نواب شاہ کے قریب ٹرین حادثہ: ’میں ٹرین کی کھڑکی سے باہر گِر کر زندہ بچ گیا‘

بی بی سی اردو  |  Aug 06, 2023

EPA

’ٹرین کی تین بوگیاں پٹڑی سے نیچے اتری ہوئی تھیں اور دو بوگیاں بالکل الٹ چکی تھیں۔‘

جب ایدھی فاونڈیشن کے سرکل انچارج رفیق لاشاری صوبہ سندھ میں نواب شاہ سے تقریباً 20 کلو میٹر دور ٹرین حادثے کے مقام پر پہنچے تو ان سمیت امدادی کارکنان کے لیے یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ الٹی ہوئی بوگیوں کے نیچے کئی لوگ پھنسے ہوئے ہوسکتے ہیں۔

یہ حادثہ سانگھڑ میں سرہاڑی ریلوے سٹیشن سے کچھ آگے ایک چھوٹے پُل کے پاس ہوا جہاں ’بہت بُرے حالات تھے۔ ہر کوئی پریشان حال تھا۔ کوئی زخمی حالت میں اپنے گھر کی خواتین اور بچوں کو تلاش کر رہا تھا تو کوئی زخمی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق اس حادثے میں 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

نواب شاہ کے ہسپتال میں مریضوں کی عیادت کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مریضوں کو کراچی یا حیدرآباد منتقل کیا جائے گا۔‘

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اس ٹرین پر قریب ایک ہزار مسافر سوار تھے اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ حادثہ مکینیل فالٹ یا تخریب کاری کی وجہ سے ہوا ہے جس کے بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں گی۔

EPAعینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

حادثے کا شکار ٹرین کی درمیاں والی بوگی میں سوار راشد علی کا تعلق ٹنڈو آدم سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حادثے سے قبل ان کے بچے اور بیوی آرام کر رہے تھے کہ ’اچانک بوگی پٹڑی سے نیچے اتر گئی اور الٹ گئی۔‘

راشد نے بتایا کہ ’چند لمحوں تک تو ہوش ہی نہیں آیا۔ (جب ہوش آیا تو مجھے) اپنی بیوی، بچوں کا خیال آیا اور اپنے سارے زخم بھول گیا۔ اٹھ کر دیکھا تو وہاں میرے بیوی بچے میرے سامنے نہیں تھے۔‘

انھوں نے اپنے اہل خانہ کی تلاش شروع کر دی جو ’خوش قسمتی سے قریب ہی ٹوٹی ہوئی بوگی کی ایک سیٹ تلے دبے ہوئے تھے۔‘

’بیگم اور دو بچے ساتھ ہی تھے۔ وہ چِلا رہے تھے۔ میں نے ان کو حوصلہ دیا اور ان کو نکالا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میں ان کو ہسپتال تک کیسے پہنچاؤں۔ اس موقع پر ایک بائیک والا آیا تو اس نے ہماری مدد کی اور ہم ہسپتال تک پہنچے۔‘

جیکب آباد کے رہائشی اسلم بھی اسی ٹرین پر اپنے بیٹے کے ہمراہ سوار تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سوئے ہوئے تھے کہ یک دم بوگی نیچے اتر گئی اور ایک قیامت برپا ہوگئی۔‘

Reuters

اس حادثے میں انھیں کچھ چوٹیں آئیں مگر بیٹا ’میرے اوپر گِرنے کی وجہ سے‘ محفوظ رہا۔

ٹرین میں سوار نصیر احمد کی منزل راولپنڈی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ٹرین کی بوگی پٹڑی سے اترنے پر میں کھڑکی سے باہر گِر گیا۔‘ یہی وجہ تھی کہ وہ اس حادثے میں زندہ بچ گئے۔

مگر انھیں گرنے سے کچھ چوٹیں ضرور آئیں اور وہ دور تک لڑکھڑاتے ہوئے چلتے رہے۔ ’میں زمین پر گر کر بے حال ہوگیا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کئی خواتین اور بچے بھی زمین پر گرے ہوئے تھے۔ ’وہ چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ اس موقع پر قریب ہی نہر تھی مگر نہر کا پانی گندا تھا۔ میں نے اس نہر میں سے اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا اور جو لوگ بے ہوش تھے، ان کے منھ پر ڈالا تاکہ یہ ہوش میں آجائیں۔‘

نصیر احمد بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو اپنے بیٹے کے پاس بیٹھی چلا رہی تھی کہ ’اٹھو، اٹھو‘ مگر شاید وہ بچہ ہلاک ہوچکا تھا۔ وہ اٹھ نہیں رہا تھا۔‘

ادھر رضاکار رفیق لاشاری نے بتایا کہ ’ہم نے بوگیوں میں سے بیس لاشوں کو نکالا جو بہت بُری حالت میں تھیں۔ ان میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔۔۔ شدید گرمی تھی، جس کی وجہ سے کئی زخمی پانی، پانی چلا رہے تھے۔‘

EPA’میری اہلیہ میرے سامنے زخمی پڑی تھی‘

جیکب آباد کے رہائشی عمیر احمد اس حادثے میں زخمی ہونے کے بعد نواب شاہ کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ حادثے کے بعد ’میں اٹھنے کے قابل نہیں تھا۔ میری ٹانگ زخمی تھی جبکہ سر پر بھی چوٹیں آئی تھیں (مگر) میرے ساتھ میری اہلیہ انتہائی زخمی پڑی تھی۔ وہ مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ میں زور لگا کر اٹھا مگر اس کو باہر نہیں نکال سکا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے جسم میں طاقت نہیں تھی۔ میری اہلیہ کا خون بہہ رہا تھا۔ مجھے اپنی بے بسی پر افسوس ہو رہا تھا۔۔ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا آپ پیچھے ہٹیں ہم کچھ کرتے ہیں۔‘

وہاں موجود تین نوجوانوں نے ان کی اہلیہ کو باہر نکالا اور دونوں کو پانی دیا۔ وہ انھیں گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال بھی لے گئے۔

ایدھی رضا کار سارنگ سندھو بتاتے ہیں کہ اگر سرہاڑی کے لوگ موقع پر نہ پہنچتے تو شاید ہلاکتیں زیادہ ہوجاتیں۔ ان لوگوں نے کئی زخمیوں کو اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر ہسپتال پہنچایا، اپنے گھروں سے پانی اور کھانے پینے کا سامان بھی پہنچایا اور زخمیوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔

علاقہ مکین نصیب زرداری، جنھوں نے امدادی آپریشن میں حصہ لیا، نے بتایا کہ علاقے کے مردوں و خواتین نے نہ صرف متاثرین کو اشیا فراہم کیں بلکہ انھیں بروقت ہسپتال پہنچانے میں بھی مدد کی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More