پاکستان میں الیکشن: قومی اسمبلی کی تحلیل 9 اگست کو، عام انتخابات کب ہوں گے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 07, 2023

Getty Images

پاکستان میں سب کی نظریں آنے والے عام انتخابات پر ہیں لیکن ان کا انعقاد کب ہو گا اس بارے میں اب بھی کافی ابہام پایا جاتا ہے۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونی ہے تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ اسمبلی مقررہ مدت سے تین دن قبل نو اگست کو ہی تحلیل کر دی جائے گی۔

آئین کے آرٹیکل (1) 224 کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔

ملک میں گذشتہ عام انتخابات سنہ 2018 میں ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں بنائی تھیں۔

تاہم 10 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹ گئے تھے اور مرکز میں ان کی جگہ ن لیگ کی سربراہی میں پی ڈی ایم اتحاد نے لے لی تھی۔

حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد سے تحریکِ انصاف نے احتجاجی سیاست کے آغاز کے ساتھ فوری الیکشن کا مطالبہ کیا تھا۔ اس دوران پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں میں حکومتیں تحلیل کرتے ہوئے یہاں آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے مئی میں الیکشن کے واضح احکامات کے باوجود متعدد وجوہات کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور تاحال دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں قصور میں اپنی ایک تقریر میں نو اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد یقیناً آپ کے ذہن میں بھی یہ بات آئی ہو گی کہ اسمبلیاں تحلیل پہلے ہوں یا بعد میں اس سے کیا فرق پڑے گا؟ کیا انتخابات مؤخر کرنے کے حوالے سے آئین میں گنجائش موجود ہے؟

الیکشن 60 روز میں ہوں گے یا 90 روز کے اندر؟Getty Images

واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52 میں قومی اسمبلی کی مدت کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔ اس میں درج ہے کے قومی اسمبلی کی مدت پانچ برس ہے۔

یہ مدت کسی حکومت کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی ہے جس کا آغاز ہر پانچ سال بعد الیکشن کے باعث ہوتا ہے اور اگر اسے مدت سے پہلے تحلیل نہ کر دیا جائے تو یہ مدت پوری ہونے پر خودبخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔

اسی طرح اگر حکومتیں تحریکِ عدم کے ذریعے ختم ہو سکتی ہیں، تاہم ان کی جگہ لینے والی حکومت بھی صرف موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک ہی کام کر سکتی ہے۔

آئینی ماہر اور پاکستان میں الیکشن کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہییں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔‘

جب مدثر رضوی سے ہم نے پوچھا کہ مختلف دورانیے مختص کرنے کا کیا مقصد ہے تو انھوں نے بتایا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں الیکشن کمیشن کو پہلے سے پتا ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے تیاری کر رکھی ہوتی ہے لیکن اگر ایک دم سے یہ فیصلہ سامنے آتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوتا لہذٰا انھیں مزید وقت درکار ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ’قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً دس لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے۔‘

الیکشن کا اعلان کون کرے گا؟

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ کے اواخر میں پارلیمان سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پاس کروایا گیا تھا جس کے بعد الیکشن کی تاریخ کے اعلان کا مکمل اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا تھا اور اس کے لیے ادارے کو صدر کی منظوری بھی درکار نہیں ہو گی۔

اس سے قبل صدر پاکستان الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرتے تھے اور الیکشن کمیشن اس تاریخ کے مطابق انتخابی شیڈول بناتا تھا۔

گذشتہ ماہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی گئی تھی جن میں سے ایک سیکشن 57 (1) میں ترمیم بھی تھی جس الیکشن کمیشن کو الیکشن کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیا گیا ہے۔

اسی طرح الیکشن ایکٹ کے سیکشن 58 (1) میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت اگر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن کے پاس میں الیکشن پروگرام میں تبدیلی یا الیکشن کی نئی تاریخ دینے کا مکمل اختیار ہو گا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے رواں سال مارچ میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ آٹھ اکتوبر رکھی تھی۔

تاہم چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کروانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو کروائے جائیں خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے بارے میں مناسب فورم پر فیصلہ کیا جائے گا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کروانے کے 22 مارچ کے حکمنامے کو ’غیرآئینی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے ’دائرہ اختیار سے تجاوز‘ کیا۔

تاہم 14 مئی کی تاریخ گزرنے کے بعد جب سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے حوالے سے سماعتوں کا آغاز کیا گیا تو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ نظرِ ثانی ایکٹ لایا گیا جس کے بعد اس مقدمے پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

Getty Imagesالیکشن کس صورت میں مؤخر ہو سکتے ہیں اور اگر یہ وقت پر نہ ہوئے تو کیا ہو گا؟

خیال رہے کہ ماضی میں غیرمعمولی حالات کو وجہ بتا کر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بار سنہ 1988 میں جب ملک میں سیلاب آیا تھا جبکہ دوسری بار 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ واضح رہے کہ بینظیربھٹوکے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔‘

تاہم الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ تاریخ 90 دن کی مدت سے زائد ضرور تھی مگر سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے الیکشن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔

تاہم یہ التوا کس صورت میں کیا جا سکتا ہے اس بارے میں قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس حوالے سے آئین میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے اور اس حوالے اوپر دی گئی ماضی کی مثالوں کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کر چکا ہے۔

لوگوں میں یہ خدشہ بھی پایا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن 60 یا 90 دنوں میں الیکشن کروانے میں ناکام رہا تو ایسی صورت میں کیا ہو گا؟

ماہر قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں ’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین میں فرق ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 یہ کہتی ہے کہ آئین میں اگر کسی کام کا وقت مقرر ہو اور وہ اس وقت پر نہ ہو سکے تو وہ کام خراب نہیں ہوتا۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔‘

’اگر قانون کے تحت کسی بھی کام کا وقت مقرر ہو اگر آپ وہ کام اتنے دنوں میں نہیں کریں تو وہ غیر قانونی ہو گا، غلط ہو گا اور اسے اگر نہ کیا تو اس میں سزا ملے گی تو اس کام کو اتنے دنوں میں کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ مینڈیٹری ان نیچر ہوتا ہے۔‘

’رولز کے مطابق اگر کسی کام میں یہ بتایا جائے کہ آپ کو اتنے دنوں میں یہ کام کرنا ہے لیکن اس کی تاخیر میں سزا یا جرمانے کا ذکر نہ ہو تو وہ ڈائریکٹری ان نیچر ہوتا ہے تو 90 روز میں انتخابات ڈائریکٹری اِن نیچر ہے جس میں وہ کام ضرورتاً آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور اس میں قباحت نہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ اس کام میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن کوشش کریں کہ کم سے کم وقت آگے جائے۔۔۔ گویا انھوں نے بات طے کر دی۔‘

بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More