Getty Images
اس کائنات میں بہت کچھ ہے اور یہاں بہت سی مخلوقات ہیں لیکن ان سب کی متوقع عمر میں بہت فرق ہے۔
مثال کے طور پر سبز پتوں پر پائے جانے والے پتنگے کی صرف 24 گھنٹوں کی عمر ہے جبکہ ٹیوریٹوپسس ڈورھنی نامی جیلی فش کی قسم نے شاید آب حیات پی رکھا ہے کیونکہ وہ لافانی ہے۔
اس چھوٹی سے شفاف دکھائی دینے والی جیلی فش کے پاس ایک غیر یقینی خصوصیت موجود ہے۔ یہ کسی بھی قسم کی ضرب پہنچنے، بھوکے رہنے یا دباؤ کے وقت میں خود کو جوانی کی عمر میں تبدیل کر سکتی ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس جیلی فش کو وہ آب حیات مل گیا ہے جس کا انسانوں نے صرف سن رکھا ہے۔
فلسفی مونٹائین نے کہا تھا کہ ’موت ہر وقت ہمیں تھامے رکھتی ہے اور اور آخر کار ہمارا گلا گھونٹ دیتی ہے لیکن ہم خواب دیکھنا بند نہیں کرتے۔‘
درحقیقت موت کے بارے میں ہمارے پاس سب سے قدیم ’گلگامیش کی نظم‘ ہے۔ میسوپوٹیمیا میں چار ہزار سال قبل مٹی کی تختیوں پر کندی ہوئی یہ نظم اس دور کے بادشاہ گلگامیش کے موت پر قابو پانے کے راستے کی تلاش میں کیے گئے سفر کے بارے میں بتاتی ہے۔
اس نظم میں انھوں نے زندگی کے معنی کو کچھ یوں بیان کیا:
’انسان پیدا ہوتا ہے، جیتا ہے اور مر جاتا ہے
یہ وہ چکر ہے جس کا خدا نے حکم دیا ہے
لیکن موت سے قبل، اپنی زندگی کا لطف لو
اس میں خوشیاں تلاش کرو اور مایوس نہ ہو‘
آج بھی اس جدید دنیا کے تحقیقی مراکز میں کچھ ایسے سائنسدان موجود ہیں، جن کا مقصد بھی بادشاہ گلگامیش سے ملتا جلتا ہے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی آج بھی عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر انسانوں کی اوسط عمر 74.3 برس ہی ہے۔
اگرچہ اس میں کچھ اضافہ ہوا اور اس بارے میں انسان کی زندگی اور موت سے متعلق ایک نظریہ یا قانون ہے جسے دو صدیاں قبل پیش کیا گیا تھا اور آج بھی یہ نافذ ہے یا اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
وہ جو اٹل ہے
حیران کن بات یہ ہے کہ انسانوں کی متوقع عمر کے بارے میں یہ قانون کسی ایسی سائنس سے نہیں آیا جو لافانی یا کم از کم زندگی کو طول دینے کی کوشش کرتا تھا بلکہ یہ علم کے ایک اور شعبے سے ہے جو طویل عمر کے موضوع میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ اسے ’ایکچوریل سائنس‘ کہتے ہیں۔
یہ علم کی وہ شاخ ہے جو بنیادی طور پر انشورنس اور مالیاتی صنعتوں میں ممکنہ خطرے یا نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے شماریاتی اور ریاضیاتی ماڈلز بناتی ہے۔
یعنی یہ وہ سائنس ہے جس کا مقصد سالانہ فروخت اور خرید کے لیے مناسب نرخوں کا حساب لگانے کو زیادہ قابل اعتماد بنانا ہے۔
اور جس شخص نے سائنس کی اس نئی شاخ کو متعارف کروایا تھا وہ 19ویں صدی کے ایک ریاضی دان بنجامن گومپرٹز تھے جو دراصل ایک انشورنس ایکچوری تھے۔ سنہ 1852 میں انھوں نے لندن میں رائل سوسائٹی کے سامنے انسانی زندگی اور اٹل موت سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا۔
یہ ریاضی اور حساب پر مبنی ایک ایسا ماڈل تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہماری عمر کے بڑھنے کے ساتھ موت کا خطرہ تیزی سے بڑھتا ہے اور اب اسے ’گومپرٹز لا آف مورٹیلیٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بظاہر یہ عام بات لگتی ہے اور درحقیقت کچھ ایسا ہی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کے خلیے بڑھنا کم ہو جاتے ہیں اور ان پر جسم کی ضرورت پوری کرنے کا بوجھ پڑتا ہے جس سے یہ خراب ہو جاتے ہیں اور ہمارا جسم مزید ہمارا ساتھ نہیں دے سکتا۔
گومپرٹز نے اموات کی شرح سے متعلق رپورٹوں کا تجزیہ کیا تھا اور ان میں ایک رحجان کا پتا لگایا تھا۔
ایک اسرار
یہ قانون بنیادی طور پر اس امکان کے حساب کتاب کا نام ہے جس میں ہم ممکنہ طور پر مر جائیں گے۔
جیسا کہ اگر آپ سے یہ غیر متوقع سوال پوچھا جائے کہ آپ کے خیال میں اگلے سال آپ کے مرنے کے امکانات کیا ہیں تو آپ کیا جواب دیں گے؟
1000 میں سے ایک فیصد یا شاید دس لاکھ میں سے ایک؟
آپ کا اس بارے میں جو بھی امکان ہو گا وہ اس ماڈل کے حساب سے ہر آٹھ سال بعد دوگنا ہو جائے گا۔
Getty Images
مثال کے طور پر اگر آپ 25 سال کے ہیں تو اگلے سال آپ کے مرنے کا امکان بہت کم ہے: 0.03 فیصد یعنی تقریباً 3000 میں سے ایک فیصد۔
33 برس کی عمر میں یہ امکان تقریباً 1500 میں سے ایک فیصد اور 42 برس کی عمر میں یہ امکان 750 میں سے ایک فیصد ہو جائے گا۔
اور جب تک آپ 100 سال کی عمر کو پہنچیں گے تو آپ کا 101 کی عمر تک جینے کا امکان 50 فیصد تک رہ گیا ہو گا۔
جب سے گومپرٹز نے اپنا یہ قانون تجویز کیا، اموات کے اعداد و شمار نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان کا یہ تجویز کردہ ماڈل بہت سارے ممالک، وقت کے ادوار اور یہاں تک کہ جانوروں کی مختلف انواع پر بھی تقریباً بالکل درست ثابت ہوتا ہے جبکہ اصل اوسط متوقع عمر میں تبدیلی آتی ہے تو یہ ہی اصول اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے۔
یہ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پراسرار بھی ہے کیونکہ اس بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا کیوں ہے مگر اس معاملے میں دو ’لیکن‘ ہیں۔
کچھ عجیب اور غریب
پہلا ’لیکن‘ یہ ہے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہو گا ہم جس ماڈل کے بارے میں بات کر رہے ہیں اسے گومپرٹز میکھم قانون کہا جاتا ہے، لہذا ہم کچھ بھول رہے ہیں۔
اور وہ یہ ہے کہ سنہ 1860 میں ایک اور برطانوی ایکچوری ولیم میکھم نے اس میں کچھ مزید تحقیق شامل کی تھی۔
انھوں نے تجویز کیا تھا کہ گومپرٹز ماڈل کو عمر اور اس کے کلیہ نمائی کے حساب سے آزاد کر کے بہتر کیا جا سکتا ہے۔
گومپرٹز ماڈل ایسی جگہوں پر بہت اچھا کام کرتا ہے جہاں موت کی بیرونی وجوہات بہت کم ہوتی ہیں، جیسے لیبارٹری یا کم شرح اموات والے ممالک۔
تاہم، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ہی جوان یا بوڑھے ہیں، موت کی دیگر وجوہات، جیسے حادثات، غذائی قلت، بیماری وغیرہ بھی ہو سکتی ہیں۔
گومپرٹز نے پہلے ہی اس کی نشاندہی کر دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ ممکن ہے کہ موت دو ایک ساتھ ہونے والی وجوہات کی وجہ سے ہو۔‘
لیکن یہ میکھم ہی تھے جنھوں نے اس جزو کو ریاضی کے فارمولے میں شامل کیا، جو ماڈل میں ایک زیادہ متغیر عنصر ہے جسے سماجی و اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی خطرات کو کم کرکے کم کیا جا سکتا ہے۔
سائنس، ادویات اور حفظان صحت کے اصولوں نے تمام ممالک میں شرح اموات کو کم کیا ہے۔
اس طرح، انشورنس پالیسیوں کو فروخت کرنے کے لیے بنایا گیا یہ قانون ڈیموگرافروں اور سماجیات کے ماہرین کے ساتھ ساتھ ماہرین حیاتیات اور بائیوجیرینٹالوجسٹ کے لیے ایک قیمتی ذریعہ بن گیا۔
دوسرا ’لیکن‘ دلچسپ ہے اور ابھی بھی زیر تفتیش ہے۔
گومپرٹز میکھم لا آف موٹیلیٹی تقریباً 30 سے 80 سال کی عمر کے درمیان انسانی اموات کو بہت درست طریقے سے بیان کرتا ہے۔
لیکن کچھ مطالعات سے پتا چلا ہے کہ بڑی عمر میں شرح اموات زیادہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے، ایک ایسا رجحان جسے سائنسدانوں نے ’بڑھاپے میں موت کی سست شرح کے نظریے‘ کا نام دیا۔
گومپرٹز نے بذات خود بڑھاپے میں موت کی سست شرح کا اندازہ لگایا تھا کیونکہ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ انسانی زندگی سے پتا چلتا ہے کہ 92 سال کی عمر سے سالانہ شرح اموات 0.25 پر تقریباً مستقل تھی۔
80 سال کی عمر کے بعد قانون کا اطلاق کیوں ختم ہو جاتا ہے؟ جب آپ اس عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟ ماہرین کے پاس ابھی تک ان سوالات کا جواب نہیں۔