ہر انسان نے سونا ہوتا ہے اور ہم کبھی کبھار جھٹکے سے جاگ بھی جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس سے منافع کمانے کا طریقہ ڈھونڈھ لیا ہے۔
یوٹیوب، ٹک ٹاک اور ٹویچ جیسے ویڈیو پلیٹ فارمز نام نہاد ’سلیپ سٹریمرز‘ سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ وہ اکاؤنٹس ہیں جن پر لوگ بستر پر سوتے ہوئے اپنی لائیو سٹریمنگ کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق امریکی یوٹیوبر کائی سینیٹ نے مارچ میں روزانہ سونے کی سٹریمنگ سے ہزاروں ڈالرز کمائے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ سٹریمر ایموریتھ نے جون میں کی گئی ایک پوڈ کاسٹ میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایک سلیپ سٹریمنگ کے ذریعے 15 ہزار ڈالر کمائے۔
ایسی سٹریمز کے ناظرین کے لیے یہ ایک کمیونٹی کا حصہ ہونے کا احساس دلاتا ہے جسے دیکھتے ہوئے وہ خود بھی ان سٹریمرز کے ساتھ سو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ان کے لیے تفریح کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔
سننے میں یہ کافی عجیب و غریب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں براطانوی ریئلٹی شو ’بِگ برادر‘ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے شوز میں سے ایک بن گیا تھا۔
اس شو کے آن لائن 24 گھنٹوں کے لائیو سٹریم کو آن لائن پذیرائی ملی تھی۔ اس سٹریم سے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ اس شو میں حصہ لینے والوں کو رات میں سوتے ہوئے بھی دیکھ سکیں۔
سنہ 2004 میں برطانیہ کی نیشنل پورٹریٹ گیلری میں فٹبالر ڈیوڈ بیکہم کی ایک گھنٹا طویل سونے کی ویڈیو دکھائی گئی۔
Getty Imagesایموریتھ ٹویچ پلیٹفارم پرتیسری مقبول ترین خاتون ہیں۔ انھوں نے اپنے کونٹینٹ کے لیے ایوارڈز جیتے ہیںجو سوتا ہے کیا وہ اب جیت بھی جاتا ہے؟
دوسری قسم کی سلیپ سٹریمز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ لوگ سٹریمرز کو سونے کے پیسے دیں وہ انھیں جاگے رہنے کے پیسے دیتے ہیں۔ پیسے دے کر لوگ اونچی آوازیں، الرٹس، لائٹس یا کمرے کو کچھ کر سکتے ہیں جس سے سٹریمر کو نیند سے بیدار کیا جاسکتا ہے۔
یہ ویڈیوز اب لائیو ایکشن ویڈیو گیمز کی طرح ہیں جن میں سٹریمر سونے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ صارفین چاہتے ہیں کہ وہ جاگتے رہیں۔
اس سلسلے کا آغاز ٹک ٹاک سے ہوا اور اس پر جیکی بوام اور سٹینلی (سٹینلی موو) جیسے ’سلیپ فلوئنسرز‘ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ کبھی کبھار کی سلیپ سٹریمز سے اپنے گھر کا کرایہ ادا کر لیتے ہیں۔
ناظرین اس اعزاز کے لیے کافی پیسے دینے کو تیار ہیں۔ مثال کے طور پر ناظرین سٹینلی موو کو ان کے کڑے کے ذریعے بجلی کا جھٹکا دینے کے 95 ڈالر دے سکتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’عام طور پر جب میں سلیپ سٹریمز کرتا ہوں، یا میں بعد میں اس سے یوٹیوب ویڈیو اور کونٹینٹ بناتا ہوں تو مجھے جھٹکا لگنا بنیادی طور پر میرے یوٹیوب چینل کے لیے (اچھا) کونٹینٹ ہے۔‘
’مجھے نہیں معلوم کہ یہ ہماری بنیادی جبلتوں کی طرح ہے، لیکن کچھ لوگ واقعی دوسرے لوگوں کو تکلیف میں دیکھنا یا دوسرے لوگوں کو چوٹ لگتے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔‘
Getty Imagesکائی سینیٹ سوتے وقت سب سے زیادہ کمانے والوں میں سے ایک ہے
12 ڈالر لگا کر لائٹس کو مدھم کیا جا سکتا ہے یا 24 ڈالر دے کر سونے والوں پر بہت تیز روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ سٹریمز سے اچھے پیسے کمانے کے باوجود سٹینلی کہتے ہیں کہ وہ فی الحال اس سے وقفہ لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں ذہنی صحت اور تھکاوٹ کی وجہ سے سلیپنگ سٹریمز سے وقفہ لے رہا ہوں۔‘
’میں یہ خود کرتا ہوں۔ گذشتہ تین سالوں سے میں ایک ہفتے میں تقریباً تین ویڈیوز ریکارڈ اور ایڈٹ کرتا ہوں۔ کونٹینٹ کی وجہ سے میرے کندھوں پر کافی بوجھ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے طریقے سے یہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرا برینڈ بنیادی طور پر میرا لطیفہ ہے، میرا مذاق ہے اور یہ ایڈیٹنگ میں بھی ہوتا ہے۔
’بنیادی طور پر میں سٹریمنگ کرتے ہوئے اپنے ذہن میں ویڈیو کو ایڈٹ کر رہا ہوتا ہوں۔‘
بڑے خواب
اس سے شاید اچھے پیسے تو بن سکتے ہیں لیکن کیا یہ صحت کے لیے اچھا ہے؟
’نیویگیٹنگ سلیپلیس نیس‘ کتاب کی مصنفہ اور سونے کے موضوع کی ماہر ڈاکٹر لنڈزی براؤننگ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس پر دو نقطہ نظر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سائنس بتاتی ہے کہ تسلسل سے ہر رات اچھی نیند سونے کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔‘
’لیکن اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔ ان والدین کا کیا جن کے بچے بیمار ہوتے ہیں؟ سو وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں رات کی اچھی نیند نہ ملتی ہو۔‘
’میرا کام ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کام کرتی ہوں جو انسومنیا (نیند نہ آنے کی بیماری) کا شکار ہیں، جہاں وہ سونا چاہتے ہیں لیکن ان کا دماغ انھیں سونے نہیں دیتا۔ اس علاج کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس ڈر کو ختم کیا جائے کہ صحیح نیند نہ سونے سے دنیا ختم نہیں ہو جائے گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ سلیپ سٹریمز اچھا آئیڈیا نہیں تھا لیکن ’یہ ایسا ہی ہے جیسے جمعے کو آپ نشے میں تھے۔ یہ اچھی چیز نہیں ہے ہم سب کو یہ معلوم ہے لیکن اس سے دنیا ختم نہیں ہو گئی۔ آپ اپنے دوستوں کے ساتھ تفریح کر رہے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’اگر میں اسے اس کیٹیگری میں ڈال دوں کہ اگر اسے ہر دو یا تین ہفتوں میں ایک بار پیسوں کا ڈھیر کمانے کے لیے کیا جائے تو کیوں نہیں؟‘
بجلی کے جھٹکوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے کہ ایک کمیونٹی کا حصہ ہونے کا احساس لوگوں کو کائی سینیٹ اور ایموریتھ جیسے سٹریمرز تک کھینچ کر لے آتا ہے جبکہ وہ صرف سو رہے ہوتے ہیں۔
سٹینلی کہتے ہیں ’لوگ اسے سکون حاصل کرنے کے لیے دیکھتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوتا ہے جیسے وہ اکیلے نہیں ہیں۔‘