’ٹوائلٹ مین‘: انڈیا کا ’ٹوائلٹ پرابلم‘ حل کرنے والے بندیشور پاٹھک جن سے امریکہ نے بھی مدد مانگی

بی بی سی اردو  |  Aug 18, 2023

Getty Images

سُولابھ انٹرنیشنل کے بانی بندیشور پاٹھک گذشتہ منگل کو نیو دہلی کے ایمز ہسپتال میں وفات پا گئے تھے۔

ان کی وجہ شہرت ان کی جانب سے سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں بنایا گیا ایک سستا ٹوئن پٹ ٹوائلٹ تھا۔

یہ ایک ایسا ڈیزائن تھا جسے اس کے بعد انڈیا بھر میں لاکھوں گھروں میں صاف ستھرے بیت الخلا بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، جس سے لاکھوں خواتین کو صفائی کی محفوظ سہولیات تک رسائی میں مدد ملی۔

بندیشور پاٹھک نے 1970 کی دہائی میں سُولابھ انٹرنیشنل سوشل سروسز کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے ذریعے انھوں نے ملک بھر میں بس سٹینڈ، ریلوے سٹیشن اور دیگر عوامی مقامات پر بیت الخلا بنائے۔

آج یہ جال پورے ملک میں قابل رسائی بیت الخلا کے نام پر موجود ہے۔

ان کی جانب سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے تصور کو تبدیل کرنے اور ایک صاف ستھرے ٹوائلٹ کے تصور نے ایک ایسے ملک میں تیزی سے زور پکڑا جو ذات پات کی تفریق میں جکڑا ہوا تھا۔

اپنی زندگی کے دوران انھوں نے بہت سے ممتاز انڈین اور عالمی ایوارڈز جیتے۔ جیسے جیسے ان کی مقبولیت بڑھتی گئی، پریس نے انھیں ’مسٹر سینیٹیشن‘ اور ’دی ٹوائلٹ مین آف انڈیا‘ کا نام دیا۔

ایک رپورٹ میں واشنگٹن پوسٹ نے انھیں ایک ’منی انقلابی‘ کے طور پر بیان کیا اور انھیں 2015 میں اکانومسٹ گلوبل ڈائیورسٹی لسٹ میں شامل کیا گیا۔

بندیشور پاٹھک، جنھوں نے اکثر یہ کہا کہ ان کی ’زندگی کی ترجیح لوگوں کے لیے صفائی ستھرائی کے مسئلے کو حل کرنا ہے‘ اور یہ کہ ’مجھے یہ کام اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے زیادہ پسند ہے۔‘

ایک اونچی ذات کے برہمن خاندان میں پیدا ہونے والے پاٹھک کہتے تھے کہ بچپن میں بھی وہ اپنے استحقاق سے بخوبی واقف تھے اور ذات پات کے نظام کی حقیقتوں میں الجھے ہوئے تھے۔

ان کی موت پر انڈیا کے صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم نریندر مودی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

بھنگی مکتی لبریشن سیل سے شروعات

بندیشور پاٹھک نے سنہ 1968 میں کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ پھر بہار گاندھی صد سالہ تقریب کمیٹی میں ایک کارکن کے طور پر شامل ہوئے۔

یہاں انھوں نے بھنگی مکتی سیل میں کام کرنا شروع کیا۔ یہیں سے انھیں پبلک ٹوائلٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے سنہ 1970 میں سُولابھ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی۔

اس کے تحت انھوں نے کم قیمت پر پبلک ٹوائلٹ بنانے کی پہل کی۔

انھوں نے سنہ 1970 میں سُولابھ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ انھوں نے کھلی جگہ پر رفع حاجت کے عمل اور غیر صحت مند عوامی بیت الخلا کو صاف ستھرے بیت الخلا سے تبدیل کرنے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا۔

ان کی تنظیم کو ملک بھر میں عوامی مقامات پر قابل رسائی بیت الخلا بنانے کا سہرا جاتا ہے۔ یہ کم قیمت بیت الخلا ماحول دوست تصور کیے جاتے ہیں۔

سُولابھ ماڈل پر بنائے گئے بیت الخلا کو عوامی بیت الخلا کی تعمیر کے میدان میں ایک انقلاب سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے سب سے پہلے سنہ 1968 میں ڈسپوزل کمپوسٹ ٹوائلٹ ایجاد کیا جو کہ گھر کے ارد گرد پائے جانے والے مواد سے کم قیمت پر بنایا جا سکتا ہے۔

اسے دنیا کی بہترین تکنیکوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں سُولابھ انٹرنیشنل کی مدد سے انھوں نے ملک بھر میں سُولابھ بیت الخلا بنانے کے سلسلے کا آغاز کیا۔

ان کی تنظیم انسانی حقوق، ماحولیات، صفائی ستھرائی، غیر روایتی توانائی کے ذرائع کی ترقی اور انتظام اور فضلہ کے انتظام کے ساتھ سماجی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے۔

امریکی فوج کی مدد کی درخواست

سنہ 2011 میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں بیت الخلا فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سُولابھ انٹرنیشنل نے افغانستان میں امریکی فوج کے لیے ایک خاص قسم کا بیت الخلا بنانے کا منصوبہ بنایا۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے عوامی سہولیات کے شعبے میں کام کرنے والی یہ تنظیم اس سے قبل کابل میں بیت الخلا فراہم کرتی تھی۔

لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ خود امریکی فوج نے ان سے اس کے لیے درخواست کی تھی۔ امریکی فوج نے ’بائیو گیس‘ کے خصوصی طریقہ سے چلنے والے ٹوائلٹ کا مطالبہ کیا تھا۔

فوج چاہتی تھی کہ کابل میں ہر جگہ ایسے مؤثر اور سستے بیت الخلا بنائے جائیں۔

’پہلے بیت الخلا بنائیں پھر سمارٹ سٹی‘

انڈیا میں بیت الخلا کا انقلاب لانے والے بندیشور پاٹھک نے سال 2014 میں سمارٹ سٹی سکیم پر بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں کہا تھا کہ حکومت پہلے بیت الخلا بنائے اور پھر پیسہ ہو تو۔۔۔ سمارٹ سٹی۔

انھوں نے کہا کہ ’ایسے شہر میں کون نہیں رہنا چاہے گا جہاں تمام سہولیات موجود ہوں، سمارٹ سٹی پلان بہت اچھا ہے، شہروں کو خوبصورت بننا چاہیے، صاف ستھرے، تمام سہولیات سے آراستہ ماحول دوست شہر بنانے چاہیے۔ اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ لیکن اگر آپ اس کا دوسرا رخ دیکھیں تو ہمارے ملک کے کروڑوں گھروں میں پکے بیت الخلا تک نہیں ہیں، میں کہوں گا کہ پہلے تمام گھروں میں بیت الخلا بنائے جائیں اور پھر اگر پیسہ بچ جائے تو سمارٹ سٹی بنائے جائیں۔ شہروں کی ترقی تو اچھی بات ہے لیکن دیہات پر بھی برابر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور انھیں بھی صاف ستھرا بنایا جانا چاہیے۔

ان کے مطابق ’اگر ہم سمارٹ سٹی کی بات کریں تو اس کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں، نقصان یہ ہے کہ جتنا شہر ترقی کرے گا، اتنے ہی درخت کاٹے جائیں گے، 24 گھنٹے بجلی کے لیے نیوکلیئر انرجی کا سہارا لینا پڑے گا، جس کا اپنا خطرات لیکن یہ بھی اچھی بات ہے کہ خوبصورت شہر کون پسند نہیں کرے گا لیکن اس کے اثرات سے بھی منھ نہیں موڑ سکتا۔‘

وہ کہتے تھے کہ ’اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ نئی تعمیرات کے دوران درخت نہ کاٹے جائیں، تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رہے۔ لیکن بڑی تصویر یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں پہلے سے ہی سمارٹ شہر موجود ہیں، اس لیے اگر اسے انڈیا میں بنایا جاتا ہے، تو یہ ایک اچھا اقدام کہا جائے گا۔‘

افغانستان میں مدد

سُولابھ انٹرنیشنل نے اس وقت تک کابل میونسپلٹی کے لیے کئی بیت الخلا بنائے تھے۔

اس وقت سُولابھ کے سربراہ ڈاکٹر بندیشور پاٹھک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری تنظیم نے کچھ سال قبل کابل میونسپلٹی کے تعاون سے وہاں کچھ بیت الخلا بنائے تھے، لیکن اس بار امریکی فوج نے ہم سے تعاون کا کہا ہے اور ہماری تنظیم ان کی مکمل حمایت کرے گی۔‘

ڈاکٹر پاٹھک نے کہا تھا کہ یہ ان کی تنظیم کے لیے فخر کی بات ہے کہ اب دوسرے ممالک بھی ان کی تنظیم کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اس وقت ’سُولابھ انٹرنیشنل‘ نے انڈیا کے علاوہ جنوبی افریقہ، چین، بھوٹان، نیپال اور ایتھوپیا سمیت دس دیگر ممالک کو ٹوائلٹ سے متعلق ٹیکنالوجی فراہم کی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More