد لینی پڑتی ہے۔‘
اب تک صرف ناسا، یورپی خلائی ایجنسی اور جرمن ایرو اسپیس سینٹر نے سورج کا مطالعہ کرنے کے لیے خلائی مشن بھیجے ہیں۔
ڈاکٹر مشرا کہتے ہیں، کہ ’کئی خلائی ادارے سورج کے چھپے رازوں پر سے پردہ اُٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ مسلسل کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔‘
ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے مشترکہ مشن ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے بھی کافی ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔ اس کے علاوہ ناسا نے سولر پارکر کے نام سے ایک مشن بھیجا ہے جو سورج کی بیرونی سطح کے اندر جا کر اس کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرے گی۔
آدتیہ ایل ون تو ابھی آغاز ہے
ڈاکٹر اجے لیلے کہتے ہیں، کہ ’ہر مشن دوسرے مشن سے سو فیصد مختلف نہیں ہو سکتا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ اگر کسی ملک نے 10 سال پہلے کوئی مشن بھیجا تھا، تو اس وقت کیا ہوا تھا؟‘ اُس وقت کی ٹیکنالوجی اور آج کی ٹیکنالوجی میں بہت فرق ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’میرے خیال میں ٹیکنالوجی کے فوائد کے لحاظ سے ہر مشن اپنے پہلے مشن سے بہتر ہوتا ہے۔‘
NASA
ڈاکٹر مشرا کا کہنا ہے کہ ’اگر انڈیا دوسرے ممالک کے مشن پر انحصار کرنے کی بجائے خود اپنے مشن کی کامیابی کے لیے کام کرتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ ہر ناکامی سے ایک نیا تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر یوگیشورناتھ مشرا کہتے ہیں، ’آدتیہ ایل ون سورج کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں، بلکہ یہ صرف ایک شروعات ہیں۔ سورج کو سمجھنے کے لیے اور بھی کئی مشن پر کام کرنا ہوگا۔‘