Getty Images
برطانیہ کے علاقے سمرسیٹ میں ایک خاتون نے آن لائنفراڈ میں تقریباً 40 ہزار پاونڈ (ڈیڑھ کروڑ روپے) گنوا دیے اور اب ان کی مدد میں ٹرینڈنگ سٹینڈرز سمیت دیگر ادارے مسلسل کوشاں ہیں۔
ہارٹ آف دی ساؤتھ ویسٹ ٹریڈنگ سٹینڈرڈز آفس کی مرکزی افسر جینیٹ کوئن نے کہا ہے کہ آن لائن کرپٹو کرنسی فراڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’کرپٹو کرنسی، بٹ کوائن یاکسی بھی قسم کی آن لائنسرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر فراڈ سامنے آ رہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس وقت زندگی گزارنے میں مختلف بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے جلدی یا آسانی سے پیسہ کمانے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔‘
سمرسیٹ سے تعلق رکھنے والی لیزا (فرضی نام)نے بتایا کہ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتے وقت ان کو یقین تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ نہیں ہو گا کیونکہ اس آن لائن کمپنی کو منی سیونگ ایکسپرٹ (رقم جمع کرنے کے ماہر)مارٹن لیوس کی پشت پناہی حاصل ہے۔
انھوں نےبتایا کہ آن لائن سکیمرز نے ان کے نام پر کئی قرضے حاصل کیے۔
منی سیونگ ایکسپرٹ کی ترجمان نے کہا کہ ’مارٹن لیوس کبھی اشتہارات نہیں دیتے اور نہ ہی اشتہاری مہم میں سرمایہ کاری کو فروغدیتے ہیں۔‘
’آن لائن سرمایہ کاری سے متعلق کوئی آپ کو تجاویز دے، جس سے آپ راغب ہوں وہ دھوکہ دہی اور فراڈ ہے۔ اگر آپ ایسی کوئی آن لائن پوسٹ دیکھیں تو ہرگز اس کے جھانسے میں نہ آئیں کیونکہ اس سے معلومات کی آڑ میں آپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
جینیٹ کوئن کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں اس بارے میں فوری متعلقہ شعبے کو آگاہ کریں۔
لیزا نے فیس بک پر اشتہار دیکھا جس میں کرپٹو کرنسی بٹ کوائن میں 200 پاونڈ کی سرمایہ کاری کا لالچ دیا گیا تھا۔
’مجھے بتایا گیا کہ مارٹن لیوس ہمارے کاروباری شراکت دار ہیں۔ اس بات پر بھروسہ کرتے ہوئے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو گئی اور یقین کر لیا کہ اس میں حقیقت ہے۔‘
Getty Images
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس اشتہار کو ایک دھوکہ باز نے تیار کیا تھا جس نے انھیں تقریباً دو ماہ تک روزانہ فون کیا۔
’اس سے پہلے کہ میرے علم میں آتا، اس نے میری طرف سے ایک اکاؤنٹ کھول لیا اور میری آمدن کے بارے میں غلط تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً 11 قرضوں کے لیے درخواستدے دی۔‘
لیزا کے مطابق ’ایک موقع پر میرے اکاؤنٹ میں 55 ہزار پاونڈ نمودار ہوئے۔ اس کے فوراً بعد اس شخص نے فون کر کے مطالبہ کیا کہ میں انھیں فوری طور پر رقم منتقل کر دوں۔‘
’میں نے بارہا دریافت کیا کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی۔ مجھے غصہآنے لگا تو وہگالم گلوچ کرنے لگا اور اس نے دھمکی دے کر کہا کہ اگر میں نے اس کی بات نہیں مانی تو میں اپنی کمائی ہوئی تمام رقم کھو دوں گی۔‘
لیزا نے کہا کہ اس دھوکے کے بعد انھوں نےسٹیزن ایڈوائس بیورو، ٹریڈنگ سٹینڈرڈز ایجنسی اور پولیس سے تعاون حاصل کیا۔
لیزا کے مطابق وہ قرض دینے والی کمپنیوں کے ساتھ کچھ معاہدے کر چکی ہیں، جہاں وہ کم سے کم رقمواپس ادا کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ اپنی کریڈٹ ریٹنگ کی اس حد تک حفاظت کر رہی ہیں، جس حد تک وہ کر سکتی ہیں۔
لیزا اب اگلے پانچ سال کے لیے ماہانہ ایک ہزار پاونڈ سے زیادہ کی ادائیگیاں کر رہی ہیں۔
’میں نے خود کو ناقابل یقین حد تک بیوقوف اور شرمندہ محسوس کیا۔ میں اب بھی نامعلوم نمبروں سے آنے والی فون کالز کا جواب نہیں دیتی۔ ‘
لیزا کے مطابق ’میں ہر وقتخوف کے حصار میں رہتی ہوں۔ ان کے پاس میرا پتا موجود ہے اور میرے تمام رابطے کی تفصیلات ہیں۔‘
لیزا کے مطابق ’میں نہیں جانتی کہ ان سب معلومات کے ہوتے ہوئے وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘