گھریلو ملازمہ تشدد کیس: جج کی اہلیہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، ’میڈیا ہائپ کی بنیاد پر ملزمہ کا ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا‘

بی بی سی اردو  |  Aug 08, 2023

Getty Images

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں مرکزی ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

اس کیس کی سماعت مقامی عدالت کی جج شائستہ کنڈی نے کی۔ دوران سماعت پولیس نے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انھیںمزید تفتیش کی غرض سے ملزمہ کی کسٹڈی مطلوب ہے کیونکہ ملزمہ سے چند ویڈیوز اور بچی کو دی گئی تنخواہ کی رسیدیں برآمد کروانی ہیں۔

اس پر جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ خاتون کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟ اس پر پولیس کے نمائندے نے جواب دیا کہ خاتون کا جسمانی ریمانڈ اس وقت ہوتا ہے جب وہ قتل یا پھر ڈکیتی کی کسی کارروائی میں ملوث ہو۔

اس جواب پر عدالت نے دوبارہ استفسار کیا کہ اس کیس کی ایف آئی آر میں ملزمہ پر کون سی دفعات لگیں ہیں؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس کیس میں اقدام قتل کی دفعہ 324 لگی ہوئی ہے۔

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ 324 قتل کی کوشش کرنے پر لگتی ہے جبکہ جسمانی ریمانڈ صرف دو نوعیت کے کیسز، قتل کرنے اور ڈکیتی جیسے جرم، میں ملتا ہے۔ جج شائستہ کنڈی نے مزید کہا کہ وہ ’میڈیا ہائپ‘ کی بنیاد پر ملزمہ کا ریمانڈ نہیں دے سکتیں۔

اس پر استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسران کو ابھی ویڈیوز کا جائزہ لینا ہے اور بچی کو جو تںخواہ بطور ملازمہ دی گئی ہے اُس کی رسیدیں برآمد کروانی ہیں، جس کے لیے جسمانی ریمانڈ ضروری ہے۔

تاہم جج نے ریمارکس دیے کہ ’آپ ویڈیوز تو ملزمہ کے بغیر ہی برآمد کر سکتے ہیں۔‘

اس موقع پر ملزمہ نے جج کو آگاہ کیا کہ وہ پولیس سے ہر طرح کا تعاون کر رہی ہیں۔ انھوں نے جج کو بتایا کہ وہ تین بچوں کی ماں ہیں جبکہ انھوں اس کیس میں بننے والی جے آئی ٹی میں تفتیش کے نام پر رات ساڑھے گیارہ بجے تک بٹھایا گیا۔

انھوں نے عدالت کے روبرو الزام عائد کیا کہ انھیں تفتیش کے نام پر ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے ملزمہ کمرہ عدالت میں ہی رو پڑیں۔

اس پر عدالت نے پولیس کے نمائندہ سے استفسار کیا کہ کیا واقعی ان کی رویہ ایسا ہی تھا جیسا ملزمہ بیان کر رہی ہیں؟ اس پر پولیس نے تردید کی۔

عدالت نے ملزمہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ وویمن تھانے میں تھیں؟ جس پر انھوں نے بتایا کہ ’مجھے کل ایک گھر میں لے کر گئے، وہاں سے چیزیں اکٹھی کی ہیں۔ اس دوران استغاثہ کے وکیل نے آگاہ کیا کہ زیادہ تر شواہد اکھٹے ہو چکے ہیں۔

جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کے عدالت قانون کے مطابق کسی خاتون سے غروب آفتاب کے بعد تفتیش نہیں کی جا سکتی اور یہ تفتیش بھی خاتون لیڈی اہلکار کی موجودگی میں کی جا سکتی ہے۔

اس موقع پر استغاثہ نے عدالت سے قانون کے مطابق ریمانڈ سے متعلق فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دیکھا جائے تو ملزمہ کی حد تک تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور استغاثہ کے وکیل کے بیان کے بعد اب جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں رہی۔

اس دوران ملزمہ ایک مرتبہ پھر روسٹرم پر آئیں اور کہا کہ ان کا اتنا بُرا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا کہ ان کا دل کرتا ہے کہ وہ خودکشی کر لیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا اس کیس میں ایسا کوئی کردار نہیں جیسا میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ملزمہ نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ وہ اپنی فیملی سے ملنا چاہتیں ہیں جس پر جج شائستہ کنڈی نے انھیں 10 منٹ کی اجازت دے دی۔

کچھ دیر بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔

عدالت نے انھیں دوبارہ 22 اگست کو پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

دوسری جانب ملزمہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے جانے کے بعد اب وہ اُن کی ضمانت کی درخواست دائر کریں گے۔

گذشتہ سماعت پر کیا ہوا تھا؟BBC

یاد رہے کہ پیر کے روز اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں مرکزی ملزمہ کی ضمانت میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

پیر کے روز اس کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج فرید بلوچ کی عدالت میں ہوئی تھی جہاں ملزمہ کے وکلا نے ضمانت میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ یاد رہے کہ اس کیس میں مرکزی ملزمہ آٹھ اگست تک ضمانت پر تھیں۔ دو اگست کو ان کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے عدالت نے انھیں شامل تفتیش ہونے کی ہدایات جاری کی تھیں اور 8 اگست کو انھیں دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

ضمانت کی منسوخی کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا تھا۔

گرفتار کیے جانے کے بعد انھیں ویمن پولیس سٹیشن میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

گذشتہ سماعت پر ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ اس سلسلے میں بننے والی جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا جبکہ ریکارڈ میں بھی پولیس نے لکھا کہ ملزمہ نے تشدد نہیں کیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جب بچی والدین کے حوالے کی گئی تو وہ ٹھیک ٹھاک تھی۔

ملزمہ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ بچی کے والدین کو بارہا واپس بھیجنے کو کہا گیا تھا مگر وہ لے جانے سے انکاری رہے۔

ملزمہ کے وکیل نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس کے تفتیشی افسر نے ویڈیو حاصل کی، بس سٹاپ پر بچی کی تین گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے؟

ملزمہ کے وکیل کی استدعا پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ویڈیو حاصل کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ تفتیشی افسر کا کام دونوں سائیڈ سے ثبوت حاصل کرنا ہے۔

دوران سماعت کمرہ عدالت میں ویڈیو بھی دکھائی گئی جس کے بعد وکیل صفائی نے کہا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملازمہ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہے اور گاڑی کی بیک سیٹ پر ملزمہ اور ملازمہ کی والدہ بیٹھی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھی ملازمہ پر اس کی والدہ نے تشدد کیا اور تین چار مکے بھی مارے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔

ملزمہ کے وکیل کے مطابق ان کی موکلہ پر جھوٹا الزام لگایا گیا اور عدالت سے پہلے ہی ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ جو کہانی بنائی گئی وہ جھوٹی ثابت ہو رہی ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ بچی کی جلد پر الرجی تھی جس کی دوا لینے کی فارمیسی سلپ بھی موجود ہے۔

وکیل صفائی کے دلائل مکمل ہونےکے بعد مدعی وکیل نے ملزمہ کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے تو اُس کو ضمانت دے دی جائے؟انھوں نے کہا کہ ’اس طرح تو جرائم پیشہ لوگ پھر ایسے ہی کریں گے، خواتین سے جرم کروا کے اس قانون کا سہارا لیں گے۔‘

مدعی وکیل نے دلائل میں کہا کہبچی کے والدین پر الزام لگایا گیا کہ جج کی اہلیہ کو بلیک میل کر رہے ہیں، حقیقت یہہے کہ بچی کے والدین سے رابط کیا گیا اور پیسوں کی آفر کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار نہیں، بچی پر کئی بار تشدد کیا گیا۔ ’کمسن بچی کی عمر 13 سے 14 سال ہے، سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کمسن ملازمہ رکھنا جرم ہے۔‘

پراسیکیوٹر وقاص احمد نے دلائل میں کہا کہ قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو عورت کو ضمانت نہیں ملتی۔طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو 14 زخم آئے ہیں۔ بچی کیکھوپڑی کی دائیں، بائیں اور پچھلے حصے میں انجری ہے جبکہ بچی کی آنکھوں، گال، ہونٹوں اور کمر پر بھی انجریاں ہیں۔

اس موقع پر بچی کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئیں۔

دلائل کے اختتام پر پراسیکوٹر وقاص حرل نے ملزمہ کی گرفتاری کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے پولیس کو انھیں حراست میں لینے کا فیصلہ جاری کر دیا۔

جج فرخ فرید بلوچنے حکم سنانے کے بعد ملزمہ کو کمرہ عدالت سے باہر لےجانے کی ہدایت کی اور کہا کہ’میرے لیے بھی مشکل ہے کیونکہ یہ میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں مگر جہاں انصاف کی بات ہو گی تو میں نے انصاف کرنا ہے۔‘

ایف آئی آر اور میڈیکل رپورٹ میں کیا کہا گیا تھا؟Getty Images

اس کیس کی ایف آئی آر متاثرہ بچی کے والد کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ چھ ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کی والد کی جانب سے مذکورہ سول جج کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ اس پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔‘

مقدمے کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا ہے کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔

والد کے مطابق ملازمت پر جانے کے بعد ان کا کئی ماہ تک اس سے رابطہ بذریعہ فون ہوتا تھا تاہم چند روز قبل جب وہ بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔

ایف آئی آر میں والد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے ’جب ہم نے اس کمرے کا رخ کیا تو وہاں سے بچی زخمی حالت میں موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی۔‘

ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘

سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا تھا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم کے 15 مقامات پر زخموں کے نشانات ہیں۔ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘

میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More