وہ مانع حمل دوا جو پیدائش میں وقفہ تو نہ کروا سکی لیکن لاکھوں زندگیاں بچانے میں مددگار ثابت ہوئی

بی بی سی اردو  |  Aug 14, 2023

Getty Imagesانجلینا جولی کی تصویر کشی کر کے چھاتی کے کینسر پر آگاہی دی گئی

یہ معاملہ 1962 میں انگلینڈ کی کاؤنٹی چیشائر میں شروع ہوا تھا۔ امپیریل کیمیکل انڈسٹریز (آئی سی آئی) نامی کمپنی ایک ایسے کمپاؤنڈ (مرکب) پر تحقیق کر رہی تھی جس نے بچوں کی پیدائش پر قابو پانے والی گولی (ٹیبلیٹ) بنانے کا عزم کیا تھا اور بظاہر لگ رہا تھا کہ وعدہ پورا بھی ہو جائے گا۔

آئی سی آئی 46474کے نام سے جانا جانے والا یہ فارمولہ ایک خاتونکیمسٹ ڈورا رچرڈسن نے اس دور میں غیر معمولی طور پر مرتب کیا تھا اور جس نے واقعتاً چوہوں میں مانع حمل اثرات مرتب بھی کیے تھے۔

ممکنہ طور پر یہ صبح لی جانے والی دوا بننے جا رہی تھی، بالکل ویسی گولی، جسے کچھ خواتین حمل کو روکنے کے لیے انٹرکورس کے چند گھنٹوں بعد لیتی ہیں۔

لیکن تقریباً ایک دہائی بعد یہ علم میں آیا کہ انسانوں میں اس مانع حمل دوا کا الٹا اثر ہوا اور خواتین میں زرخیزی کو روکنے کی بجائے اس نے بیضہ دانی کو متحرک کر کے حمل ٹھرنے کے کیسز میں اضافہ کیا۔

ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد اس کیمیائی فارمولے کے ساتھ ہونے والی تحقیق کو مکمل طور پر ترک کر دیا جاتا اگر سائنسدانوں کی ٹیم کے رہنما آرتھر والپول نے مداخلت نہ کی ہوتی۔

آرتھر والپول نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس پروجیکٹ کو آگے نہیں بڑھایا گیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔

اس مرکب کی تحقیق میں مانع حمل کے ساتھ چھاتی کے کینسر کے علاج کے ٹرائلز بھی کیے گئے تھے۔

1971 میں اس مرکب کا پہلا کلینیکل ٹرائل مانچسٹر کے کرسٹیز ہسپتال میں کیا گیا تھا، جس میں اس کے مثبت نتائج کے ساتھپریشان کن ضمنی اثرات کے کم واقعات سامنے آئے تاہم ان نتائج سے بھی آئی سی آئی مطمئن نہ ہو سکی۔

جیسا کہ ڈورا رچرڈسن نےڈرگز سے متعلق اپنی یاداشتوں میںبیان کیا کہ ’والپول اور ان کے ساتھیوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ وہ پیدائش میں وقفے کی گولی کی تلاش میں تھے نہ کہ کینسر کے خلاف دوا بنانا ان کی تلاش تھی۔‘

اس فیلڈ میں کمپاؤنڈ کی افادیت کے بڑھتے ہوئے طبی شواہد کے باوجود جزوی طور پر بیماری سے وابستہ خراب تشخیص کی وجہ سے کینسر کی دوائی کی مارکیٹ کو کم اہمسمجھا جاتا تھا۔

آئی سی آئی کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے تیار کردہ فروخت کے تخمینوں نے اندازہ لگایا کہ یہ کبھی بھی تحقیق اور ترقی کے اخراجات کو پورا نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی کمپنی کے لیے مناسب منافع پیدا ہو سکے گا۔

اس دوا کی تحقیق کو بعد میںآگے لے جانے والےپروفیسر وی کریگ جارڈن کا کہنا تھا کہ یہ تمام معلوماتفارماسیوٹیکل تاریخ میں موجود ہیں تاہم جب تک کمپنی نے پروگرام کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت تک چھاتی کے کینسر کے ٹرائلز کی متعدد اشاعتیں ہو چکی تھیں، جس کے باعث اس مرکب میں دنیا بھر میں دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔

اس طرح کے دباؤ کے تحت آئی سی آئی کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا اور پروجیکٹ کو بچا لیا گیا۔

فروری 1973 میں آئی سی آئی نےپروڈکٹ لائسنس کے اجرا کے لیے درخواست دی اور اسی سال برطانیہ میںنولواڈیکس نامی دوا کو مانع حمل اور چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے شروع کیا گیا۔

لیکن یہ دوا ابھی تک آئی سی آئی کی شیلف پر مزید تحقیق کے مرحلے میں تھی تاہم ناکافی فنڈز اس راہ میں حائل ہو رہے تھے۔

Getty Imagesراکھ سے سونا بننے والی جادوئی دوا کا سفر

آئی سی آئی 46474 کو اینٹی ایسٹروجن کے طور پر کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

سنہ 1896 میں کینسر کے مرض کے ایک نامی گرامی سرجن جارج بیٹسن نے دریافت کیا تھا کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی بیضہ دانی (اووریز) کو اگر جراحیکے عمل سے نکال دیں تو ان کی زندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اووریز ایسٹروجن نامی ہارمون کی افزائش کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

جارج بیٹسن کی تحقیق سےیہ بات سامنے آئیکہ یہ ہارمونز چھاتی کے کینسر کی نشوونما اور بڑھوتی میں ملوث تھے۔

اگلی پانچ دہائیوں کے دوران ڈاکٹروں نے انسانی ساختہ ایسٹروجن جیسے کیمیکلز کی ایک قسم کو چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے آزمایا۔

اگرچہ ان کی کوششیں شاذ و نادر ہی کامیاب ہوتی تھیں لیکن وسیع پیمانے پر استعمال سے اس کےضمنی اثرات بہت شدید تھے۔

1960 کے وسط میں جب آئی سی آئی 46474 مرکب کے ساتھ تجربات کر رہا تھا تو چھاتی کے کینسر کے بارے میں بڑھتی آگاہی کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ تحقیق آگے نہیں بڑھ پا رہی۔

اس وقت چھاتی کے کینسر کا واحد علاج ماسٹیکٹومی تھا جس میں عورت کی چھاتی کے کینسر والے حصے کو سرجری کے ذریعے ہٹا کر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن تھراپی کے عمل سے گزارا جاتا تھا تاہم پھر جلد ہی سب بدل گیا۔

Getty Images

امریکی صدر رچرڈ نکسن کا 1971 میں کینسر کے خلاف جنگ کا اعلان قسمت سے اچھا فیصلہ ثابت ہوا اور چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے ’ایسٹروجن بلاکر‘ تیار کرنے میں نئی دلچسپی پیدا ہوئی۔

لیکن امریکہ میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی طرف سے اس کی منظوری میں سست روی سامنے آئی اور اسی دورانڈاکٹر وال پول اپنی خیرت انگیز دوا کی دنیا بھر میں کامیابی کو دیکھے بغیر 1977 میں وفات پا گئے۔

تاہم پروفیسر وی کریگ جارڈن کے مطابق اسی سال ایک نئی پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب ڈورا رچرڈسن نے انھیں ٹیمازیفین میٹابولائٹس دی۔

طبی زبان میں میٹابولائٹ دراصل ایک ضمنی پروڈکٹ ہے جو جسمکے اندر جا کر دوائی کو مختلف مادوں میں توڑکر تقسیم کر دیتا ہے۔

پروفیسر وی کریگ جارڈن کے مطابق ’میری لیب میں موجود ٹیم نے دیکھا کہ ٹیمازیفین کا میٹابولائٹ دراصل اینٹی ایسٹروجن کے طور پر ٹیمازیفین سے 100 گنا زیادہ طاقتور ہے۔ یہ ایک ایسی دوا تھی جو کبھی کسی نے نہیں دیکھی۔‘

’جب میں نے آئی سی آئی کو اس سے آگاہ کیا تو کمرے میںصرف ایک طویل حیران کن خاموشی تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں نے جو کچھ تحقیق میں پایا، اس کے بارے میں کسی کچھ نہ کہوں اور اس معاہدے کا احترام کروں۔ میں نے ان کی بات سے اتفاق کیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ٹیمازیفین امریکہ میں کامیاب ہو۔‘

’جب آئی سی آئی کو میٹابولائٹ پیکج موصول ہوا تھا تب میرے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر لگا دی گئی تھی۔ اس کے بعد میں دنیا کے سب سے طاقتور اینٹی ایسٹروجن کی دریافت کا اعلان کرنے والا ایک مضمون شائع کرنے کے قابل تھا، جو بعد میں آنے والے تمام اینٹی ایسٹروجن کی بنیاد بن گیا۔‘

امریکہ میں ٹیموزیفین کو 1977 کے آخر میں استعمال کے لیے منظور کیا گیا تھا جو کہ ادویات کی دنیا میں کامیابی کے ایک اہم سنگ میلکی حیثیت رکھتا ہے۔

اور اس طرح وہ کیمیائی مرکب ایک ایسے معجزاتی مرکبکی حیثیت اختیار کر گیا، جسے عالمی ادارہ صحت کی ضروری ادویات کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

’ٹیموزیفین‘ کینسر میں کیسے کام کرتی ہے؟

چھاتی کے وہ کینسر جن میں ایسٹروجن ریسیپٹرز( خلیوں کے اندر پایا جانے والے پروٹینز) پائے جاتے ہیں انھیں ایسٹروجن ریسیپٹر پازیٹو یا ای آر پلس کینسر کہا جاتا ہے۔ ای آر پلس میں ٹیومر اس ہارمون کو کھاتے ہیں، جو عورت کے خون میں گردش کرتا ہے۔

ایسٹروجن پر انحصار کرنے والے ای آر پلس کینسر میں انتہائی کارگر ہے جو ایسٹروجن کو کینسر کے خلیات پر اثر انداز ہونے سے روکتی ہے۔

یہ اس طرح کام کرتی ہے جیسے (کینسر کی افزائش کا) ایک دروازہ بند کر دیا ہو۔ یہ ایسٹروجن ریسیپٹر سے منسلک ہو کر ہارمون کو داخل ہونے سے روکتا ہے، اس طرح ٹیومر کو اس کی جگہ پر ہی روک دیتا ہے۔ اسی لیے اسے کینسر کے علاج میں اب تک کی سب سے بڑی پیشرفت کہا جاتا ہے۔

اب یہ ایک ایسا بیان ہے جو سننے میں تو بہت شاندار لگتا ہے لیکن اس کے لیے چند وارننگز کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق

چھاتی کا کینسر، کینسر کی عام طور پر تشخیص کی جانے والی قسم ہے جس کا تناسب دنیا بھر میں ہر آٹھ میں سے ایک کینسر کی تشخیص ہے۔ صرف 2020 میں دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے تقریباًدو کروڑ 30 لاکھ نئے کیس رپورٹ ہوئے اور اس بیماری سے کم از کم چھ لاکھ پچاسی ہزار اموات ہوئیں۔ ان میں سے تقریبا 70 فیصد سے زائد چھاتی کے کینسر ای آر پلس ہیں۔

چھاتی کے کینسر میں مبتلا مرد و خواتین کی زندگیوں کو بڑھانے اور بچانے میں اس دوا کے اثرات کے باعث بہت سارے ماہر امراض اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More