قومی اسمبلی کے بدھ کی شام ہونے والے الوداعی اجلاس میں یوں تو خاصی گہما گہمی رہی لیکن آج یہاں سب سے زیادہ مصروف شاید وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تھے، فائلوں کا ایک ڈھیر تھا اور وزیر داخلہ اِس میں گم نظر آئے۔
وہ اسمبلی ہال میں داخل ہوئے تو اراکین اسمبلی ان کے گرد جمع ہو گئے اور ان سے فائلوں پر دستخط کروانے شروع کر دیے۔ شور اس قدر بڑھا کہ سپیکر قومی اسمبلی کو ٹوکنا پڑا۔ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی الوداعی تقریر کے دوران پچھلی نشستوں پر بیٹھے اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے پیش کی جانے والی فائلوں پر دستخط کرتے رہے، یہاں تک وزیر دفاع خواجہ آصف انھیں وہاں سے اٹھا کر اپنے ہمراہ اُن کی نشست پر لے کر آئے۔
لیکن اگلی نشتوں پر آنے کے باوجود بھی فائلوں کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ فائلوں کا ایک بنڈل ختم ہونے سے پہلے ان کے سامنے بند فائلوں کا ایک اور بنڈل آ جاتا۔صحافی یہی سوچ رہے تھے کہ آخر ان فائلوں میں کن کاغذات پر دستخط ہو رہے ہیں۔
بعدازاں کم از کم دو اراکین اسمبلی نے تصدیق کی ہے کہ بیشتر اراکین اسمبلی وزیر داخلہ سے اسلحہ لائسنسز کی فائلز پر دستخط کروا رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی الوداعی تقریر میں اسلحہ لائسنسوں کے مطالبے اور اجرا پر تنقید بھی کی۔ انھوں نے اجلاس کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلحہ لائسنس کے اجرا کے پراسس پر لگی ’غیر ضروری پابندیاں ختم کرکے اسے سٹریم لائن کیا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو سیاستدانوں کے پاس اس کام کے لیے نہ آنا پڑے۔‘
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لیکن اجلاس حسب معمول آج بھی وقت پر شروع نہیں ہو سکا۔ اجلاس میں خواتین اراکین اسمبلی کی تعداد بھی عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ تھی جبکہ مہمانوں کی گیلریز اور پریس گیلری میں بھی خاصا رش تھا۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر سے تقاریر کا سلسہ شروع ہوا جو کئی گھنٹے جاری رہا۔
ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے آج بھی نہایت مختصر تقریر کی اور کہا ’افسوس رہے گا کہ ہم غریب کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ وسائل پر قابض لوگ غریبوں کو کہتے ہیں کہ یہ آزمائش کی گھڑی ہے۔‘
خیال رہے کہ چند روز قبل آرمی چیف عاصم منیر نے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دورانکہا تھا کہ یہ پاکستان کی عوام پر آزمائش کا وقت ہے۔
Getty Images
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور الوداعی خطاب میں اپنی اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور پارلیمانی لیڈرز کا شکریہ ادا کیا۔
جب وہ اپنی تقریر ختم کرنے لگے تو ایک خاتون رکن اسمبلی نے وزیر اعظم کو لقمہ دیا کہ ’عمران خان کا بھی شکریہ ادا کریں، ان کی غلطیوں کی وجہ سے آپ وزیر اعظم بنے۔‘ جس پر وزیر اعظم شہبازشریف نے کہا: ’ہم عمران خان کی غلطیوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ آپ کو ووٹوں کی وجہ سے وزیراعظم ہیں۔‘
وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ ’ایک سیاسی لیڈر جیل گئے ہیں، جس پر افسوس ہے۔ یہ خوشی کا موقع نہیں، مٹھائیاں نہیں بانٹنی چاہییں۔‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعظم کی تقریر کے دوران اسمبلی ہالپہنچے۔ ان کی آمد پر قومی اسمبلی میں مہمانوں کی گیلری سے نعرے بازی کی گئی اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔
وزیر اعظم کی تقریر کے دوران بھی اراکین اسمبلی اپنی گپ شپ میں مصروف نظر آئے تو کچھ اپنے موبائل فونز پر مصروف تھے۔ اس دوران وزیر اعظم سے ایک قطار پیچھے بیٹھے رانا ثنا اللہ کے پاس دستخط کے لیے آنے والی فائلوں کا سلسہ بھی جاری رہا۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے آخر کار وزیر اعظم کو اپنی تقریر روکنا پڑی اور اراکین اسمبلی کی جانب مڑ کر کہا ’آرڈر ان دی ہاؤس پلیز۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے ’16 ماہ میں کسی سیاسی مخالف کو جیل نہیں بھجوایا۔
شہباز شریف نے ایک بار پھر نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اسے ریاست، فوج اور موجودہ آرمی چیف کے خلاف ’بغاوت کی کوشش‘ قرار دیا، جبکہ اپنی تقریر میں انھوں نےفوج کی خدمات کو خراج تحسینِ پیش کیا۔
وزیراعظم کی تقریر کے بعد اجلاس میں بیس منٹ کا وقفہ لیا گیا اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت تمام اراکین اسمبلی نے پہلے اسمبلی ہال اور پھر پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے تصاویر بنوائیں۔
لیکن اجلاس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تقریر کو سب سے زیادہ سراہا گیا۔ انھوں نے نہ صرف حال ہی میں قومیاسمبلی میں جلدی میں منظور ہونے والے بلز پر افسوس کا اظہار کیا بلکہ سپیکر قومی اسمبلی پر بھی تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہسپیکر کو ’اراکین اسمبلی اور ایوان کی ساکھ کی حفاظت‘ کرنی چاہیے تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’آج اس اسمبلی پر الزام لگ رہے ہیں۔ آج عوام ہمیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ لوگ اراکین اسمبلی کو کرپٹ سمجھتے ہیں۔‘
وزیر اعظم نے اس سے قبل اپنی تقریر میں کہا کہ وہ کل (جمعرات) اپوزیشن لیڈ راجہ ریاض سے نگران وزیر اعظم کے نام سے متعلق مشاورت کے لیے ملاقات کریں گے۔
نگران وزیر اعظم کی تعیناتی کا ذکر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی تقریر کے دوران بھی ہوا جب انھوں نے ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں نے 2018 میں بطور وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف ’خوش اسلوبی‘ سے نگران وزیر اعظم جسٹس ناصر الملک کو نامزد کیا تھا: ’اب ان نگران وزیر اعظم نے کیسی نگرانی کی، وہ تاریخ کا حصہ ہے کیونکہ 2018 کے انتخابات میں جس قسم کی دھاندلی ہمارے ساتھ ہوئی، وہ سب جانتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن 2018 کے انتخابات کے دوران انتخابی مہم میں مشکلات، سابق وزیراعظم عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ حمایت اور پھر الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کرتے رہی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں، شاہد خاقان عباسی نے خورشید شاہ کی الوداعی تقریر کے بعد سابق چیئرمین نیب کی تعیناتی پر بھی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے گذشتہ دور حکومت میں چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے ان کی جماعت اور اس وقت کی اپوزیشن (پیپلز پارٹی) کی جانب سے تین تین نام آئے تھے۔
’ملاقاتوں میں دونوں طرف سے آنے والے ان ناموں پر اتفاق نہیں ہو سکا، مگر ہم دونوں نے ایک شخص (جسٹس جاوید اقبال) کے نام پر اتفاق کیا کہ انھیں کبھی یہ عہدہ نہیں دیں گے۔ اس بعد یہ ہوا کہ ہم دونوں کچھ عرصے بعد نیب کیسز میں جیل میں ایک دوسرے سے ملے اور خوب ہنسے کہ اسی نام کو چیئرمین نہ بنانے پر اتفاق ہوا تھا جس کی سزا اب ہمیں مل گئی ہے۔‘
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ان دونوں میں اتفاق ہو گیا تھا تو پھر یہ عہدہ انھوں نے جسٹس جاوید اقبال کو کس کے کہنے پر دیا گیا۔ یہی وہ بحث تھی جو شاہد خاقان عباسی کی تقریر کے بعد صحافیوں کی گیلری میں چل نکلی۔
قومی اسمبلی کے پانچ سال: ’آخری دنوں میں جمہوریت سے بہترین انتقام لیا‘Getty Images
ماضی میں ملک کی کسی بھی جمہوری حکومت کی طرح اس اسمبلی میں بھی اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس اسمبلی نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا، کووڈ 19 کے دوران وڈیو لنک کے ذریعے ہاؤس کا بزنس چلا، ایک ایک دن میں درجنوں بلز منظور ہوتے رہے، خواتین کے لیے نازیبا جملے اس اسمبلی میں بھی کسے گئے۔
اس اسمبلی کے پانچ سالہ دور میں ایک وقت ایسا تھا کہ اپوزیشن اور حکومت کے اراکین اسمبلی کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپوزیشن بس نام کی ہی باقی بچی۔ پہلی بار پریس گیلری کو تالے لگے، صحافیوں اور آزادی اظہار رائے پر قدغنوں کا سلسلہ قانون سازی کے ذریعے جاری رہا، ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کی نئی مثالیں بھی سامنے آئیں۔
موجودہ قومی اسمبلی میں دو حکومتیں قائم ہوئیں۔ پہلی حکومت عمران خان اور چند اتحادی جماعتوں نے 2018 کے انتخابات کے بعد قائم کی جب پی ٹی آئی سب سے زیادہ ووٹ لے کر قومی اسمبلی پہنچی۔ گذشتہ برس ان کی حکومت اس وقت ختم ہوئی جب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت متعدد جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جس کے بعد تحریک انصاف نے اسمبلی سے استعفے دے دیے۔
ان دونوں حکومتوں کے دوران قومی اسمبلی میں ایک مختلف ماحول بنا رہا۔ پہلی حکومت کے دور میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں میں بحث مارپیٹ تک پہنچی تو دوسری حکومت کے دور میں اپوزیشن برائے نام بحث کرنے سے بھی قاصر رہی۔
جیسا کہ گذشتہ بیس سالوں سے پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والی سینیئر صحافی نیئر علی کہتی ہیں کہ ’رجیم چینج کے بعد اجلاس کی کوریج کرتے ہوئے ہم صحافی کہتے تھے کہ یہاں تو مزا ہی نہیں آتا، اب اپوزیشن بحث کرتی ہے نہ ڈیسک بجتے ہیں، نہ کہیں بلوں کی کاپیاں پھٹ رہی ہیں نہ کوئی اعتراض اٹھا رہا ہے۔ بس سب کچھ آرام سے ہو رہا تھا۔ اس لیے یہ پانچ سال بہت عجیب تھے۔ پی ٹی آئی کے وقت ہم نے لوگوں کو ڈیسک پر چڑھتے، بلوں کی کاپیاں پھاڑتے، گالم گلوچ کرتے سنا، سیر حاصل بحث تو تب بھی نہیں ہوتی تھی، اور قانون سازی پر بحث اس اسمبلی میں بھی نہیں ہوئی کہ اپوزیشن تو بس نام کی اپوزیشن تھی۔‘
یہیں موجود ایک اور سینیئر صحافی ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ ان پانچ سالوں کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھا جائے گا: ’خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف نوے کی دہائی کی سیاست واپس لائی جب اراکین اسمبلی ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے نہ ہی اس ہاؤس کے تقدس کا خیال تھا۔ پارلیمان مچھلی منڈی بن جاتی تھی، یہی حال پی ٹی آئی کے دور میں ہوا۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا تھا، یہاں تک کہ سپیکر قومی اسمبلی رولز کے خلاف کام کرتے رہے۔ اکثر کورم ہی پورا نہیں ہوتا تھا، مگر اجلاس چلتا رہتا تھا۔‘
صحافی اور خود اراکین قومی اسمبلی نے دور حکومت ختم ہونے کے ان آخری دنوں میں جلد بازی میں کی گئی قانون سازی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ قانون سازی کے دوران قوانین کا ہی خیال نہیں رکھا گیا، کمیٹیوں کی بجائے بلز براہ راست اسمبلی میں پاس ہوئے۔
’سو سو صفحوں کے بل بھی ایک منٹ میں پاس کر دیے اور اراکین کو یہ تک نہیں پتا تھا کہ وہ کیا پاس کروا رہے ہیں۔ قانون سازی کے نام پر جو آخری دنوں میں ہوا، وہی جمہوریت سے بہترین انتقام ہے۔‘