ڈومز ڈے گلیشیئر: دنیا کے خوفناک ترین مقامات میں سے ایک جسے گلوبل وارمنگ ’دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 18, 2023

سنہ 2019 میں 57 سائنسدانوں اور اُن کے عملے نے انٹارکٹیکا کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے کے لیے 54 دن پر محیط پُرخطر سفر کا آغاز کیا تھا۔

ان کا منصوبہ ’تھاویٹس‘ نامی اُس گلیشیئر تک جانا تھا جس کا ایک حصہ گذشتہ سال ٹوٹ کر اس سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ گلوبل وارمنگ کے باعث ٹوٹ جانے والے اس ٹکڑے کا حجم پورے برطانیہ کے رقبے جتنا ہے۔

تیزی سے پگھلنے والے اس گلیشیئر کو ’ڈومز ڈے گلیشئیر‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

1990 کی دہائی کے مقابلے میں ’تھاویٹس‘ نامی یہ گلیشئر آٹھ گنا تیزی سے پگھل رہا ہے، یا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ گلوبل وارمنگ اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

دستیاب معلومات کے مطابق ’تھاویٹس گلیشیئر‘ سے ہر سال 80 ارب ٹن برف ٹوٹ کر سمندر میں شامل ہو رہی ہے جو کرہ ارض پر سطح سمندر میں چار فیصد سالانہ اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

اس گلیشیئر کے انتہائی بڑے حجم اور اس کی وجہ سے سطح سمندر میں ہونے والے خطرناک اضافے کی وجہ سے اس دور دراز برفیلے مقام کو نہ صرف زمین پر خوفناک ترین مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے شکار کا ایک مظہر بھی۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ’تھاویٹس گلیشئیر‘ مکمل طور پر پگھل جاتا ہے تو اس کے ردعمل میں سمندر میں پانی کی سطح 10 فٹ یا اس سے بھی زیادہ بلند ہو سکتی ہے۔

’تھاویٹس گلیشیئر‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی جانب سفر کرنے والے افراد زندگی میں شاید ایک ہی مرتبہ ایسا کرتے ہیں، اور اس مرتبہ اس کا جانب جانے والے 57 سائنسدانوں اور اُن کے عملے میں سے ایک الزبتھ رش بھی تھیں، جن کی موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں لکھی کتاب ’رائزنگ‘ پلٹزر پرائز کے فائنلسٹ میں سے ایک تھی۔

رش کی ایک اور تازہ ترین کتاب ’دی کوئیکنگ‘ میں انھوں نے ’تھاویٹس گلیشیئر‘ کے اُس مقام تک کے اپنے سفر کو بیان کیا ہے جہاں تک اس سے پہلے انسانوں کا جانا یا پہنچنا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔

رش نے اپنے انٹارکٹک کے اس سفر کے بارے میں بات کرنے کے لیے بی بی سی ٹریول کے ساتھ ایک نشست کی ہے جس میں اُنھوں نے بتایا کہ کیسے اس سفر نے اُن کے دنیا کے انتہائی نازک ترین ماحولیاتی نظاموں کے بارے میں اُن کے نظریات اور تاثرات کو تبدیل کیا۔

’تھاویٹس گلیشیئر‘ کہاں ہیں اور آپ نے اس مہم کے بارے میں پہلی بار کیسے سنا؟

’تھاویٹس گلیشیئر‘ انٹارکٹیکا میں موجود واقعی ایک پراسرار جگہ ہے۔ یہ بحیرہ امنڈسن میں بہت دور تک اپنے اثرات اور نشانات کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے قریب ترین واقع ریسرچ بیس (تحقیقی سینٹر) تک پہنچنے کے لیے چار دن کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ جب میں نے اس مشن کا حصہ بننے کے لیے حامی بھری تو میرے پروگرام آفیسر نے مجھ سے کہا، کہ ’کیا آپ جانتی ہیں، کہ ہمارے لیے خلائی سٹیشن پر کام کرنے والے لوگوں کی مدد کرنا زیادہ آسان ہے بانسبت اس کے کہ یہاں اس مقام پر کسی مصیبت میں پھنس جانے کی صورت میں آپ تک مدد پہنچ سکے۔‘

اس بات کا خدشہ ہے کہ ’تھاویٹس گلیشیئر‘ تیزی سے تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس کے کنارے تک نہیں جا سکا۔

میں نے انٹارکٹک آرٹسٹ اور رائٹرز پروگرام کے ذریعے اس مشن کا حصہ بننے کے لیے درخواست دی۔ اس پروگرام کے تحت ہر سال دو مصنفین یا فنکاروں کو انٹارکٹیکا بھیجا جاتا ہے، اسی سلسلے میں میں نے اپنے اس پروگرام میں شمولیت سے متعلق 60 صفحات پر مشتمل ایک درخواست جمع کروائی۔

میری درخواست میں ایک پپیرائے میں ایک نوٹ تھا جس میں میں نے لکھا تھا کہ ’میں سمندر کی سطح میں اضافے کے بارے میں لکھتی ہوں، میں انٹارکٹیکا میں ان مختلف مقامات پر جانا چاہتی ہوں اور خود سطح سمندر میں اضافے کی وجوہات کا مشاہدہ کرنا چاہتی ہوں۔‘

میں بہت خوش قسمت تھی کہ مجھے نا صرف اس پروگرام کا حصہ بنایا گیا بلکہ مجھے اس سفر پر لے جانے والے بحری جہاز پر مکمل برتھ دی گئی۔

اگر سمندر کی سطح 10 فٹ یا اس سے زیادہ بڑھ جائے تو اس کے عالمی سطح پر کس قسم کے اثرات ہوں گے؟

یہ ٹھیک ہے، کہ جس رفتار کے ساتھ یہ ہو رہا ہے یعنی گلیشئر کا پگھلنا اور سمندر میں پانی کی سطح میں اضافہ، اس سے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہونگے۔ لہذا، دو صدیوں میں پانی کی سطح میں 10 فٹ تک اضافے، حقیقت میں 40 سالوں میں 10 فٹ سے مختلف ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ انسان اس کے بارے میں کیا کر رہے ہیں؟

میں ’مینجڈ ریٹریٹ‘ کی ایک بہت بڑی حامی ہوں، جس میں ایک سرکاری ادارہ نشیبی علاقوں میں سیلابی صورت حال کو پرکھنے اور پھر اس میں موجود سیلاب زدہ مکانات کو اُن کی اس سے قبل اصل قیمت پر خرید رہا ہے، جس سے وہاں رہنے والے لوگوں کو اپنے مکانات کی اصل قیمت ملنے اور اُن کے مالی حالات بہتر کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

نیو یارک سٹی پہلے سے ہی ’اسٹیٹن آئی لینڈ‘ پہلے ہی اس کے اثرات کا سامنا کر چُکا ہے۔ ایسی صورت میں ریاست کی جانب سے اسٹیٹن آئی لینڈ کے معاملات میں مداخلت کی گئی اور پانچ سو سے زیادہ مکانات کو پہلے خریدا گیا اور بعد میں ان کو مسمار کر دیا گیا۔ ان مکانات کے اسی فیصد رہائشیوں میں سے اکثر اپنے گھروں کی قیمت لے سکے اور اسٹیٹن آئی لینڈ پر کہیں اور منتقل ہو گئے تھے۔ ہم بعض اوقات سوچتے ہیں کہ ’مینجڈ ریٹریٹ‘ بسا اوقات برادریوں کو علیحدہ کرنے یا توڑنے کے مترادف بھی ہوتا ہے، ایسی صورت میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔

لہذا، سطح سمندر میں اضافہ تباہ کن نہیں ہے ’اگر‘ ہم اس کے لیے مکمل تیاری کریں، لیکن ایسی صورت میں ’اگر‘ کا لفظ اہم ہے۔

آپ کیوں سوچتی ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے تھیں جنھیں اس مہم کا حصہ بننے کے لیے منتخب کیا گیا؟

درخواست میں، میں نے اس بارے میں لکھا کہ میں ایک ایسی کتاب کیسے لکھ سکتی ہوں جس میں میرا بیانیہ بنیادی اہمیت کا حامل تو ہو گا لیکن اس میں ان جگہوں پر کام کرنے والے سائنسدانوں اور عملے کی آوازیں شامل ہوں گی جو وہاں کام کر رہے ہیں۔

انٹارکٹیکا کو دو سو سال پہلے ایک شخص نے دیکھا تھا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہایت قلیل وت میں ہوا ہو گا کیونکہ اس سفر سے متعلق سانے آنے والے واقعات اور تفصیلات بہت ہی کم ہیں۔

جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہمیں انٹارکٹیکا کے بارے میں ایک بہت ہی مختصر کہانی سنائی گئی، جس کا انسانی فتح اور انسانوں کے ناقابل یقین حد تک آگے بڑھنے اور حالات پر قابو پانے کے ساتھ بہت کچھ کرنا ہے۔

ان میں سے اکثر مغرب سے تعلق رکھنے والے سفید فام ہوتے ہیں۔ انٹارکٹیکا کے بارے میں تمام کہانیاں ایک جیسی ہیں۔

میں انٹارکٹیکا کے بارے میں ایک ایسی کہانی بنانا چاہتی تھی جس میں سب شامل ہوں۔

میں یہ بات جانتی تھی کہ میں دُنیا کے اُس سرد ترین مقام پر کام کرنے والے باورچیوں، انجینئرز، اور انٹارکٹک میں موجود امدادی عملے کا انٹرویو کرنے جا رہی ہوں۔

مجھے لگتا ہے کہ میری اس سوچ اور اندازِ تحقحق نے میری درخواست کی منظوری اور میرے انتخاب میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ، ایسا تھا، کہ میں سائنس کے بارے میں بات کرنے جا رہی ہوں، لیکن میں اپنے اس سفر کو اس طرح کرنا چاہتی تھی کہ انٹارکٹیکا کے بارے میں موجود پہلے سے کہانیوں سے میرا اندازِ بیان اُس مقام کے بارے میں نیا اور مختلف ہو۔

کیا کوئی ایسی کہانیاں بھی تھیں جنھوں نے آپ کا راستہ روکا ہو کہ اُن میں وہ مواد نہ ہو جو انٹارکٹیکا سے جُڑی کہانیوں میں عام طور پر شامل نہ ہوا ہو مگر انھوں نے مسافروں کے دنیا کو دیکھنے کے انداز کو تبدیل کیا ہو؟

مجھے یاد ہے کہ جیک نامی ایک لڑکے سے میری بات ہوئی تھی جو ہمیں انٹارکٹیکا تک لے جانے والے بحری جہاز پر باورچی تھے۔

وہ نیو اورلیانز کے رہنے والے تھے اور انھوں نے اپنے دادا کی مالی طور پر بہتر دیکھ بھال کرنے میں مدد کرنے کے لیے اس مہم میں باورچی بننے کے لیے شمولیت اختیار کی تھی۔ مگر افسوسناک بات یہ تھی کہ ان کے دادا کی وفات ہمارے سفر پر جانے سے چند ہفتے قبل ہو گئی تھی مگر جیک نے اس کے باوجود اس سفر پر جانے کے لیے ہاں کی تھی۔

جیک اس سے پہلے کبھی بھی جہاز میں سوار نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے نیو اورلیانز سے پنٹا ایرینس، (چلی) تک پہنچنے کے لیے تین مختلف پروازوں پر سفر کیا، جہاں سے ہم نے اپنے بحری سفر کا آغاز کیا۔

وہ کبھی بھی بحری جہاز پر سوار نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے کبھی پینگوئن نہیں دیکھیں تھیں۔ اور یہاں تک کہ انھوں نے نیو اورلینز سے آتے ہوئے کبھی بھی سنجیدگی سے سطح سمندر میں ہونے والے اضافے تک کے بارے میں نا سُنا اور نا ہی سوچا تھا۔

اُن کے لیے یہ تجربہ متعدد ایسے کاموں سے بھرا ہوا تھا کہ جن میں لفظ ’پہلی مرتبہ‘ متعدد بار شامل تھا۔

موسمیاتی تبدیلی کے مستقبل پر غور کرنا اُسی طرح سے اہم ہو سکتا ہے کہ جیسے ہر روز کھانے کی میز پر کھانا اہتمام سے رکھنا۔ لیکن جب جیک نے پہلی مرتبہ تھاویٹس کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئے اور کہا کہ ’اب میں اس معاملے کو سمجھا ہوں۔'

ہم نے بھی جب گلیشیئر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو لگا کہ ہم ’دی وال ان گیم آف تھرونز‘ پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ بہت بڑا تھا۔ ہمیں وہاں پہنچنے میں تین ہفتے لگے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ انسانوں سے اتنے ہی دور ہیں جتنا آپ ہو سکتے ہیں۔

اس بات کا تصور کرنا کہ ہمارے اب تک کے اقدامات برف کی اس دیوہیکل دیوار کو گرانے کا سبب بن رہے ہیں، یہ بات سوچتے ہی آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

زمین پر ہمیں کن جگہوں پر جانا چاہیے اور کن پر نہیں اس بارے میں ایک بحث جاری ہے۔ ایک جانب تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان دور دراز اور مشکل مقامات، یا نازک اور نفیس ماحولیاتی نظام کو تنہا چھوڑ دیا جائے۔ مگر دوسری جانب ایک اور نظریہ یہ ہے کہ ان کی نزاکت کو قریب سے نہ صرف دیکھا جائے بلکہ لوگوں کو ان کے بارے میں زیادہ گہرائی سے بتایا جائے اور پسِ پردہ حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔ آپ کے خیال میں کون سی جگہیں ہیں جہاں ہمیں نہیں جانا چاہیے؟

یہ ایک بہت اچھا سوال ہے، اور میں اس کا جواب واقعی ذاتی سطح سے ہی دے سکتی ہوں۔ جب ہم واپس بحرِ جنوبی کے اوپر سے گزرے رہے ہوں تو یہ خیال دل و دماغ میں ضرور آتا ہے کہ میں کبھی واپس (انٹارکٹیکا) کی جانب نہیں جاؤں گی۔

میں جانتی تھا کہ میں صرف ایک ہی مرتبہ انٹارکٹیکا جا پاؤں گی کیونکہ میرے واپس آنے اور اس مہم کے بارے میں کتاب لکھنے کے لیے پانچ سال تک کام کرنے کے تناظر میں یہ بات میں سمجھنے میں کامیاب ہوئی۔

میرے اس سفر کے پیچھے چند گہری باتیں تھیں اور ایک جذبہ تھا جس کے بغیر، میں یہ سب کرنا درست نہیں سمجھوں گی۔

پرسکون سیاحت کے تناظر میں، میں بڑے واضع الفاظ اور انداز میں یہ کہ سکتی ہوں کہ ہمیں انٹارکٹیکا جانا چاہیے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کروز جہازوں کو وہاں جانا چاہیے۔ اس مقام پر میں یہ کہوں گی کہ، ہم نے انٹارکٹیکا کا سفر کیا، ہم نے ایمیزون کو بھی دیکھا اور ایسی بھی بہت سی افسانوی، اور خوبصورت جگہوں کا ہمیں سوچنا چاہیے۔

عام طور پر میں یہ سوچتی ہوں، کہ ہاں، ہم نے اب تک جو کچھ دیکھا ہے ہمیں اس کے بارے میں زیادہ سوچنا چاہیے اور اس کی زیادہ پرواہ کرنی چاہیے۔ میں جتنی بھی بڑی ہو جاؤں، مجھ میں تجسس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

میں اپنے تین سالہ بچے کے ساتھ باہر گھوم سکتی ہوں اور اس چہل قدمی کے دوران اپنے پڑوس میں ایک خوبصورت سے ایکو سسٹم کو نا ثرف محسوس کر سکتی ہوں بلکہ وہاں اُڑتی خوبصورت تتلیوں کو جھاڑیوں میں جھومتے دیکھ بھی سکتی ہوں۔

میں سمجھتی ہوں کہ ہم ان جگہوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم انٹارکٹیکا یا ایمیزون کے ساتھ کرتے ہیں۔

انٹارکٹیکا کا سفر کرنے والے کو کیا کچھ معلوم ہونا چاہیے؟

دو سو سال قبل انٹارکٹیکا کو پہلی مرتبہ کسی نے دیکھا تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ جو اسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کو اپنے سہر میں مبتلا کر لیتی ہے۔ کرہ ارض پر اس جیسی کوئی اور جگہ نہیں ہے۔

ہر دوسری جگہ جہاں آپ جاتے ہیں وہاں ہزاروں سالوں پرانی مقامی کہانیاں آپ کی منتضر ہوتی ہیں۔ مگر یہ کرہ ارض پر وہ واحد جگہ ہے جہاں آپ کو ایسا کچھ نہیں ملے گا۔

مجھے لگتا ہے کہ یہ جگہ ایک خاص مقام اور توجہ مانگتی ہے کیوں کے یہ اپنے آپ میں ایک مقام رکھتی ہے۔

انٹارکٹیکا کے قریب جانا اور اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنا کرہ ارض کی تاریخ جاننے میں ایک اہم حیصیت رکھتا ہے۔

لہذا، اگر آپ وہاں جا رہے ہیں، تو میں چاہتی ہوں کہ آپ وہاں اس شعور اور آگاہی کے ساتھ جائیں کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ بہت غیر معمولی ہے اور انٹارکٹیکا ایک اہم اور پر وقار مقام ہے۔

اس بڑے گلیشئیر کو آہستہ آہستہ پگھلتے دیکھ کر آپ پر کیا اثر ہوا؟

جس دن ہم تھاویٹس گلیشئیر پر پہنچے، تو یہ واقعی ایک پرسکون مقام تھا، ہمارے بحری جہاز کے کپتان نے ہم سب کو گلیشیئر پر اُتار دیا۔

وہ ایک نہایت ہی شاندار دن تھا۔ پھر اس پرسکون ماحول نے پلٹہ کھایا اور ہم نے چھ دن تک مسلسل کام کیا اور بس پھر ہم اپنے کام میں مصروف ہو گئے، برف کے نیچے سمندر سے نمونے اکٹھے کیے جو زمین کے ماضی اور اُس وقت کی آبو ہوا کے بارے میں معلومات کی فراہمی کا ایک اہم ذرئعہ تھے۔

اسی دوران مزید تحقیق کے لیے ہم نے گلیشیر کے نیچے آبدوزیں بھیجنا شروع کیں اور اب یہ سب کام ایک معامول کا حصہ تھے، یہاں ہر روز، برف مختلف نظر آتی تھی۔

ساتویں دن، جب میں نیند سے بیدار ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے کہیں زیادہ آئس برگ یعنی گلیشئیر کے بہت زیادہ ٹوٹے ہوئے حصے تیر رہے تھے، لیکن میں نے شاید کوئی نئی یا عجیب محسوس نہیں کی۔

پھر، دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد، بورڈ پر موجود چیف سائنسدان سیٹلائٹ کی اُن دو تصاویر کو دیکھ رہے تھے جن میں سے ایک تھاویٹس جس میں برف کی ٹھوس چادر تھی، اور دوسری تصویر میں، ایسا لگتا تھا کہ اس مقام پر کوئی ایک بڑے ہتوڑے کے ساتھ نمودار ہوا اور اُ سے اس گلیشیئیر کے متعدد ٹُکڑے کر دیے۔

اسے 300 سے زیادہ آئس برگز میں توڑ دیا۔ ہم گلیشیر کے ایک ایسے علاقے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو شاید 15 میل چوڑا اور 10 میل گہرا ہو۔

پہلی تصویر اس دن لی گئی تھی جس دن ہم پہنچے تھے، اور دوسری تصویر اسی ساتویں صبح لی گئی تھی۔ چیف سائنسدان نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، ’اوہ میرے خدا، تھاویٹس تیزی سے تباہی کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔

یہ سب بالکل ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔‘ اس نے وہ معلومات کپتان کو بھیج دیں اور فیصلہ کیا گیا کہ مطالعہ کا علاقہ فوری طور پر چھوڑ دیا جائے۔

جو چیز میرے لیے بہت حیران کن تھی وہ یہ تھی کہ گلیشئیر کے ٹوٹنے کا یہ واقعہ میری آنکھوں کے سامنے ہو سکتا ہے اور مجھے شاید اس بات کا علم بھی نہیں ہوا ہو گا۔

زمین کے سب سے دور تک جانے سے انسانیت کے بارے میں آپ کا نظریہ کیسے بدل جاتا ہے؟

یہ کوئی اور ہی دُنیا تھی۔ میرے لیے یہ احساس ہی کافی ہے کہ ہمارا وجود ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ کسی دوسرے سیارے کو چھونے کے برابر ہے اور وہاں اس بات کی کھوج لگانا کہ وہاں انسان کا وجود ہوا کرتا تھا۔

میں تو اپنی اس زمین میں انسان کے موجود ہونے پر شکر گزار ہوں اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ، انٹارکٹیکا میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے ہم اس سے باخبر ہیں۔

اب لگ یو رہا ہے کہ ہم پوری دنیا میں عالمی سمندری پیٹرن کو تبدیل کر رہے ہیں۔ اور اس بات کا احساس آپ کو تب ہوتا ہے جب آپ انٹارکٹیکا کو دیکھتے ہیں۔

اپنے اس حالیہ منصوبے کے بعد آپ مستقبل کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟

میرے لیے بچہے کی پیدائش میرا ذاتی فیصلہ تھا۔ اور اب جب کہ میرا بچہ یہاں میرے ساتھ ہے تومجھے لگتا ہے کہ آگے آنے والی اس کی زندگی میں اُس کے لیے حالات اچھے نہیں ہونگے۔ اس سے میرا فیصلہ تو نہیں بدلتا، لیکن یہ سب میری زندگی پر بامعنی اور سنجیدہ اثر ڈالتا ہے۔

اس سے مجھے اپنے بچے کو ان چیزوں کو سکھانے میں بہت مدد ملے گی کہ آنے والے مشکل اور غیر معمولی حالات میں وہ کیسے زندگی گزار سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ کام کرنے اور اُن کے ساتھ دوستی اور شراکت داری سکھانا اور بھی اہم ہے۔ لہذا، جتنا میں سمجھتی ہوں کہ اسے ایک اچھا انسان ہر قسم کے حالات میں بہتر زندگی گُزارنےوالا ہو۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More