وہ پرانی ٹیکنالوجی جو خلائی مشنوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے

بی بی سی اردو  |  Aug 19, 2023

کئی دہائیوں سے کچھ مشہور خلائی مشنز ہمارے نظام شمسی کی تلاش اور دریافت میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں دو وائجر مہمات بھی شامل ہیں۔ تاہم ان مہمات کو جاری رکھنے میں مدد کرنے والی ٹیکنالوجی آپ کی توقع سے مختلف ہو سکتی ہے۔

یہ فرنچ گیانا میں یورپی خلائی پورٹ پر چار جون 1996 کی بات ہے۔

یورپ کے چار ایک جیسے کلسٹر سیٹلائٹس کو ڈیزائن کرنے اور بنانے میں 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا تھا لیکن یہ تمام محض 39 سیکنڈ میں ہی آگ کے گولے میں تبدیل ہو کر تباہ ہو گئے۔

ان کی باقیات جنوبی امریکہ کے جنگلوں پر برسیں کیونکہ اریانے-5 راکٹ اپنے راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اہم شخصیات جو کچھ دیر پہلے باہر اپنی گیلیریوں میں شیمپین کا مزہ لے رہی تھیں انھیں گرنے والے ملبے سے زخمی ہونے سے بچانے کے لیے واپس اندر لے جایا گیا۔

یہ تباہی یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کی بظاہر سب سے بڑی ناکامیوں میں سے ایک تھی۔ لیکن چند ہی مہینوں کے اندر ایک متبادل مشن کلسٹر-2 پر کام شروع ہو گیا تھا۔

میگنیٹوسفیئر یعنی سورج سے چارج شدہ ذرات یا شمسی ہوا اور زمین کے ارد گرد موجود مقناطیسی بلبلے کے درمیان عمل کی تحقیقات کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا کلسٹر-2 کا شمار اب تک کے سب سے کامیاب اور دیرپا سائنسی مشنوں میں ہوتا ہے۔ ا

ان سیٹلائٹس یا مصنوعی سیاروں (جن کے نام رمبا، سالسا، سامبا اور ٹینگو رکھا گیا ہے) نے مدار میں ابھی اپنے 23 سال پورے کیے ہیں اور حال ہی میں ان کی اس کامیابی کا جشن منایا گیا ہے۔

جرمنی کے ڈرمسٹادٹ میں یورپی سپیس آپریشن سینٹر (ایسوک) میں کلسٹر کے مشن آپریشنز مینیجر برونو سوسا نے کہا کہ ’اس مشن کو صرف تین سال تک چلنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس مشن پر کام کرنے کے لیے سائنسدانوں کا ایک بہت پرجوش گروپ ہے۔ ان میں سے کچھ اس کے انجام کے منتظر ہیں تاکہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے لطف اندوز ہو سکیں۔‘

Getty Imagesکلسٹر خلائی مشن کو 20 سال قبل روانہ کیا گیا تھا جو کہ اب تک کام کر رہا ہے

کلسٹر-2 ان بہت سے مشنوں میں سے ایک ہے جو آج بھی چل رہا ہے اور یہ انجینئرنگ اور سائنس کی ٹیموں کی مہارت کی وجہ سے ہے کہ انھوں نے ان کی خرابیوں کو دور کیا اور تقریباً تباہ کن ناکامیوں کے ذریعے مسائل کو حل کیا۔ خلائی جہاز کو برقرار رکھنے کا چیلنج اس وقت سامنے آيا جب کنٹرولرز کا وائجر 2 سے مختصر طور پر رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔

تقریباً 46 سال قبل سنہ 1977 میں شروع کیا جانے والا جڑواں وائجر پروبس نظام شمسی کے باہر سے اب بھی ڈیٹا بھیج رہا ہے۔

میں نے ناسا سے معلوم کیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ خلائی جہاز کو اب بھی اسی خاکستری کیوبیکل سے کنٹرول کیا جا رہا ہے جس کا میں نے سنہ 2017 میں دورہ کیا تھا۔ یہ کیوبیکل جیٹ پروپلزن لیب (جے پی ایل) کا اضافی حصہ ہے۔ وہاں ایک گھر میں بنے کارڈ بورڈ پر نشان کے ساتھ لکھا ہوا تھا: 'مشن کریٹیکل ہارڈویئر - براہ کرم ہاتھ نہ لگائیں۔'

وہاں کا سیٹ اپ کلسٹر مشن کے کنٹرولرز سے واقف ہو گا، جنھیں 20ویں صدی کے گراؤنڈ کنٹرول سافٹ ویئر سے نبردآزما ہونا پڑا تھا اور یہ ایک پرانے آپریٹنگ سسٹم پر بنایا گیا تھا۔

برونو سوسا نے کہا کہ ’ہم نے ایک پیچیدہ سیٹ اپ تیار کیا تھا اور ہمارے پاس جدید لائینکس سرورز ہیں جو پرانے آپریٹنگ سسٹم کے ایمولیٹر کے ساتھ ایک ورچوئل ماحول میں چلائے جا رہے ہیں۔ اور جو اشخاص سافٹ ویئر چلا رہے ہیں وہ شروعاتی ٹیم کا حصہ ہیں جو اس مشن کے ختم ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔‘

توانائی یا بجلی یا پاور بھی ایک مسئلہ رہی ہے۔ کلسٹر سیٹلائٹس کو بجلی کی فراہمی کے لیے شمسی توانائی سے چارج کیا جاتا ہے لیکن سال میں دو بار یہ زمین کے سائے میں چلے جاتے ہیں اور انھیں چلتے رہنے کے لیے بیٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

برونو سوسا نے کہا کہ ’بیٹریوں کو صرف پانچ سال تک چلنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور چھٹے سال سے اس نے صلاحیت کھونا شروع کر دیا۔ پھر ان میں دراڑیں پڑ گئیں اور آخرکار لیک ہو گئیں اور بالآخر مکمل طور پر ناقابل استعمال ہو گئیں۔‘

اس کا حل یہ تھا کہ جب سیٹلائٹس زمین کے سائے میں پہنچیں تو ان کے پاور کو بند کیا جائے اور پھر انھیں خودکار ترتیب میں دوبارہ شروع کرنے کے لیے سگنل بھیجے جائيں۔ یہ کلسٹر کے لیے سال میں دو بار فیکٹری ری سیٹ کرنے جیسا ہے۔ درحقیقت جب خلائی جہاز کی دیکھ بھال کی بات آتی ہے تو اکثر اس کے مینوفیکچررز سے اس پر کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر 10 میٹر طویل ایسا کے ایکس ایم ایم-نیوٹن ٹیلسکوپ کو ہی لے لیں۔ ایئربس کے ذریعہ بنائی گئی یہ دوربین دور دراز کہکشاؤں سے ایکس رے کے اخراج کی تحقیقات کے لیے ڈیزائن کی گئی اور 24 سالوں میں دیوہیکل دوربین بلیک ہولز کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اس نے ستاروں کی پیدائش اور موت کا مشاہدہ کیا اور پوشیدہ کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ کو تبدیل کرنے میں مدد کی ہے۔ لیکن اپنے مشن کے دسویں سال کے بعد سے اس پر عمر کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔

بہت سے مصنوعی سیاروں کی طرح ایکس ایم ایم-نیوٹن کے پاس اسے چلاتے رہنے کے لیے تھرسٹرز اور مستحکم رکھنے کے لیے پہیے ہیں۔ شمسی پینلوں سے چلنے والے یہ پہیے تیزی سے گھومتے ہیں اور ایک ایسی قوت پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے آربیٹر مخالف سمت میں گھومتے ہیں۔ اس دوربین کو تین پہیوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جبکہ چوتھے کو بیک اپ کے طور پر رکھا گیا تھا۔ لیکن کسی پرانے کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو کی طرح ایک دہائی کے بعد اس کی نقل و حرکت میں بھی پریشانی ہونے لگی اور اس کے پرزے پرانے ہونے لگے۔

ری ایکشن والے پہیوں کے مکمل طور پر ناکارہ ہونے تک انتظار کرنے کے بجائے مشن کے کنٹرولرز نے چوتھے پہیے کو فعال کردیا لیکن اب وہ تمام پہیوں کو دھیمی رفتار سے چلا رہے ہیں۔

سنہ 1995 سے ایکس ایم ایم-نیوٹن پر کام کرنے والے برطانیہ میں مقیم ایئربس انجینئر پیٹرک چیپ مین بتاتے ہیں: ’ہم نے اس کے لیے تفصیلی الگورتھم (حساب کتاب) تیار اور سافٹ ویئر کو ڈیزائن کیا اور پھر اسے سنہ 2013 میں خلائی جہاز پر اپ لوڈ کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ اب بھی صحت مند ہے اور ہم ایندھن کی بچت بھی کر رہے ہیں۔‘

اس کمی کو دور کرنے میں کئی مہینے لگے اور دوربین کو بچا لیا گیا لیکن بعض اوقات وقت کوئی آپشن نہیں ہوتا ہے۔

22 ستمبر سنہ 2021 کو صبح ساڑھے دس بجے ایکوس میں یورپی خلائی ایجنسی کے انٹیگرل مشن کنٹرول روم میں الارم بجنے لگے۔ 19 سال سے کام کرنے والے گاما رے آبزرویٹری پر ایک ری ایکشن وہیل نے کام کرنا بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے سیٹلائٹ سیف موڈ میں چلا گيا تھا لیکن اس سے بھی خراب بات یہ تھی کہ وہ آہستہ آہستہ کنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔

اس مشن کے آپریشن مینیجر رچرڈ ساؤتھ ورتھ نے کہا کہ ’ہمارے ہاں بہت سے الارم بج رہے تھے اور سیٹلائٹ پر صرف تین گھنٹے کی بجلی رہ گئی تھی۔‘

Getty Imagesوائجر ٹو میں جو ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے وہ کسی میوزیم میں رکھنے کے لائق ہے

خلائی جہاز کی آپریشن انجینیئر گریٹا ڈی مارکو نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس پاور ختم ہو رہی تھی کیونکہ یہ گھومتا ہوا سورج سے دور جا رہا تھا۔‘

ساؤتھ ورتھ کا کہنا ہے کہ کچھ حد تک وہ خوش قسمت تھے کیونکہ ’یہ صبح کا وقت تھا، ہم سب کام پر تھے اور اتفاق سے میں تقریباً 100 ایئربس انجینئرز کے ساتھ زوم کال پر تھا تاکہ میں انھیں خرابی کے بارے میں بتا سکوں۔‘

ڈی مارکو کا کہنا ہے کہ ٹیم کو سیٹلائٹ کی سمت اور رفتار کے بارے میں بتانے کے لیے وقت درکار تھا تو ’ہم نے آلات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

ساؤتھ ورتھ کا کہنا ہے کہ ’بیٹریاں ختم ہو رہی تھیں اور میں جانتا تھا کہ اگر ہمیں ایک بار پھر گھمانا ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ اس وقت میں قدرے مایوسی کا شکار ہو گیا تھا۔‘

بالآخر گردش کی وجہ سے رک رک کر آنے والے سنگنل کے باوجود ٹیم دوسرے ری ایکشن پہیوں کی رفتار کو ایڈجسٹ کرنے میں کامیاب رہی۔

ساؤتھ ورتھ کہتے ہیں کہ ’یہ وہ پل تھا جب میں نے سوچا اگر یہ کام کر سکا تو ٹھیک ہے ورنہ ہم گئے۔‘

ڈی مارکو کا کہنا ہے کہ ’اس لڑائی میں بہت سے لوگوں کے ساتھ گھنٹوں کی محنت اور کوششوں کے بعد ہم سیٹلائٹ کو دوبارہ کنٹرول میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔‘

اس کے بعد سے انٹیگرل اچھی طرح سے کام کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ کا بوڑھا خلائی جہاز آپ کی دنیا سے 150 ملین کلومیٹر دور ہو تو کیا ہو؟

سنہ 2003 میں لانچ کیا جانے والا یورپی خلائی ایجنسی کی خلائی گاڑی مارس ایکسپریس کو مریخ کے مدار میں دو سال تک رہنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ تقریباً 20 سال بعد بھی یہ مشن فضا کی چھان بین کر رہا ہے اور اس نے مریخ کی سطح کی شاندار تصویر کشی کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اس نے ناسا روورز کی ایک سیریز کے لیے ریلے کے طور پر کام کیا ہے۔

اپنے ساتھیوں کی طرح ہی کنٹرولرز کو بھی پرانے کمپیوٹر سسٹم سے نمٹنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر خلائی گاڑی میں موجود کمپیوٹر میں خرابی کے بعد انجینئرز نے خلائی جہاز کے کمپیوٹر کی دو ایم بی ریم میموری میں کمانڈ لوڈ کرنے کا ایک نیا طریقہ تیار کیا۔ (بر سبیل تذکرہ آج ایک آئی فون 14 کی میموری 128 جی بی سے شروع ہوتی ہے جس میں 64000 گنا زیادہ میموری ہے۔)

Getty Imagesمارس ایکسپریس مشن یورپی خلائی ایجنسی کی مدد سے ابھی بھی جاری ہے

انھوں نے یہ بھی پتا چلایا کہ آن بورڈ نیویگیشن سسٹم کے ایک حصے کے لیے اصل سافٹ ویئر ونڈوز 98 پر ہی چل رہا تھا، جسے کھولنے کے لیے کوئی بھی پاس ورڈ نہیں ڈھونڈ سکتا تھا اور ہارڈ ڈرائیوز کو نکالنے کے لیے بولٹ کٹر کا استعمال کیا گیا۔ لیکن سب سے بڑا چیلنج پانچ سال پہلے آیا اور یہ پھر سے ایک میکینکل ناکامی تھی جس سے مشن کے قبل از وقت ختم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔

مارس ایکسپریس میں گردش کی پیمائش کرنے کے لیے چھ جائروسکوپس نصب ہیں۔ ساتھ میں دو کیمرے بھی ہیں جنھیں سٹار ٹریکرز کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں خلائی جہاز کو خلا میں اس کی سمت کا تعین کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ لیکن سنہ 2017 تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ جائروس ناکام ہو رہے ہیں۔

خلائی جہاز کے آپریشنز انجینیئر سائمن ووڈ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ایک بڑی میٹنگ میں خلائی جہاز کی حالت کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس کے کام کرتے رہنے کے دو سال باقی ہیں۔ اور یہ ایک بہت افسردہ کر دینے والی میٹنگ ثابت ہوئی۔‘

خوش قسمتی سے اس خلائی جہاز کو ایک معیاری ڈیزائن پر بنایا گیا تھا جو کہ کامیٹری ایکسپلورر ’روزیٹا‘ سمیت دیگر مشنوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اگرچہ مارس ایکسپریس کو کبھی بھی اس کے جائروس کے بغیر کام کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا لیکن روزیٹا کے سافٹ ویئر نے اس کے جائروس کو بند کرنے کی اجازت دی۔ تو کیا وہ روزیٹا کے لیے 20 سال سے زیادہ پہلے ڈیزائن کیے گئے کوڈ کو ہیک کر کے اسے مارس ایکسپریس کے لیے کام کرنے والا بنا سکتے ہیں؟

سائمن وڈ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے زیادہ تر ساتھیوں نے سوچا کہ ہم پاگل ہو گئے ہیں کیونکہ یہ خیال کہ آپ آن بورڈ سافٹ ویئر سورس کے کوڈ کے اندر جائیں گے تقریباً سنا ہی نہیں گیا تھا۔ لیکن ہم اس پر جمے رہے۔‘

سنہ 2018 میں انھوں نے سافٹ ویئر اپ لوڈ کرنے اور خلائی جہاز کو دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کی۔ سائمن وڈ کا کہنا ہے کہ ’خلائی جہاز 12 سالوں سے سردی کی وجہ سے دوبارہ شروع نہیں ہوا تھا، لہٰذا اس میں خطرات تھے۔ یہ ہماری توقعات سے بہتر کام کر رہا ہے اور اب ہمارے پاس سنہ 2028 تک اس کی توسیع کا مشن ہے۔‘

Science Photo Libraryتقریبا تمام مشنز کو ایک نہ ایک دن ختم ہو جانا ہے

لیکن مریخ کے مدار میں ایک اور مشن اس سے بھی زیادہ دیر تک کام کرتا رہا ہے۔ ناسا کی اوڈیسی مہم 95,000 بار مدار کے چکر لگا چکا ہے اور یہ کسی دوسرے سیارے کے گرد مدار میں چلنے والا قدیم ترین خلائی جہاز ہے۔

مشن پروجیکٹ سائنسدان جیفری پلاٹ کہتے ہیں: ’میں مریخ پر ایسے مضبوط روبوٹ کی موجودگی سے بہت خوش قسمت محسوس کرتا ہوں۔‘ وہ موجودہ مرحلے کو مریخ کی تلاش کا ’سنہری دور‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مشن کے صرف چند سالوں تک چلنے کی امید تھی اور یہ خوش کن امر ہے کہ یہ ہمیں غیر متوقع سائنسی تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے، خاص طور پر مریخ پر موسم اور آب و ہوا کی طویل مدتی نگرانی کے معاملے میں۔۔۔ یہ واقعی بہت قابل ذکر ہے۔‘

پلاٹ سنہ 2001 میں مریخ کے مدار میں پہنچنے کے بعد سے اوڈیسی پر کام کر رہے ہیں لیکن پاساڈینا میں جے پی ایل میں تعینات موجودہ آپریشنز ٹیم صرف گزشتہ 18 مہینوں سے ہی کام کر رہی ہے۔ اس ٹیم کو پرانی ٹیم سے برسوں کی حکمت کا بیٹن ملا ہے۔

مشن مینیجر جیرڈ کال خلائی جہاز کو زیادہ سے زیادہ دیر تک جاری رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ مثالی طور پر اپنے یورپی خلائی ایجنسی کے حریف یا بہتر طور پر پارٹنر سے زیادہ دیر تک چلانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہنستے ہوئے جیرڈ کال کہتے ہیں کہ ’میں [مارس ایکسپریس کے ساتھ] کسی مقابلے کے بارے میں نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی مقابلہ ہے تو مجھے جیتنے کی امید ہے۔‘

آخرکار مریخ کے مدار میں دونوں خلائی گاڑیوں کا ایندھن ختم ہو جائے گا۔ کال کا کہنا ہے کہ ’خلائی جہاز میں فیول گیج نہیں ہے۔ پروپیلنٹ کے بنانے میں جو حکمت ہے اس کے ممکنہ طور پر تین حصے ہیں۔ دو حصہ حساب ہے اور ایک حصہ انجینئرنگ اور علم طبیعیات ہے۔‘

لیکن مشن کنٹرولرز کتنی ہی کاریگری اور مہارت سے کام کیوں نہ لیں ان تمام مشنوں کو بالآخر اپنے انجام کو پہنچنا ہے۔ سوائے شاید ایک کے۔ ایک سنہری ڈسک پر زمین سے جانے والے پیغامات کے ساتھ وائجر خلائی جہاز لاکھوں سالوں تک اپنا سفر جاری رکھے گا جو کہ ہمارے جانے کے بہت بعد بھی کائنات میں ہماری میراث ہوگا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More