وہ سیکس سکینڈل جس نے اندرا گاندھی سمیت انڈین رہنماوں کے سیاسی کیرئیر کو متاثر کیا

بی بی سی اردو  |  Aug 13, 2023

Getty Images

انڈیا میں 1977میں ہونے والے عام انتخابات میں اندرا گاندھی شکست سے دوچار تو ہوئیں تاہم چار ماہ کے اندر ہی وہ ہار کے صدمے سے باہر نکل آئیں۔

جنتا حکومت کو بہترین موقعمیسر آ جانے کے باوجود انھوں نے اسے ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مرارجی دیسائی، جگجیون رام اور چرن سنگھ تینوں اس حکومت کو مخالف سمتوں میں لے جانے میں شامل ہو گئے اور انھوں نے اندرا گاندھی کو حکومت میں آنے کا موقع گویا پلیٹ میں رکھ کر فراہم کر دیا۔

اندرا گاندھی کو سیاسی میدان میں واپسی کا پہلا موقع اس وقت ملا جب مئی 1977 میں بہار کے بیلچھی گاؤں میں اونچی ذات کے زمینداروں نے 10 سے زیادہ دلت ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کیا۔

ابتدا میں تو اس واقعے نے بہت کم لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تاہم جولائی میں اندرا گاندھی وہاں کے دلت برادری سے اظہار ہمدردی کرنے کے لیے جا پہنچیں۔

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’ہاؤ پرائم منسٹرز ڈیسائیڈ‘ کی مصنفہ نیرجا چودھری کہتی ہیں کہ ’اس وقت پورے بہار میں بہت زیادہ بارش ہو رہی تھی۔ بیلچی کا پورا راستہ کیچڑ اور سیلابی پانی سے ڈھکا ہوا تھا۔‘

اندرا گاندھی کو ان حالات میں اپنی گاڑی راستے میںہی چھوڑنی پڑی لیکن انھوں نے اپنا سفر نہیں روکا۔ وہ سیلاب سے تباہ شدہ بیلچھی گاؤں پہنچنے کے لیے ہاتھی پر سوار ہوئیں۔ اخبارات میں ہاتھی پر سوار اندرا گاندھی کی تصویر نے یہ پیغام دیا کہ وہ ابھی بھی لڑ رہی ہیں۔‘

ہاتھی کی پشت پر ساڑھے تین گھنٹے کا سفرGetty Images

بیلچھی کے دلتوں نے اندرا گاندھی کی آمد پر انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اندرا گاندھی نے وہیں بیٹھ کر ان کی پریشانیاں سنیں اور انھیں یقین دلاتے ہوئے بولیں’ میں ہوں نا۔‘

مشہور صحافی جناردن ٹھاکر نے بھی اپنی کتاب ’اندرا گاندھی اینڈ دی پاور گیم‘ میں ان کی بیلچھی یاترا کا ذکر کیا ہے۔

ٹھاکر لکھتے ہیں کہ ’کیدار پانڈے، پرتیبھا سنگھ، سروج کھاپردے اور جگن ناتھ مشرا بھی اندرا گاندھی کے ہمراہ گئے تھے۔ کانگریس لیڈر کیدار پانڈے نے کہا کہ کوئی کار بیلچھی نہیں پہنچ سکتی۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم پیدل ہی جائیں گے، چاہے ہمیں ساری رات چلنا پڑے۔‘

حسب توقع اندرا گاندھی کی جیپ کیچڑ میں پھنس گئی۔ جسے نکالنے کے لیے ٹریکٹر لایا گیا لیکن وہ بھی کیچڑ میں پھنس گیا۔

اندرا گاندھی نے اپنی ساڑھی کو اپنی پنڈلیوں تک اٹھایا اور پانی بھری گلیوں میں چلنے لگیں تبھی اس علاقے کے کسی شخص نے ان کے لیے وہاں ہاتھی بھیج دیا۔

اندرا اس ہاتھی پر چڑھ گئیں۔ ڈرتے ڈرتے پرتیبھا سنگھ بھی ان کے پیچھے چڑھ گئے اور انھوں نے اندرا کی کمر کو مضبوطی سے تھام لیا۔

اندرا گاندھی نے وہاں سے بیلچھی تک کا ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ہاتھی کی پیٹھ پر طے کیا۔ وہاں سے ان کی واپسی آدھی رات کو ہوئی اس دوران اندرا نے سڑک کے کنارے بنے ایک سکول میں تقریر بھی کی۔

پٹنہ میں جے پی سے ملاقاتGetty Images

اگلے دن اندرا گاندھی جے پی سے ملنے ان کی رہائش گاہ کدم کوان پٹنہ گئیں۔ اس وقت اندرا نے کنارے دار سفید ساڑھی پہن رکھی تھی۔

سروودیہ لیڈر نرملا دیشپانڈے ان کے ساتھ تھیں۔ جے پی انھیں اپنے چھوٹے سے کمرے میں لے گئے جہاں ایک بستر اور دو کرسیاں موجود تھیں۔ اس ملاقات میں اندرا نے نہ تو جے پی کے ساتھ سیاست پر بات کی اور نہ ہی ان مسائل کا ذکر کیا جن کا انھیں ان دنوں سامنا تھا۔

اندرا جے پی سے ملنے سے پہلے سنجے گاندھی کی بیوی منیکا نے جے پی سے ملاقات کی تھی۔ انھوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کے فون ٹیپ کیے جا رہے ہیں اور ان کی ڈاک بھی کھول کر پڑھی جا رہی ہے۔

یہ سن کر جے پی بہت ناراض ہوئے۔ مانیکا کے جانے کے بعد جے پی کے ایک ساتھی خود کو یہ کہنے سے نہیں روک سکے کہ ’اندرا گاندھی نے بھی اپنے مخالفین کے ساتھ یہی سب کچھ کیا تھا۔ اس پر جے پی کا جواب تھا ’لیکن اب ملک میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے۔‘

اندرا کے ساتھ جے پی کی ملاقات 50 منٹ تک جاری رہی۔ نیرجا چودھری کہتی ہیں، ’جے پی اندرا گاندھی کو رخصت کرنے کے لیے سیڑھیوں تک آئے تھے۔‘

باہر کھڑے صحافیوں نے جب اندرا گاندھی سے پوچھا کہ ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی تو اندرا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’یہ ایک نجی ملاقات تھی۔‘

جب نامہ نگاروں نے جے پی سے ملاقات جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا تو وہ بولے۔ میں نے اندرا سے کہا کہ جتنا آپ کا ماضی روشن ہے، اتنا ہی آپ کا مستقبل بھی روشن ہوگا۔‘

جیسے ہی یہ خبر باہر نکلی جنتا پارٹی کے کئی لیڈر بے چین ہوگئے۔ ناراض کلدیپ نیر نے جے پی کے معاون کمار پرشانت سے پوچھا کہ ’جے پی نے اندرا کے بارے میں یہ کیسے کہا؟ ان کا ماضی ایک سیاہ باب تھا، بالکل بھی روشن نہیں تھا۔‘

جب کمار پرشانت نے جے پی کو یہ پیغام پہنچایا تو انھوں نے پوچھا کہ ’گھر آئے مہمان کو دعا دی جاتی ہے یا اسے بدعا دیتے ہیں؟‘

نیرجا چودھری کہتی ہیں، ’جے پی کے اس تبصرے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ تب تک جے پی جنتا پارٹی کے لیڈروں سے مایوس ہو چکی تھی اور اندرا گاندھی سے زیادہ ان سے ناراض تھی۔‘

راج نارائن اور سنجے گاندھی کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہGetty Images

اندرا گاندھی کو مرکزی سیاست میں واپسی کے لیے تیسرا موقع اس وقت ملا جب راج نارائن، جنھوں نے انھیں الیکشن میں شکست دی، محسوس کرنے لگے کہ جنتا پارٹی کی حکومت میں انھیں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔

انھوں نے مرار جی ڈیسائی کو برطرف کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔

راج نارائن نے اندرا گاندھی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اندرا نے خود ان سے ملاقات نہیں کی لیکن اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو ملنے کے لیے بھیج دیا۔

وہ موہن میکنس کے مالک کپل موہن کے پوسا روڈ والے گھر پر ملاقات کے لیے گئے۔ کمل ناتھ یا اکبر احمد ڈمپی سنجے گاندھی کو راج نارائن سے ملاقات کے لیے اپنی گاڑی میں لے جاتے۔

ان ملاقاتوں میں مرار جی دیسائی کی حکومت گرانے اور چودھری چرن سنگھ کو وزیر اعظم بنانے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دونوں جانتے تھے کہ چرن سنگھ کو وزیر اعظم بنانے کے لیے جنتا پارٹی کو توڑنا پڑے گا۔

نیرجا چودھری لکھتی ہیں کہ ’ایک دن راج نارائن کو خوش کرنے کے لیے سنجے گاندھی نے ان سے کہا، آپ بھی تو وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ راج نارائن نے اثبات میں سر ہلایا لیکن وہ سنجے گاندھی کے جھانسے میں نہیں آئے اور کہاہاں ہو سکتا ہے لیکن فی الحال چودھری صاحب کو وزیر اعظم بننے دیں۔‘

جگجیون رام کے بیٹے کا سیکس سکینڈل

سنہ 1978 کے اواخر میں قسمت نے دوبارہ اندرا گاندھی کا ساتھ دیا۔ 21 اگست 1978 کو غازی آباد کے موہن نگر میں موہن میکنز کی فیکٹری کے باہر ایک کار حادثہ پیش آیا۔ یہ ایک مرسڈیز کار تھی جو ایک شخص کے اوپر چڑھ گئی جس کی جائے حادثہ پر ہی موت واقع ہو گئی۔

کار کے اندر بیٹھے شخص نے اس ڈر سے کہ لوگ اسے مارنا شروع نہ کر دیں اپنی کار موہن میکنس کے گیٹ کے اندر دھکیل دی۔ گیٹ پر موجود چوکیدار نے اندر جا کر حادثے کی اطلاع دی۔

کپل موہن کا بھتیجا انیل بالی باہر آئے تو انھوں نے گاڑی میں بیٹھے شخص کو پہچان لیا۔

وہ وزیر دفاع جگ جیون رام کے بیٹے سریش رام تھے۔ سریش رام نے بالی کو بتایا کہ ان کی گاڑی کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ کار کی پیچھلی سیٹ پر راج نارائن کے دو شاگرد اور جنتا پارٹی کے کارکنان کے سی تیاگی اور اومپال سنگھ بیٹھے تھے۔

انیل بالی نے سریش رام کو اپنی کمپنی کی گاڑی میں ان کے گھر واپس بھیجا۔

اگلے دن سریش رام نے کشمیری گیٹ پولیس سٹیشن میں ایف آئی درج کروائی اور اس میں انھوں نے انیل بالی کو سنائی گئی داستان سے بالکل مختلف کہانی سنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ 20 اگست کو انھیں تقریباً ایک درجن افراد نے اغوا کیا تھا جو انھیں زبردستی مودی نگر لے گئے اور ان سے زبردستی کچھ کاغذات پر دستخط کروانے چاہے۔ جب انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو انھیں تشدد کا نشانے بنایا گیا جس سے وہ بے ہوش ہو گئے۔

ہوش میں آنے پر انھیں بتایا گیا کہ کار میں بیٹھی خاتون کے ساتھ ان کی قابل اعتراض حالت میں تصاویر کھینچی گئی ہیں۔

راج نارائن کو تصویریں مل گئیں

نیرجا چودھری کہتی ہیں، ’اومپال سنگھ اور کے سی تیاگی کئی دنوں سے سریش رام کا پیچھا کر رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ دہلی کالج کی طالبہ سریش رام کی گرل فرینڈ ہے۔ جس کی وہ برہنہ تصویریں بناتے رہے تھے۔

’ان دونوں نے سریش رام اور اس کی گرل فرینڈ کی قابل اعتراض تصویریں دسترس میں رکھنے کی پوری کوشش کی۔انھیں یہ تصاویر سریش رام کی کار میں ملیں جسے وہ ڈرائیو کر رہے تھے۔‘

تصویریں ملتے ہی وہ دونوں انھیں اپنے لیڈر راج نارائن کے پاس لے گئے۔ اسی رات جگ جیون رام راج نارائن سے ملنے کپل موہن کے گھر آئے۔ دونوں کے درمیان تقریباً 20 منٹ تک بات چیت ہوئی۔

تاہم اس کا کوئی بامعنی نتیجہ نہیں نکل سکا اور جگ جیون رام تقریباً پونے بارہ بجے اپنے گھر واپس چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد راج نارائن نے کپل موہن سے کہا، ’اب وہ ہمارے قابو میں ہے۔‘

اگلے دن راج نارائن نے ایک پریس کانفرنس میں پورے واقعے کی تفصیلات بتائیں۔

صحافی فرزند احمد اور ارول لیوس نے ’انڈیا ٹوڈے‘ کے 15 ستمبر 1978 کے شمارے میں لکھا کہ ’راج نارائن سے پوچھا گیا کہ اومپال سنگھ کو وہ تصویریں کیسے ملیں؟‘

’راج نارائن نے بتایا کہ اومپال سنگھ نے سریش رام سے سگریٹ مانگا۔ جب اس نے سگریٹ دینے کے لیے اپنی کار کا ڈیش بورڈ کھولا تو وہ تصویریں سگریٹ کے پیکٹ کے ساتھ نیچے گر گئیں۔‘

’اومپال سنگھ نے وہ تصویریں قبضے میں لے لیں اور انھیں سریش رام کے تقاضے کے باوجود واپس نہیں کیا، حالانکہ سریش رام نے انھیں واپس لینے کے لیے رقم کی پیشکش بھی کی تھی۔‘

تصویریں سنجے گاندھی تک پہنچ گئیں

راج نارائن کے پاس سریش رام اور ان کی گرل فرینڈ کی تقریباً 50 کے قریب تصاویر تھیں۔ انھوں نے تقریباً 15 تصاویر کپل موہن کو دیں اور باقی اپنے پاس رکھ لیں۔

نیرجا چودھری مزید کہتی ہیں کہ ’جیسے ہی راج نارائن اپنے گھر گئے، کپل موہن نے اپنے بھتیجے انیل بالی سے کہا کہ وہ یہ تصویریں سنجے گاندھی کے پاس لے جائیں، بالی صبح کے ایک بجے 12 ولنگٹن کریسنٹ روڈ پر پہنچے جہاں سنجے گاندھی سونے کے لیے جا چکے تھے تاہم انھیں نیند سے جگایا گیا۔‘

’سنجے گاندھی نے کہا یہ کوئی آنے کا وقت ہے؟ انیل بالی نے سریش رام کی تصویریں ان کے حوالے کیں۔ سنجے گاندھی ایک لفظ کہے بغیر گھر کے اندر چلے گئے اور اندرا گاندھی کو جگایا۔‘

اگلے دن یعنی 22 اگست کو صبح نو بجے جنتا پارٹی کے ایم پی کرشنا کانت کے ٹیلی گراف لین والے گھر پر فون کی گھنٹی بجی۔

جگ جیون رام دوسرے سرے پر تھے۔ فون بند کرتے ہی اس نے گھر والوں کو بتایا کہ ’ایک اور بیٹے نے اپنے باپ کو ڈبو دیا ہے۔‘

Getty Imagesمانیکا گاندھی نے یہ تصاویر اپنے میگزین میں شائع کیں

لگ بھگ 10 منٹ بعد وزیر دفاع کی سرکاری گاڑی کرشن کانت کے گھر پر رکی۔ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہ کرشنا مینن مارگ پر واقع جگ جیون رام کے گھر گئے۔ جگ جیون رام نے سب کو کمرے سے نکلنے کو کہا۔

نیرجا چودھری لکھتی ہیں کہ ’جب وہ کمرے میں اکیلے رہ گئے تو جگ جیون رام اپنی نشست سے اٹھے اور کرشن کانت کے پاؤں پر ٹوپی رکھ کر کہا، ’اب میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘

کرشن کانت نے میڈیا میں اپنے رابطوں کے ذریعے جگ جیون رام کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

انڈین ایکسپریس کے صفحہ اول پر سعید نقوی کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں سریش رام کےساتھ ہمدردی ظاہر کی گئی تھی۔

انڈیا کے ہر اخبار نے اس خبر پر چپ سادھ لی لیکن سنجے گاندھی کی اہلیہ مانیکا گاندھی نے 46 سالہ سریش رام اور ان کی گرل فرینڈ کی وہ تصاویر اپنے میگزین ’سوریا‘ میں شائع کیں۔

اس رپورٹ کا عنوان تھا ’سچی کہانی‘۔ سوریا کا وہ شمارہ بلیک میں ہاتھوں ہاتھ بکا اور جگ جیون رام کی وزیر اعظم بننے کی خواہش ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی۔

تصویریں خشونت سنگھ تک بھی پہنچیں

مشہور مصنف خوشونت سنگھ نے بھی اپنی سوانح عمری ’ٹروتھ، لو اینڈ لٹل میلس‘ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دوپہر میری میز پر ایک پیکٹ آیا جس میں جگ جیون رام کا بیٹا سریش رام اور کالج میں پڑھنے والی ایک لڑکی کی قابل اعتراض تصویریں تھیں۔

خشونت سنگھ لکھتے ہیں، ’اسی شام ایک شخص میرے پاس آیا جس نے جگ جیون رام کا پیغامبر ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ اگر وہ تصویریں نیشنل ہیرالڈ اور سوریا میں شائع نہیں ہوتیں تو بابو جی مرار جی ڈیسائی کا ساتھ چھوڑ کر اندرا گاندھی کے پاس آ سکتے ہیں۔ میں ان تصویروں کو لے کر اندرا گاندھی کے پاس گیا تھا۔‘

خشونت نے لکھا، ’جب میں نے جگجیون رام کی پیشکش کا ذکر کیا تو اندرا گاندھی نے کہا، مجھے اس شخص پر ذرا بھر بھی یقین نہیں ہے۔‘

’جگ جیون رام نے مجھے اور میرے خاندان کو کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسے بتاؤ کہ پہلے اسے اپنا انداز بدلنا ہو گا، تب ہی میں مانیکا سے کہوں گی کہ وہ تصویریں شائع نہ کریں۔‘

سوریا اور نیشنل ہیرالڈ دونوں نے وہ تمام تصاویر شائع کیں جن میں بعض جگہوں پر (قابل اعتراض ہونے کے باعث) سیاہ پٹیاں لگائی گئی تھیں۔

اندرا گاندھی اور چرن سنگھ دونوں ہی جانتے تھے کہ مرارجی ڈیسائی کے استعفیٰ کے بعد جگ جیون رام وزیر اعظم کے عہدے کے سب سے بڑے دعویدار ہو سکتے تھے لیکن جیسے ہی یہ سکینڈل منظر عام پر آیا وہ دیوار سے لگ گئے اور پھر کبھی سنبھل نہیں پائے۔

اندرا گاندھی اور چرن سنگھ کی ملاقاتGetty Images

ایوان کی توہین کے الزام میں اندرا گاندھی سے لوک سبھا کی رکنیت چھین لی گئی اور ایوان کے اجلاس تک انھیں تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ تہاڑ جیل سے ہی انھوں نے چرن سنگھ کے لیے 23 دسمبر کو ان کی سالگرہ پر پھولوں کا گلدستہ بھیجا تھا۔انھیں 27 دسمبر کو جیل سے رہائی ملی تھی۔

رہائی کے وقت تہاڑ جیل کے افسران اور عملے نے انھیں احترام سے سلام کیا۔ اسی دن امریکہ میں چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا۔چرن سنگھ نے ستیہ پال ملک کے ذریعے اندرا گاندھی کو پیغام بھیجا، ’اگر مسز گاندھی ہمارے ساتھ چائے پی لیں تو مرارجی ٹھیک ہو جائیں گے۔‘

اندرا گاندھی جب چرن سنگھ کے گھر پہنچیں تو انھوں نے گیٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اس ملاقات کے ذریعے چرن سنگھ مرار جی ڈیسائی کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اندرا گاندھی سے دوستی کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف اندرا گاندھی یہ بھی دکھانا چاہتی تھیں کہ وہ بھی جنتا پارٹی کے ناراض لیڈران سے مل کر ان کے لیے مصیبت کھڑی کر سکتی ہیں۔

اندرا نے حمایت واپس لے لی

اس سب کی انتہا مرارجی ڈیسائی کا وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ اور چرن سنگھ کا وزیر اعظم بننا تھا۔ حلف لینے کے بعد چرن سنگھ نے اندرا گاندھی کو ان کی رہائش گاہ ولنگٹن کریسنٹ آکر شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا۔

نیرجا چودھری بتاتی ہیں، ’چرن سنگھ بیجو پٹنائک سے ملنے رام منوہر لوہیا ہسپتال جا رہے تھے، وہاں سے واپس آتے ہوئے انھیں اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر ٹھہرنا تھا لیکن اسی دوران ان کے ایک رشتہ دار نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ ان کے گھر کیوں جا رہے ہیں۔ آپ وزیر اعظم ہیں، انھیں آپ سے ملنے آنا چاہیے۔ چرن سنگھ نے اندرا گاندھی کے گھر نہ جانے کا فیصلہ کیا۔

جس طرح سے یہ سب ہوا وہ کسی فلمی سین سے کم نہیں تھا۔

نیرجا کہتی ہیں کہ ’اندرا گاندھی ہاتھ میں گلدستہ لیے اپنے گھر کے پورٹیکو میں چرن سنگھ کا انتظار کر رہی تھیں۔ اس وقت اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر ستیہ پال ملک بھی موجود تھے۔ تقریباً 25 کانگریسی لیڈر وہاں چرن سنگھ کا انتظار کر رہے تھے۔

’اندرا گاندھی کی نظروں کے سامنے، ان کے گھر میں داخل ہونے کے بجائے چرن سنگھ کی کاروں کا قافلہ ان کے گھر کے سامنے سے گزرا۔ اندرا گاندھی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔‘

اس موقع پر موجود لوگوں نے دیکھا کہ وہ گلدستہ زمین پر پھینک کر گھر کے اندر چلی گئیں۔ ستیہ پال ملک نے کہا کہ میں نے اسی وقت محسوس کیا کہ چرن سنگھ کی حکومت اب چند دنوں کی مہمان ہے۔

بعد میں چرن سنگھ نے اپنی غلطی سدھارنے کی کوشش کی لیکن اندراگاندھی نے انھیں پیغام بھیجا، ’اب نہیں‘

چرن سنگھ کے وزیر اعظم بننے کے 22 دن بعد اندرا گاندھی نے ان کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More