’اپنے شوہر سے نس بندی کا کہا تو جواب ملا کہ تم کروا لو لیکن مجھے مت کہو‘ مرد اپنی نس بندی سے کتراتے کیوں ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2023

’جب میں نے اُنھیں (اپنے شوہر کو) نس بندی کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً غصے میں آگئے۔ انھوں نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا آج بول دیا تو بول دیا، مگر اس پر مزید بحث نہیں ہوگی۔‘

یہ کہہ کر رشمی (فرضی نام) کی آنکھیں بھر آئیں۔

رشمی دہلی این سی آر میں ایک سوسائٹی میں باورچی کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اُن کا تعلق اصل میں مغربی بنگال سے ہیں ہے اور اُن کے تین بچے ہیں۔

وہ مزید کوئی بچہ نہیں پیدا کرنا چاہتیں۔ جب انھوں نے اپنے شوہر سے نس بندی کروانے کے لیے کہا تو ان کا جواب تھا، ’اگر آپ یہ کروانا چاہتی ہیں تو کروا لیں۔ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟‘ اس کے بعد انھوں نے غصے میں کہا کہ ’اس پر مزید بحث نہیں ہوگی۔‘

رشمی اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم چاہتی تھی، اس لیے انھوں نے ہار مان کر خود نس بندی کروا لی جس کے لیے انھیں گھر میں کھانا پکانا چھوڑنا پڑا۔

لیکن کیا صرف رشمی ہی ہیں جنھیں نس بندی کے نام پر اپنے شوہر سے سخت الفاظ سُننا پڑے؟

Getty Imagesاعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

انڈیا میں زیادہ تر خاندانوں میں خواتین اب بھی خاندانی منصوبہ بندی کی ذمہ داری اٹھا رہی ہیں۔

ملک میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 2008 سے 2019 کے درمیان 5.16 کروڑ لوگوں کی نس بندی کی گئی۔ ان میں بھی مردانہ نس بندی کی شرح صرف تین فیصد تھی۔

نس بندی کا رجحان ترقی یافتہ ممالک میں تو ہے مگر انڈیا سمیت دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک میں اس کے بارے میں نہ صرف شعور و آگاہی کا فقدان ہے بلکہ اسی مناسب بھی نہیں سمجھا جاتا۔

اقوام متحدہ کی سنہ 2015 کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں نس بندی کی شرح بالترتیب 21.7 فیصد، 21 فیصد اور 10.8 تھی۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ کونٹینٹ رائٹر اور ایک بیٹی کے والد کیتھ لاویز اپنے ساتھی کے ساتھ مانع حمل کے تکلیف دہ عمل کے بعد نس بندی کے عمل سے گزرے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک کو نس بندی کرانی پڑتی تو میرے خیال میں یہ میرے لیے ایک آسان فیصلہ تھا۔‘

کیتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ خواتین کو بچے کی پیدائش اور اس کے کنٹرول دونوں کی ذمہ داری نہیں دی جانی چاہیے۔‘

امریکہ کی یوٹا یونیورسٹی میں یورولوجی سرجری کے اسسٹنٹ پروفیسر الیگزینڈر پاسٹزاک کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مرد جو نس بندی کے لیے آتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ یہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ’ان کی بیوی نے انھیں ایسا کرنے کو کہا تھا۔‘

انڈین معاشرے میں خواتین کی مساوات اور اس کی حقیقت کے منظر نامے بہت مختلف ہیں۔

اگر ہم مردوں کی نس بندی کی بات کریں تو بھی اسے ایک طرح سے ممنوع سمجھا جاتا ہے، جس کے بارے میں بات کرنا بھی لوگ انتہائی غیر مناسب سمجھتے ہیں۔

Getty Imagesنس بندی ہے کیا؟

گوہاٹی اپولو ایکسل کیئر ہسپتال کے سینیئر یورولوجسٹ ڈاکٹر جوئے نارائن چکرورتی بتاتے ہیں، کہ ’واسکٹومی (نس بندی) ایک سرجری ہے جس میں مرد کے خصیے میں ایک کٹ لگایا جاتا ہے اور نطفہ لے جانے والی ٹیوب یا نالی کو کاٹا جاتا ہے۔‘

جوئے نارائن چکرورتی کہتے ہیں کہ ’یہ سرجری عام طور پر لوکل اینستھیزیا کی مدد سے کی جاتی ہے، یعنی ویسکٹومی کروانے والا شخص ہوش میں ہوتا ہے اور اسے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اس سرجری میں بہت کم وقت لگتا ہے۔‘

اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ نس بندی کی سرجری میں تقریباً 20 منٹ لگتے ہیں۔

انڈیا کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی رپورٹ کے مطابق، نس بندی مانع حمل کے طور پر 99 فیصد موثر عمل ہے لیکن نس بندی کے اس عمل سے کئی گمراہ کُن خیالات وابستہ ہیں، مثلاً یہ کہ جنسی عمل میں یہ سرجری مسائل کا باعث بنتی ہے۔

ڈاکٹر جوئے چکرورتی کہتے ہیں، کہ ’یہ ایک افسانہ ہے، غلط فہمی ہے کہ نس بندی کے بعد جنسی عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ ہوتی ہے۔‘

نیشنل رورل ہیلتھ مشن کی رپورٹ کے مطابق نس بندی کے بعد فوطوں سے سپرم بننا جاری ہے۔ نس بندی کے بعد سپرم سیل نطفے کے ساتھ نہیں ملتے بلکہ ٹیوب کٹ جانے کی وجہ سے آپ کے جسم میں گھل جاتے ہیں۔

مزید یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ نس بندی کی وجہ سے نہ تو موٹاپا کا مرض لاحق ہوتا ہے اور نہ ہی جسم کمزور ہوتا ہے اور مرد پہلے کی طرح محنت کر سکتے ہیں۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ یورولوجی کے محققین کے مطابق سنہ 1973 میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل کے حقوق پر پابندی کے بعد نس بندی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

نس بندی کے حوالے سے یہ رجحان دنیا کے کئی ممالک میں دیکھا گیا ہے۔ گوگل ٹرینڈ سرچ میں بھی ویسکٹومی کے لفظ کی تلاش میں850 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

نیویارک، کیلیفورنیا، فلوریڈا، آئیووا اور دیگر جگہوں پر، 30 سال سے کم عمر مردوں میں نس بندی کی شرح دوگنی ہو گئی۔

وہاں، سنہ 2007 اور سنہ 2009 کے درمیان، 18 سے 45 سال کی عمر کے مردوں کے لیے نس بندی کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہوا۔

سرجری کہاں سے کروانی چاہیے؟

ممبئی کے ہندوجا ہسپتال میں یورولوجسٹ ڈاکٹر سونی مہتا کا کہنا ہے کہ یہ سرجری سرکاری ہسپتال سے کروائی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر جوئے چکرورتی کا اصرار ہے کہ ’سرکاری ہسپتالوں میں اس سرجری کے لیے پیسے نہیں لگتے، اس لیے آپ کو یہ وہاں کروا لینی چاہیے۔‘

اس کے علاوہ، وہ کہتے ہیں، کہ ’اگر آپ اسے کسی پرائیویٹ ہسپتال میں کروانا چاہتے ہیں، تو آپ کو وہاں کی سہولیات کے مطابق پیسے خرچ کرنے ہوں گے۔‘

سرجری سے پہلے اور بعد میں کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس سوال پر ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی خاص احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو سرجری سے پہلے شوگر لیول نارمل ہونا چاہیے۔‘

کیا وہ لوگ جو گردے یا پروسٹیٹ کے مسائل میں مبتلا ہیں اگر وہ چاہیں تو یہ سرجری کروا سکتے ہیں؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہاں کوئی بھی عام آدمی یہ کام کروا سکتا ہے۔

دوسری جانب جنسی زندگی پر اس کے اثرات کے حوالے سے ڈاکٹر سونی بتاتے ہیں، ’اس سرجری کے بعد تقریباً چھ ماہ تک آپ کے نطفے میں سپرم آتا رہ سکتا ہے، اس لیے کنڈوم جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہییں۔‘

کیسے جانیں کہ آپ کے نطفے سپرم سے پاک ہیں؟ اس پر ڈاکٹر سونی کا کہنا ہے کہ ’اس کے لیے سیمین اینالیسس ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔‘

اس ٹیسٹ کو نس بندی ٹیسٹ یا نطفے کا تجزیہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے لیے نمونہ دینے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ دو تین دن تک کسی قسم کی جنسی سرگرمی نہ کریں۔

ایسا کرنے سے نطفے میں سپرمز کی تعداد اپنی بلند ترین سطح پر ہوتی ہے۔

Getty Imagesنس بندی سے متعلق اہم سوالات

برسوں سے یہ تشویش پائی جاتی رہی ہے کہ آیا نس بندی کے مستقبل میں مردوں کی صحت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

نیشنل رورل ہیلتھ مشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نس بندی کا تعلق دل کی بیماری، ورشن یا پروسٹیٹ کینسر، مدافعتی نظام کا بگڑ جانا یا کسی اور قسم کی بیماری سے ہے لیکن ایسی بیماریوں سے اس آپریشن کا کوئی تعلق یا کوئی منفی اثر نہیں۔

کیا نس بندی کے بعد کوئی جنسی بیماریاں تو نہیں ہوتیں؟

انڈیا کی حکومت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ نس بندی سے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (STDs) کو دوسرے کے جسم میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لیے کنڈوم کا استعمال ایک مؤثر ترین طریقہ ہے۔

کیا نس بندی کی سرجری کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

انڈیا کی حکومت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایسا بالکل کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ نس بندی کے عمل سے گزرنے والے مردوں کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک پیچیدہ سرجری ہے اور اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

انڈیا کی بڑھتی ہوئی آبادی خوفناک شکل اختیار کر رہی ہے۔ 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی آبادی 140 کروڑ بتائی۔

ساتھ ہی اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہندوستان کی آبادی 150 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

ملک کی آزادی کے بعد، انڈیا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے شرح پیدائش کو کم کرنے اور آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کے مقصد کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا۔

بعد کے برسوں میں، خاص طور پر سنہ 1972 سے سنہ 1980 تک، خاندانی منصوبہ بندی آبادی پر قابو پانے کی ایک وسیع مہم بن گئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More