کے ٹو پر تین گھنٹے تک رسی سے لٹکے رہنے والے محمد حسن: ’جاتے ہوئے انھیں زندہ دیکھا، واپسی پر لاش سے گزر کر آئے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 09, 2023

’محمد حسن اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لیے کے ٹو پر گئے تھے۔ وہ زمینداری کے ساتھ ساتھ اونچائی پر پورٹر کے فرائض انجام دیتے تھے۔ جب انھیں کے ٹو پر فرائض انجام دینے کا موقع ملا تو بہت پرجوش تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اس سے ان کے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ پر ہلاک ہونے والے ضلع شگر کے گاؤں تھاماتھو سے تعلق رکھنے والے محمد حسن کے قریبی عزیز محمد اسلم کا۔

35 سالہ محمد حسن نے سوگواروں میں بیوہ اور تین بچے چھوڑے ہیں۔ جن کی عمریں چھ سال سے لے کر دو سال تک ہیں۔

گلگت بلتستان حکومت نے اس واقعہ کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ رابطہ قائم کرنے پر تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی اس پر کوئی بات نہیں کرسکتے ہیں تاہم گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت نے محمد حسن کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین کرتے ہوئے بہادر کوہ پیما قرار دیا ہے۔

محمد اسلم تھاماتھو ہی میں سکول ٹیچر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ محمد حسن کا اپنا گھر نہیں تھا اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتے تھے۔

’جب کے ٹو پر ان کو کام ملا تو وہ مجھے ملنے کے لیے آئے اور کہا کہ یہ بہت اچھا ہو گیا۔ اب میں اپنے لیے الگ گھر بنا سکوں گا۔ ماں بیمار رہتی ہیں، ان کا علاج کراؤں گا اور اپنے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت دلا سکوں گا۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ محمد حسن کا یہ کے ٹو پر پہلا مشن تھا جبکہ اس سے پہلے انھوں نے دیگر چوٹیوں پر فرائض ادا کیے ہوئے تھے۔

’جاتے ہوئے محمد حسن کو زندہ دیکھا، واپسی پر لاش سے گزر کر آئے‘

محمد حسن کے حوالے سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کے ٹو کے بوٹل نیک پر کوہ پیماؤں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے اور وہاں محمد حسن کی لاش پڑی ہے۔ تمام کوہ پیما اس لاش کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔

محمد عارف بلتستانی کوہ پیماؤں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔ انھوں نے اس واقعہ کے حوالے سے کئی پاکستانی کوہ پیماؤں سے بات کی ہے، جو اس مشن پر محمد حسن کے ساتھ پورٹر کے فرائض ادا کر رہے تھے۔

محمد عارف بلتستانی بتاتے ہیں کہ انھیں بشیر علی نے بتایا کہ محمد حسن کے ٹو پر فرائض ادا کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش تھے۔ اس سے قبل انھوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند کوئی چوٹی سر نہیں کی تھی۔ جس وجہ سے وہ بہت زیادہ پرجوش نظر آرہے تھے۔

جب مشن شروع ہوا تو محمد حسن اس کی عملاً قیادت کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بشیر علی نے مجھے بتایا کہ پہلے دن انھوں نے اپنا کچھ سامان بھی نیچے پھینک دیا تھا۔ کیمپ فور سے اوپر پہنچے تو اس وقت محمد حسن رسی پر چڑھ رہے تھے کہ پتا نہیں کیا ہوا اور کیسے ہوا یہ رسی سے نیچے پھسلپڑے اور رسی سے الٹے لٹک گئے۔

محمد مشتاق بھی اس مہم میں محمد حسن کے ساتھ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ’ہم محمد حسن سے تھوڑا پیچھے تھے۔ کے ٹو کی چوٹی تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔ محمد حسن اوپر جا رہے تھے کہ اچانک پتا نہیں کیا ہوا۔ ان کا ہاتھ پھسلا یا رسی ڈھیلی ہوئی کیا ہوا اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ وہ دس بارہ میڑ نیچے پھسل گئے۔‘

ایک اور کوہ پیما کا کہنا تھا کہ اس دن کے ٹو کے بوٹل نیک پر کم از کم پانچ برفانی تودے بھی گرے تھے۔ ’ایک برفانی تودے نے مجھے اور میری ٹیم کو زخمی بھی کیا تھا مگر خوش قسمتی سے ہم بچ گئے تھے۔ ہم نے مہم کے دوران محمد حسن کو زندہ دیکھا تھا مگر جب ہم مہم سے واپس آئے تو ہمیں اس کی لاش پر سے گزرنا پڑا تھا۔‘

’محمد حسن تین گھنٹے تک رسی سے لٹکے رہے‘

محمد عارف بلتستانی کا کہنا ہے کہ مجھے ان کے ساتھ موجود کوہ پیما بشیر علی نے بتایا کہ وہ ایک انتہائی خوفناک اور عجیب و غریب صورتحال تھی۔

’محمد حسن تین گھنٹے رسی پر لٹکے رہے اور اس دوران وہ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں دیتے رہے مگر وہاں پر ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ ہمارے پاس ایسے کوئی آلات نہیں تھے کہ ان کی مدد کرسکتے۔¬

محمد مشتاق کہتے ہیں کہ تین گھنٹے کے بعد ایک غیر ملکی کوہ پیما وہاں پہنچے، جنھوں نے اپنے پاس موجود پلی کی مدد سے محمد حسن کو کھینچ کر نکالا مگر انھیں زندہ نہیں بچایا جا سکا۔

ایلی پیپر کا تعلق آسڑیلیا سے ہے۔ وہ ایک اور ٹیم کے ہمراہ وہاں پر پہنچے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب میں موقع پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک کوہ پیما الٹا لٹکا ہوا ہے۔

’اس موقع پر میں نے اپنے پاس موجود پلی کی مدد سے ان کو کھینچا اور اوپر کی طرف لایا۔ اس کے بعد ’سی پی آر‘ کے ذریعے محمد حسن کی سانس بحال کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس وقت تک دم توڑ چکے تھے۔‘

احمد حسن کا تعلق بھی شگر سے ہے۔ انھوں نے اس سال کے ٹو کو پہلی مرتبہ سر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ایلی پییر نے محمد حسن کو پلی کے زریعے سے اوپر کھینچ کر لایا تو وہ دم توڑ چکے تھے۔ مصنوعی طریقے سے بھی سانس بحال کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔‘

ایک اور کوہ پیما کا کہنا تھا کہ محمد حسن نے تین گھنٹے بڑے حوصلے اور جرات کے ساتھ اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد کی۔

’تین گھنٹے تک رسی پر الٹا لٹک کر اس کو تھامے رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ بندہ رسی پر چند منٹ بھی نہیں لٹک سکتا۔ اس دوران وہاں پر سردی بھی تھی اور حالات بھی خراب تھے۔ محمد حسن رسی پر لٹکے ہوئے تو زندہ رہے مگر جب ان کو ریسیکو کیا گیا تو وہ نہیں بچ سکے۔

’اونچائی پر مدد نہیں بلکہ تربیت اور آلات کام آتے ہیں‘

ریکارڈ یافتہ کوہ پیما سرباز خان کا کہنا ہے کہ کے ٹو اور اس جیسے دیگر پہاڑوں پر کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔

’اگر کچھ کام آتا ہے تو وہ صرف تربیت کام آتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی نظام بھی موجود نہیں، جس میں کوہ پیمائی کی تربیت دی جائے، ان کے پاس جدید اور حفاظتی آلات ہوں، کوہ پیماوں کا مسقبل محفوظ رکھنے کا انتظام ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ محمد حسن پہلی مرتبہ آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹی کے لیے نکلے تھے۔ ’ہو سکتا ہے انھیں کچھ اور چوٹیوں کا تجربہ ہو مگر کے ٹو کچھ مختلف ہے۔ ان کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو تربیت فراہم کی جاتی، ان کو بتایا جاتا کہ جب ساڑھے سات ہزار اور آٹھ ہزار پر پہنچو گے تو وہاں پر کس طرح رکنا اور چلنا ہے۔‘

سرباز خان کا کہنا تھا کہ ساڑھے سات ہزار کے بعد اور آٹھ ہزار پر جسم میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ’ان سے کیسے نمٹنا ہے، کسی حادثے میں کیا کرنا ہے، یہ سب دنیا بھر میں تربیت کا حصہ ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں۔ محمد حسن جرات مند تھے مگر آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر کیا کرنا ہے وہ نہیں جانتے تھے۔‘

سرباز خان نے اس واقعہ پر اتنہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک چیز سمجھنا ہو گی کہ آٹھ ہزار میڑ کی بلندی ہو، برف بوش پہاڑ ہو اور پھر وہ کے ٹو کا بوٹل نیک ہو جو ویسے ہی انتہائی خطرناک ہے تو اس موقع پر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔

’آٹھ ہزار میٹر سے بلندی پر اگر اپنے آپ ہی کو سنبھال لے تو یہ بڑی بات ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آٹھ ہزار میڑ پرلاش ہو یا انسان وہاں پر کسی کی مدد کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ مواقع پر اگر کچھ آلات ہوں تو ان سے مدد ممکن ہوسکتی ہے، جیسے ایک آسڑیلین کوہ پیما نے محمد حسن کو کھینچا تھا۔ ’

اب جو کوہ پیما محمد حسن کے پاس سے گزر رہے تھے وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔‘

احمد حسن کا کہنا تھا کہمحمد حسن کی لاش کے پاس سے گزرتے ہوئے کوہ پیما بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ کئی ایک خواتین کوہ پیما کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے مگر وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔

محمد حسن کے لواحقین کو دو لاکھ انشورنس کے ملے

محمد حسن جس مہم جوئی پر تھے، یہ نیپال کی کمپنی سیون سمٹ کلب کا میگا پراجیکٹ تھا۔ اس میگا ایونٹ میں ان کی معاونت پاکستانی کمپنی ’لیلی پیک‘ کررہی تھی۔

لیلی پیک کے سید انور کا کہنا تھا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ محمد حسن کے ٹو پر پہلی مرتبہ گئے تھے مگر اس سے پہلے ان کو اونچائی پر پورٹر کا تجربہ تھا۔

’ان کی قابلیت، شوق اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کی خواہش پر ان کو موقع دیا گیا تھا۔ ہر کوہ پیما کبھی نہ کبھی تو پہلی مرتبہ کسی چوٹی پر جاتا ہی ہے۔‘

سید انور کا کہنا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ محمد حسن کو حفاظتی لباس وغیرہ فراہم نہیں کیا گیا تھا۔

’کمپنی نے ان کو حفاظتی لباس اور دیگر آلات کے لیے اڑھائی لاکھ روپیہ ادا کیا تھا۔ اس مشن پر ان کو ایک دن کا چھ ہزار روپیہ ملنا تھا، یہ کوئی پچاس دن کی مہم جوئی تھی جبکہ دو لاکھ انشورنس تھی۔‘

سید انور کا کہنا تھا کہ ’کمپنی نے تمام حفاظتی اقدامات کیے تھے جو ممکن تھے۔ اب حکومت نے اس پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ ہم حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی میں پورا تعاون کریں گے۔‘

سرباز خان کا کہنا تھا کہ ہم طویل عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ایڈوینچر ٹورارزم کو فروغ دینا ہے اور اس میں نیا خون چاہیے تو ہمیں سسٹم بنانا ہو گا۔

’کوہ پیماؤں کی بہتر انشورنس کا انتظام کرنا ہوگا۔ یہاں پر تو اگر کوئی کوہ پیما زخمی ہوجائے تو اس کو اپنا علاج خود کروانا پڑتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More