گجرات پر 53 برس حکمرانی کرنے والے ’زہریلے‘ سلطان جو زہرخورانی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ’زہر کھاتے‘ تھے

بی بی سی اردو  |  Aug 16, 2023

’وہ ہر روز زہر کھاتے تھے۔۔۔‘ ایک اطالوی سیاح نے یہ بات مغربی ہندوستان کی ریاست گجرات پر 53 برس حکمرانی کرنے والے سلطان محمود شاہ اول بیگڑا کے بارے میں کی تھی۔

مظفری سلطنت کے آٹھویں سلطان نے سنہ 1458 سے 1511 تک گجرات پر حکومت کی۔

یہ سلطنت سنہ 1572 میں مغلوں کی گجرات پر فتح سے قبل تقریباً 200 سال قائم رہی۔ اس سلطنت کی بنیاد سنہ 1407 میں ان کے جدِ امجد سلطان ظفر خان مظفر نے رکھی تھی۔

مگر مصنف سدپتا مسرا کے مطابق گجرات کو عروج سلطان محمود شاہ اول ہی کے دور میں ملا جب یہ سلطنت مشرق میں مالوا اور مغرب میں خلیج کَچھ کے علاقوں تک پھیل گئی۔

سلطان محمود شاہ اول کا اصل نام فتح خان تھا جس کے والد والد محمد شاہ دوم گجرات کے حکمران تھے۔ والدہ، بی بی مغلی، سندھ کے سما حکمران جام جونا کی بیٹی تھیں۔

نہ جانے یہ فیصلہ فتح خان کے والد کا تھا یا والدہ کا کہ زہرکے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے کے لیے سلطان محمود کو بچپن ہی سے زہر کھلایا جانے لگا۔

اسی لیے اطالوی سیاح اور مہم جو لوڈوویکو ڈی ورتھیما نے لکھا: ’میرے ساتھی نے پوچھا کہ یہ سلطان اس طرح زہر کیسے کھاتے ہیں؟ بعض تاجروں نے جواب دیا کہ ان کے والد نے انھیں بچپن سے زہر کھلایا تھا۔‘

پرتگالی لکھاری دوارتے باربوسا کے مطابق ’وہ زہر کی چھوٹی چھوٹی خوراک لیتے تاکہ اگر کوئی دشمن انھیں زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کرے تو انھیں نقصان نہ پہنچے۔‘

مؤرخ منو پِلے کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے لڑکپن میں محمود کو تحفظ کی ضرورت تھی۔

جیمز کیمبل اور ایس کے ڈیسائی کے مطابق محمد شاہ دوم کی جلد موت کے بعد، ان کے بیٹے اور فتح خان کے سوتیلے بھائیقطب الدین احمد شاہ دوم نے حکومت سنبھالی۔

’قطب الدین کے فتح خان کے خلاف عزائم سے ڈرتے ہوئے بی بی مغلی نے اپنے بیٹے سمیت اپنی بہن بی بی مرکی کے ہاں پناہ لے لی اور اپنی بہن کی موت پر ان کے شوہر شاہ عالم سے شادی کر لی۔‘

قطب الدین کی سات سالہ حکومت ان کی موت پر ختم ہوئی تو ان کے چچا داؤد خان نے باگ ڈور سنبھالی۔ مگر چند ہی دنوں میں امرا نے انھیں نااہل کر تے ہوئے حکمرانی 13 سالہ فتح خان کو سونپ دی۔

وہ ابوالفتح ناصرالدین محمود شاہ اول کے نام سے سنہ 1458 میں سلطان بنے۔ خود کو سلطان البر، سلطان البحر کا خطاب دیا۔

پِلے لکھتے ہیں کہ محمود نے اپنے دورِ حکومت کا آغاز اپنے سوتیلے بھائی کی بیوہ (روپ مانجھری یاروپ متی جن کے نام کی مسجد احمدآباد میں ہے) سے شادی اور شروع ہی میں تختہ الٹنے کی سازش کا پتا چلنے پر پھانسیوں اور خون ریزی سے کیا۔

انھیں بیگڑا پکارے جانےکے پیچھے برڈ کی تاریخِ گجرات اورمراۃِ احمدی کے مطابق دو وجوہات ہیں۔

'ایک یہ کہ ان کی مونچھیں بیل کے سینگوں کی طرح تھیں اور ایسے بیل کو بیگڑو کہا جاتا تھا۔‘

'دوسری یہ کہ انھوں نے دو قلعے فتح کیے تھے، 1472 میں گِرنار کا جونا گڑھ اور دس سال بعد چمپانیر کا پاوا گڑھ۔ گجراتی زبان میں دو کے لیے ’بے‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور قلعے کے لیے گڑھ۔یوں دو قلعوں پر قبضے سے وہ ’بے گڑھا‘ مشہور ہوئے جو کثرت استعمال سے 'بیگڑا' بن گیا۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ بہادری، مذہبی جذبے، انصاف اور دانش مندانہ اقدامات سے محمود نے گجرات کے بادشاہوں میں اعلیٰ مقامپایا۔

کیمبل کے مطابق مراۃِ سکندری میں اراضی کی ملکیت کا تسلسل ایک اہم اقدام تھا۔ مالک کے بعد بیٹے کو یا اس کے نہ ہونے پر بیٹی کو آدھی ملکیت مل جاتی۔ زمیندار کو بے دخل نہ کرنے کی ٹھوس پالیسی سے محصول میں دو، تین اور بعض صورتوں میں دس گنا اضافہ ہوا۔

’سفر اور تجارت محفوظ تھے۔ فوجیوں کے لیے سود پر قرض لینا منع تھا۔ ضرورت مند فوجیوں کو ان کی ضرورت کے مطابق رقم دے دی جاتی جو ان کی تنخواہ سے مقررہ قسطوں میں وصول کی جاتی۔ محمود نے پھل دار درختوں کی ثقافت پر بھی بہت زیادہ توجہ دی۔‘

کیمبل لکھتے ہیں کہ محمود کے دور حکومت میں کچھ تاجر عراق اور خراسان سے گھوڑے اور دیگر سامان فروخت کے لیے لا رہے تھے کہ انھیں سِروہی کی حدود میں لوٹ لیا گیا۔ بادشاہ نے ان سے ان کے گھوڑوں اور سامان کی قیمت تحریری طور پرمانگی، اپنے خزانے سے رقم ادا کی اور سِروہی کے راجا سے یہ رقم وصول کی۔

مراۃِ سکندری، جس کا حوالہ علی محمد خان نے نقل کیا ہے کے مطابق ’سلطان محمود گجرات کے تمام بادشاہوں میں سب سے بہتر تھے، اپنے عدل و احسان، تمامشرعی قوانین کی تعظیم اور ان کی پابندی کی وجہ سے۔

پِلے کے مطابق اپنے دور کے سب سے کامیاب بادشاہوں کی طرح، محمود بھی ایک فاتح اور ایک مؤثر حکمران تھے تاہم واضح مذہبی جوش کے ساتھ۔

'مثال کے طور پر، سندھ میں، مقامی سرداروں کے ہتھیار ڈالنے کو قبول کرنے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ ان کا اسلام اب بھی ہندو ثقافتی عمل میں بہت گہری جڑیں ہوتی ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے کچھ کو تربیت کے لیے بھیج دیا۔‘

Getty Imagesیہ تصاویر پاواگدھ چمپانیر ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کی ہیں۔ قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر کو محمود شاہ کے پاواگدھ پر حملے کے دوران نقصان پہنچا تھا۔

سندھ ہی میں ان کے دور میں سنگِ مرمر سے بنائی گئی ایک چھوٹی مگر خوبصورت مسجد شہر نگر پارکر کے شمال مغرب میں کوئی پانچ کلومیٹر دور موجود ہے۔

چھت کے لیے سرخ پتھر اِن ہی کارونجھر پہاڑیوں سے ملے جِن کے دامن میں بھوڈیسرکے علاقے میں کھڑی یہ مسجد پانچ صدیوں سے چمکتی ہے۔ تیس فٹ لمبائی اور چوڑائی والی اس مسجد کے انداز تعمیر میں جین اثرات واضح ہیں۔

عبدالغنی بجیر کی تحقیق ہے کہ امن کی بحالی کے لیے تب وہ تیسری دفعہ 1505 میں بھوڈیسر پر حملہ آور ہوئے تھے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ سلطان نے یہاں اپنی فوج کے مسلمان سپاہیوں کو آباد کر کے بھوڈیسر مسجد تعمیر کرائی جو اسی مقام پر واقع ہے جہاں ان سے بہت پہلے کے سلطان، محمود غزنوی نے یادگار تعمیر کرائی تھی۔ یہیں ان کے سپاہیوں کی قبریں بھی ہیں۔

محمود نے دوارکا کو اس لیے تباہ کر دیا کہ وہاں عازمین حج کو لوٹنے والے بحری قزاقوں کو پناہ دی جاتی تھی۔ انھوں نے پرتگالیوں کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی جو ناکامرہی۔

محمودنے کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن فن اور ادب کی سرپرستی کی۔

ان کے دور حکومت میں کئی کاموں کا عربی سے فارسی میں ترجمہ ہوا۔ درباری شاعر اُدیراجا تھے جنھوں نے سنسکرت میں تالیف کی۔

Getty Imagesیہ مزار ’مبارک سعید‘ ہے جسے روجا روجی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انڈیا کے شہر احمد آباد سے 35 کلومیٹر کی مسافت پر ہے اور یہ 15ویں صدی میں سلطان محمود شاہ نے بنایا تھا جس کی آج انڈیا کے محکمہ آثارِ قدیمہ کی جانب سے دیکھ بھال کی جا رہی ہے

اطالوی سیاح ورتھیما محمود کے بارے میں لکھتے ہیں: ’سلطان کے صبح اٹھنے پر پچاس ہاتھی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ جب وہ کھانا کھاتے ہیں تو پچاس یا ساٹھ قسم کے باجے بجتے ہیں۔‘

’ان کی مونچھیں اتنی لمبی ہیں کہ وہ انھیں اپنے سر پر اس طرح باندھتے ہیں جیسے عورتیں اپنےسر کے بال باندھتی ہیں۔ ان کی سفید داڑھی ہے جو ان کی ناف تک پہنچتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ہر روز زہر کھاتے ہیں۔ تاہم، یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ وہ ایک خاص مقدار میں کھاتے ہیں۔‘

’کسی کی جان لینا چاہتے ہیں تو اسے برہنہ حالت میں اپنے سامنے لاتے ہیں اور پھر کچھ پھل اور جڑی بوٹیاں کھاتے ہیں۔ جب چباتے چباتے ان کا منھ بھر جاتا ہے تو وہ اس سب کو اس شخص پر پھینک دیتے ہیں جسے وہ مارنا چاہتے ہیں۔ اس طرح آدھ گھنٹے میں وہ مردہ ہو کر زمین پر گر جاتا ہے۔‘

ورتھیما کہتے ہیں کہ ’سلطان کے پاس تین، چار ہزار عورتیں ہیں اور جس کے ساتھ وہ سوتے ہیں صبح مردہ پائی جاتی ہے۔ اور اسی طرح وہ ہر روز نئے کپڑے چنتے ہیں۔ استعمال شدہ جلائے جاتے ہیں۔‘

باربوسا لکھتے ہیں کہ وہ اتنے زہریلے ہو گئے تھے کہ اگر ان کے ہاتھ پر مکھی لگتی ہے تو وہ مر جاتی ہے اور بہت سی وہ عورتیں جن کے ساتھ وہ سوتے تھے اسی وجہ سے مر جاتیں۔

’تاہم انھوںنے ایک ایسی انگوٹھی رکھی ہوئی ہے کہ جسے ان کے ساتھ لیٹنے والی عورت لیٹنے سے پہلے منھ میں رکھے تو اس پر اس زہر کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔‘

چونکہ مقامی مؤرخین عورتوں کے یوں مرنے کا ذکر نہیں کرتے، اس لیے شاید مورخ منو پلے کہتے ہیں کہ مبالغہ آرائی کو ایک جانب کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کیمبل لکھتے ہیں کہ خلیل خان کے علاوہ، جو ان کے جانشین ہوئے، محمود کے تین بیٹے تھے: محمد کالا، اپا خان، اور احمد خان۔

'کالا اپنے والد کی زندگی ہی میںوفات پا گئے۔ دوسرے بیٹے اپا خان ایک امیر کے حرم میں جاتے پکڑے گئے اور سلطان نے انھیں زہر دینے کا حکم دے دیا۔ تیسرے بیٹے احمد خان کو خداوند خان نے سلطان محمود کی زندگی کے دوران میں تخت پر بٹھانے کی کوشش کی۔'

Getty Images

یہ سب لڑکے روپ متی سے تھے۔ تو یہ اولاد بھی کسی طور اس دنیا میں آئی ہی ہو گی، زہر سے بچتے ہوئے۔

ان تفصیلات میں اختلاف کو ایک جانب رکھیں تو محمود بیگڑا کے بہت زیادہ کھانے پر سب کا اتفاق نظر آتا ہے۔

ناشتے میں ایک کپ شہد اور پگھلا ہوا مکھن اور ایک سو پچاس اعلیٰ معیار کے کیلے۔

باربوسا اور ورتھیما کا کہنا ہے کہ سلطان کی روزانہ کی خوراک لگ بھگ 35 سے 37 کلوگرام تک ہوتی تھی جو گجرات میں ایک من کے برابر ہوتا ہے۔

اگر کبھی سلطان کا پیٹ نہ بھرتا تو وہ پانچ کلو کے قریب خشک چاول سے بنا میٹھا کھاتے۔

ستیش چندر کہتے ہیں کہ ’محمود دن میں بہت کھانا کھاتےتھے۔ پھر بھی رات کو ان کے پلنگ کے دونوں طرف سموسے رکھے ہوتے تاکہ بھوک لگنے کی صورت میں وہ انھیں کھا سکیں۔‘

اتنا سب کچھ کھانے کے باوجود سب مورخ گواہی دیتے ہیں کہ محمود بیگڑا کسرتی جسم کے مالک تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More