گلزار اور دولت کی کہانی: ’شادی کے بعد پتا چلا یہ انڈین نہیں بلکہ پاکستانی پنجاب سے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 07, 2023

BBCگلزار خان اور دولت بی کی کہانی 2009 میں شروع ہوئی جب گلزار نے ایک غلط نمبر پر فون ملایا

گلزار اور دولت کی محبت کی کہانی کسی بالی وڈ فلم سے کم نہیں جو ایک ’رانگ نمبر‘ پر اتفاقیہ طور پر کی گئی فون کال سے شروع ہوئی۔

ایک ایسے وقت میں جب انڈیا اور پاکستان میں سیما حیدر اور انجو کی محبت کی کہانیاں زیرِ بحث ہے، انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں سرحد پار محبت کی ایک اور کہانی منظر عام پر آئی ہے۔

اس کہانی کے دو کردار ہیں: پاکستان سے تعلق رکھنے والے گلزار خان اور انڈیا کی دولت بی۔ یہ دونوں اب نندیال ضلع کے گادی ویمولہ گاؤں میں پانچ بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں جس کے لیے دونوں کو کئی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔

گلزار خان 2011 میں انڈیا میں داخل ہوئے تھے لیکن آٹھ سال بعد شہریت سے متعلق مختلف الزامات میں انھیں دو بار جیل جانا پڑا۔ گذشتہ ماہ تلنگانہ ہائیکورٹ نے گلزار کی ملک بدری کے کیس کا فیصلہ ہونے تک انھیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

’فون پر بات ہوئی تو گلزار ایک اچھے انسان لگے‘

گلزار خان اور دولت بی کی کہانی 2009 میں شروع ہوئی جب پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے گلزار سعودی عرب میں پینٹنگ کنٹریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے انڈیا میں موجود ایک کولیگ کو فون کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو چند ماہ قبل چھٹی پر انڈیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے چھٹی پر انڈیا روانہ ہوتے وقت ان کے کولیگ نے انھوں درخواست کی تھی کہ وہ رابطے میں رہیں۔

کولیگ کی یہی بات ذہن میں رکھتے ہوئے گلزار نے انھیں فون کیا لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ گلزار کا کہنا ہے کہ انھوں نے سوچا کہ شاید انھوں نے اپنے ساتھی کا نمبر غلط نوٹ کیا تھا اور اس لیے انھوں نے کچھ ملتے جلتے نمبروں پر کال کرنے کی کوشش کی۔

اسی کوشش کے دوران تقدیر نے ان کا رابطہ دولت بی سے کروا دیا جو اب انڈیا کے ایک مقامی سکول میں کام کرتی ہیں۔

گلزار نے دولت بی کو فون کر کے بتایا کہ ان کا نام گلزار خان ہے اور وہ پنجاب کے رہنے والے ہیں۔

اتفاقی طور پر ملنے والی یہ کال اور بات چیت جلد ہی محبت میں بدل گئی۔

یہ دونوں تین سال تک باقاعدگی سے فون پر بات کرتے رہے جس کے بعد گلزار نے دولت کو شادی کی پیشکش کر دی۔ تاہم اس وقت دولت بی ذہنی دباؤ سے دوچار تھیں۔

دولت نے بی بی سی کو بتایا ’میں نے ان سے بہت دن تک جھوٹ بولا کہ میرے شوہر ہیں، میرے چار بچے ہیں۔ لیکن انھوں کہا کہ میں اپنے شوہر اور بچوں سے ان کی بات کراؤں۔‘

حقیقت یہ تھی کہ دولت بی کے شوہر کی کچھ عرصہ قبل وفات ہو گئی تھی۔ ان کے مطابق انھیں گلزار ’باتوں سے ایک اچھے انسان لگے اور دھیرے دھیرے مستقبل میں ایک ممکنہ ساتھی کے طور پر نظر آنے لگے۔‘

اسی دوران ان کے پڑوسی اور جاننے والے ہر وقت گلزار کے ساتھ فون پر رہنے کی وجہ سے انھیں طعنے دینے لگے۔

دولت بی کہتی ہیں کہ ’میں نے ان کو بتایا کہ لوگ مجھے طعنے دے رہے ہیں۔ اچھا ہے کہ میں مر جاتی ہوں۔ لیکن اُنھوں کہا کہ میرے واسطے مت مرنا، میں کسی بھی طرح وہاں آتا ہوں۔‘

اس کے بعد گلزار نے جو کیا وہ واضح طور پر غیر قانونی تھا۔ وہ اس سے واقف تھے اور انھوں نے خود اس کا اقرار کیا ہے۔

گلزار کے لیے اصل چیلنج یہ تھا کہ وہ ایک پاکستانی شہری ہیں جبکہ انڈیا اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات اس قدر تلخ ہیں کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے شہریوں کا داخل ہونا کوئی آسان کام نہیں۔

گلزار کا کہنا ہے کہ انھوں نے شادی کے لیے انڈیا کا ویزا لینے کی کئی بار کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

BBCگلزار انڈیا میں کیسے داخل ہوئے؟

گلزار نے بتایا کہ انھوں نے ایک جاننے والے انڈین شہری کا شناختی کارڈ لیا۔ شناختی کارڈ لے کر وہ مقامی پولیس کے پاس گئے اور اس کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ وہ انڈین شہری ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میں نے ان سے کہا کہ یہ میرا کارڈ ہے، میرا پاسپورٹ کھو گیا ہے۔ میں انڈین ہوں، انڈیا واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں یہاں نوکری کرنے کے لیے آیا تھا۔‘

ان کے مطابق اس بات پر سعودی پولیس نے انھیں قید میں ڈال دیا جہاں وہ 12 دن بند رہے۔

سعودی عرب میں بڑی تعداد میں انڈین اور پاکستانی شہری قانونی طور پر کام کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ غیر قانونی راستے بھی اختیار کرتے ہیں جنھیں حکومت وقتاً فوقتاً ملک بدر کرتی رہتی ہے۔

گلزار کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں انڈین سفارتخانے نے انھیں ایک عارضی پاسپورٹ جاری کیا اور انھیں تقریباً 160 افراد کے ساتھ ممبئی واپس بھیج دیا۔

وہ اس سے پہلے بھی انڈیا آنے کے خواہاں تھے کیونکہ انھوں نے دیکھا تھا کہ بعض انڈین وزٹ ویزا پر پاکستان کا دورہ کر لیتے ہیں۔ انھوں نے اپنا خواب ایک ایسے طریقے سے پورا کیا جس نے انھیں مشکل میں ڈال دیا تھا۔

انڈین پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ گلزار نے ’اقبال پور کے رہائشی محمد عادل کی دستاویزات میں جعلسازی کی، اسے جعلی طریقے سے اصلی دستاویز کے طور پر استعمال کیا، ایمرجنسی سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور 10 جنوری 2011 کو انڈیا میں داخل ہوئے۔‘

گلزار ان الزامات سے انکار نہیں کرتے۔

’خود اپنے آپ کو انڈین سمجھنے لگا تھا‘

ممبئی ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد انھوں نے دولت بی کے گھر کے قریب ترین شہر حیدرآباد کے لیے ٹرین پکڑی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس صرف 150 ریال تھے، جو میں نے ممبئی کے ہوائی اڈے پر انڈین روپے میں تبدیل کرائے۔ جب تک میں دولت بی کے گھر پہنچا، میرے پاس ابھی بھی تقریباً 500 روپے باقی تھے۔‘

گلزار نے انڈیا آنے کے تقریباً دو ہفتے بعد دولت بی سے شادی کر لی۔ اس سے قبل ایک بار وہاں دولت بی کے رشتے داروں کی شکایت پر پولیس نے گلزار سے پوچھ گچھ کی لیکن اس کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا اور کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔

دولت بی کے لیے وہ فرشتے کے مانند تھے۔ ان کے والدین، شوہر اور بڑے بھائی کی ایک کے بعد ایک وفات ہو گئی تھی جبکہ ذہنی طور پر معذور چھوٹا بھائی لاپتہ ہو گیا تھا۔

دولت بی کے مطابق گلزار میں انھیں ایک مثالی شوہر نظر آ رہا تھا کیونکہ وہ انھیں مزاج سے اچھے لگے جو سابقہ شوہر سے ہونے والے بچوں کو بھی اپنے بچوں جیسا سمجھتے تھے۔

دن گزرتے گئے، گلزار اس جگہ سے واقف ہو گئے اور ان کے دولت بی سے مزید چار بچے ہو گئے۔ اس دوران انھوں نے تھوڑی بہت تیلگو زبان بھیسیکھ لی۔ وہ مقامی شراب پینے لگے اور بطور پینٹر دوبارہ کام کرنے لگے۔

گلزار کہتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ’ہندوستانی سمجھنے لگے تھے۔‘

BBCدولت کو پولیس نے بتایا کہ گلزار انڈین نہیں پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں

راولپنڈی میں مقیم گلزار کی بڑی بہن شیلا لال نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بھائی نے کئی سال تک خاندان سے رابطہ معطل کیا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ بھائی کس حال میں ہے اور یہ ڈر رہتا تھا کہ آیا کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوا ہو۔

انھوں نے بتایا کہ اہلخانہ کو لگتا تھا کہ گلزار سعودی عرب میں ہی ہیں لہذا انھوں نے وہاں ان کی تلاش جاری رکھی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق انھوں نے اپنے ایک بھائی کو بھی سعودی عرب گلزار کو ڈھونڈنے کے لیے بھیجا تھا مگر وہ ناکام واپس آیا۔

مگر پھر ایک دن اچانک گلزار نے پاکستان میں اپنی والدہ اور خاندان، جس میں چار بہنیں اور ایک بھائی شامل ہیں، سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ’میں انڈیا چلا گیا ہوں۔‘

دراصل برسوں تک دور رہنے کے بعد گلزار کو اب گھر کی یاد آنے لگی تھے۔ انھوں نے نہ صرف خود اپنے گھر والوں سے بات کی، بالکل اپنی بیوی اور بچوں کی بھی ان سے بات کرائی۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی نئی فیملی کے ساتھ پاکستان جائیں۔

گلزار نے سوچا کہ ’پاکستان جا کر تھوڑا پیسہ لے کر آؤں، یہاں حالت اچھی نہیں ہے۔ گھر بنانا ہے، بچے پڑھ رہے ہیں۔‘

شیلا کہتی ہیں کہ بھائی کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر ’ہمیں ایسی خوشی تھی جسے ہم بیان نہیں کر سکتے۔‘

گلزار 2019 میں پاکستان جانے کے ارادے سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دلی کے لیے نکلے لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ حیدرآباد کے ٹرین سٹیشن پر ریاست تلنگانہ کی پولیس ان کا انتظار کر رہی ہے۔ گلزار کو فوراً گرفتار کر لیا گیا۔

اس معاملے کی تفتیش میں شامل پولیس نے بات کرنے سے انکار کیا ہے تاہم ویب سائٹ ’دی ویک‘ کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کے ذریعے پاکستان میں کی کئی کالز کی نگرانی کر رہی تھیں۔

پولیس نے حراست میں ان سے ان کے ملک کے بارے میں سوالات پوچھے اور انھوں نے یہ قبول کر لیا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ ’میں نے انھیں سب کچھ ایمانداری سے بتایا۔ جب انھیں میری بات پر یقین نہ آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے کچھ فاصلے پر پیشاب کر رہا تھا اور دیکھا کہ آپ لوگوں نے میری فیملی کو گھیر لیا ہے۔ اگر مجھے کچھ غلط کرنا ہوتا تو میں وہاں سے بھاگ جاتا۔ میں آپ لوگوں کے سامنے اپنی مرضی سے آیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگا تو مجھے کس نے مرد بولنا ہے؟ میں نے سوچا میں نے پیار کیا ہے، دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔‘

ان پر انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی)، فارنرز ایکٹ، اور پاسپورٹ ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت جعلی آدھار کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کا جرم عائد کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے کوئی شکوا نہیں ہے۔ میں نے غلطی کی اس کی مجھے سزا ملی۔‘

اسی درمیان دولت بی پولیس اہلکاروں سے جواب طلب کر رہی تھیں۔ پولیس نے انھیں بتایا کہ ان کے شوہر پاکستان سے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’میں ان سے لڑائی کرنے لگی کہ نہیں، وہ پنجاب سے ہیں۔ پھر پولیس والوں نے بتایا کہ نہیں، پاکستان میں بھی پنجاب ہے اور وہ وہیں سے ہیں۔‘

پاکستانی حکام نے گلزار کے اہلخانہ سے پوچھ گچھ کی

اس وقت تک دولت کو معلوم نہیں تھا کہ گلزار پاکستانی پنجاب سے ہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت پاکستانی پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے گاؤں کولووال کی مسیحی بستی سے تعلق رکھتے ہیں۔

دولت بی کو تب یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مسلم نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنا کنیت ’خان‘ بتایا تھا جس کی وجہ سے وہ انھیں مسلمان سمجھ رہی تھیں لیکن گلزار نے حقیقت چھپا کر رکھی تھی کہ ان کا نام دراصل گلزار مسیح تھا۔

مگر یہ جان کر بھی دولت کا ماننا یہ رہا کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے اور اس پر سمجھوتہ کرنے کو تیار تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’کیا فرق پڑتا ہے اس سے کہ وہ مسیحی ہیں۔‘

شیلا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انڈیا میں گلزار کے خلاف مقدمہ درج ہوا تب جا کر انھوں نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا جس پر حکام نے کہا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کریں گے۔ اس کے بعد پولیس تفتیش کی غرض سے ان کے آبائی گھر بھی گئی۔

شیلا کا کہنا ہے کہ ’حکام ہمارے گھر آئے۔ سب سے پوگھ گچھ کی اور پوچھا کیا آپ کا بھائی اُدھر (انڈیا میں) ہے؟ ہم سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے گیا۔‘

ادھر دولت بی نے گھر واپس آ کر گلزار کی ضمانت کے لیے اپنے گاؤں والوں سے مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کیے۔ انھیں ضمانت مل گئی لیکن فروری 2022 میں غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے کی ایک مہم کے دوران انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

دولت بی نے دوبارہ ان کی رہائی کے لیے تقریباً 80 ہزار روپے جمع کیے۔

ان کے وکیل ایم اے شکیل کا کہنا ہے کہ وہ پہلی مرتبہ گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے اور اسے چیلنج کیا گیا تھا کہ جب تک گلزار کے ملک بدری کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ان کی ضمانت کا احترام کیا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ گلزار ’ضمانت پر پہلے سے تھے۔ لیکن ایک الگ گورنمنٹ آرڈر کے تحت ان کو پھر سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ہم نے اس آرڈر کو تیلنگانہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور کورٹ کے آرڈر سے وہ جیل سے باہر آئے۔‘

’اگر مجھے واپس پاکستان بھیجتے ہیں تو ساتھ بیوی بچوں کو بھی لے جانے دیں‘

انڈیا میں جیل سے باہر بھی گلزار کی زندگی غیر یقینی سے دوچار ہے۔ان کے خلاف 2019 میں درج کیس زیر سماعت ہے جو کہ ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔

لیکن وہ اکیلے پاکستان جانے کے بجائے اپنے نئے خاندان کے ساتھ ملک واپس جانے کی امید کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم اکیلے جاؤ، اور پھر واپس آ کر بچوں کو لے جانا۔ میں گیا تو پھر بعد میں کیا ہو گا، کیا معلوم؟ میرے چھوٹے بچے ہیں، پڑھ رہے ہیں، برباد ہو جائیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں ’اگر مجھے اُدھر بھیجتے ہیں تو میرے بچوں کو بھی میرے ساتھ جانے دیں، اگر مجھے ادھر رکھ رہے ہیں تو مجھے بچوں کے ساتھ ادھر ہی رکھ دیں۔ مجھے کوئی آدھار، کوئی پاسپورٹ نہیں چاہیے۔‘

گلزار نے کہا کہ ’میری اس حکومت سے بس اتنی ہے سی درخواست ہے۔‘

مگر اس سب کے باوجود دولت بی گلزار کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More