گدی نشین کی حویلی پر کام کرنے والی کمسن ملازمہ کی ہلاکت: ’میں نے ویڈیو دیکھی ہے میری بیٹی تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئی‘

بی بی سی اردو  |  Aug 17, 2023

Getty Images

صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں پیری مریدی کے کام سے وابستہ ایک خاندان میں کام کرنے والی کمسن گھریلو ملازمہ کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کے کیس میں پولیس نے اس واقعے میں نامزد مرکزی ملزم، علاقہ ایس ایچ او اور بچی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔

ایس ایچ او رانی پور کو فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کی گرفتاری بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچی کی ہلاکت کی اصل وجوہات جاننے کے لیے آج (جمعرات) سیشنز عدالت میں قبر کشائی اور میت کا پوسٹ مارٹم کرنے کی درخواست بھی دی جائے گی۔

10 سالہ بچی سندھ کے علاقے رانی پور میں ایک پیر گھرانے کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کرتی تھیں تاہم دو روز قبل اس کے والدین کو بذریعہ فون آگاہ کیا گیا تھا کہ پیٹ میں درد کے باعث ان کی بچی کی ہلاکت ہو گئی ہے۔

ضلع نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے بچی کے والدین نے میت وصول کرنے کے بعد گاؤں میں گذشتہ روز اس کی تدفین کر دی تھی۔

تاہم تدفین سے قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں 10 سالہ بچی کے جسم اور سر پر تشدد اور زخموں کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔ بی بی سی آزادانہ ذرائع سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا ہے تاہم پولیس حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ملزم پیر کی حویلی میں نصب کیمروں کا مکمل ریکارڈ حاصل کر لیا ہے جس کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

اس ابتدائی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد ایک سی سی ٹی وی فوٹج بھی شیئر ہوئی جس میں نظر آتا ہے کہ ایک بچی زمین پر پڑی تکلیف میں کراہ رہی ہے اور اسی دوران ایک خاتون اور ان کے پیچھے آتی ہوئی ایک بچی کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔

کمرے میں داخل ہونے والی خاتون کے انتباہ پر اُسی کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا شخص جلدی سے اٹھتا ہے اور بچی کی سانسیں چیک کرتا ہے۔

اس نوعیت کی مزید ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ایس ایس پی خیرپور گذشتہ روز متاثرہ خاندان کے گھر پہنچے اور بچی کی والدہ سے ملاقات کی۔ پولیس کے مطابق بچی کی والدہ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ ایف آئی آر درج کرائیں تاکہ اس معاملے کی تفتیش ہو سکے اور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔

ایف آئی آر میں کیا کہا گیا؟Getty Images

پولیس کی جانب سے یقین دہانی کے بعد اس واقعے کا مقدمہ بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والی بچی گذشتہ نو ماہ سے ملزم کی حویلی پر کام کرتی تھی۔ والدہ کے مطابق کچھ عرصہ قبل جب وہ اپنی بچی سے ملنے حویلی گئے تھے تو بچی نے بتایا تھا کہ پیر (ملزم) اور ان کی اہلیہ اس سے بہت زیادہ کام کاج کرواتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔

والدہ کے مطابق انھوں نے بچی کی شکایت سُن کر پیر کی اہلیہ سے ملاقات بھی کی اور ان سے ’رحم کی گذارش‘ کی جس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ گھر واپس آ گئیں۔

مدعی مقدمہ کے مطابق 14 اگست کی دوپہر انھیں حویلی سے ایک شخص کی کال موصول ہوئی کہ اُن کی بیٹی طبعیت میں خرابی کے باعث فوت ہو گئی ہے اور اس کی لاش لے جائیں۔ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے ملزم پیر سے بچی کی ہلاکت سے متعلق استفسار کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔

والدہ کے مطابق وہ اپنی بچی کی میت کو گاؤں لے آئے اور اس کی تدفین کر دی۔

’بچی کے اعضا پر سوجن تھی‘

ایس ایس پی کی موجودگی میں بچی کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی بچی کے معاملے پر اس لیے خاموش رہیں کیونکہ اُن کے گاؤں کی تین دیگر لڑکیاں بھی وہاں (پیر کی حویلی) پر قید تھیں اور انھوں نے سوچا تھا جب ان کی بخیریت واپسی ہو جائے گی تب وہ بات کریں گی۔

والدہ نے دعویٰ کیا کہ بچی کی پیٹھ، گردن اور پسلیوں پر تشدد کے نشانات موجود تھے اور انھیں شبہ ہے کہ اس کا بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے جس میں میری بیٹی تڑپ تڑپ کی ہلاک ہوئی ہے۔ جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ بلکل سچی ہے۔ ہمیں ویڈیوز کے ٹکڑے دیے گئے ہیں۔ اُن کے پاس 24گھنٹوں کی ویڈیو موجود ہو گی، اس کو دیکھا جائے اور ہم سے انصاف کیا جائے۔‘

بچی کے والد گزر بسر کے لیے معمولی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

فاطمہ کو غسل دینے والی خاتون نے اس موقع پر مقامی صحافیوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ ’بچی کے اعضا پر سوجن تھی۔‘

’ہم جو کھاتے ہیں وہ ہی ان کو بھی کھلاتے ہیں‘Getty Imagesفائل فوٹو

یاد رہے کہ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد مرکزی ملزم نے اپنی گرفتاری سے قبل کی گئی ایک پریس کانفرنس میں تشدد کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 12اگست کو بچی کی طبعیت خراب ہوئی جس پر ان کے فیملی ڈاکٹر نے بچی کے لیے ادویات اور ڈرپس تجویز کیں جو بچی کو دی گئیں مگردوا کے چھسے سات گھنٹے کے بعد دوبارہ اس کی طبعیت خراب ہو گئی۔

ملزم نے پریس کانفرنس میں مزید دعویٰ کیا کہ 13 اگست کو انھوں نے دوبارہ ڈاکٹر کو کہا کہ بچی ٹھیک نہیں ہو رہی ہے چنانچہ کوئی اور دوا تجویز کریں۔

’ہم بچی کے والدین کو اور بچی کے والدین ہمیں جانتے ہیں۔ ہم نے ہی انھیں سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے ورنہ میرے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی کسی اور کی تو نہیں بلکہ میری ہوگی نا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات کی ویڈیوز ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جو انسان مرتا ہے اس پر تو ڈرپس کا نشان بھی بڑا ہو جاتا ہے۔

ان کے کمرے میں بچی کے سونے کے بارے میں سوال کے جواب میں ملزم کا کہنا تھا ’مریدین ہمارے بچے ہیں۔ ہمیں ان کا احساس ہوتا ہے، لہذا وہ بھی اے سی میں سوئی۔ ہم جو کھاتے ہیں وہ ہی ان کو بھی کھلاتے ہیں۔‘

گرفتار ملزم نے پریس کانفرنس میں مزید دعویٰ کیا کہ بچی ہیپاٹائٹس (یرقان) کے مرض میں مبتلا تھی۔

ایس ایس پی راہب کھوسہ کا کہنا ہے کہ جس ڈاکٹر نے بچی کا علاج کیا تھا اسے بھی تفتیش کی غرض سے گرفتار کیا گیا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق ’ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ بچی کو گیسٹرو اینٹائٹس تھی، مگر جب ڈاکٹر سے پوچھا کہ نسخے کہاں ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ بچی والدین کے پاس ہیں۔‘

ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ بچی کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کروائیں تاکہ حقائق معلوم ہو سکیں۔

انھوں نے کہا کہ پولیس اس حویلی میں کام کرنے والوں کو بھی شامل تفتیش کر رہی ہے جبکہ سی سی ٹی وی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب وویمن ایکشن فورم حیدرآباد نے بغیر پوسٹ مارٹم بچی کیتدفین پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود اس کی خلاف ورزیاں کیجا رہی ہیں اور اس سے متعلقہ اتھارٹی غیر موثر نظر آتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More