Getty Images
رواں برس نو مئی کو پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس وقت ناقابلِ یقین ویڈیوز دیکھنے کو ملیں جب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں رینجرز کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔
دو روز بعد سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو کالعدم قرار دیے جانے تک مشتعل مظاہرین کور کمانڈر ہاؤس لاہور سمیت کئی فوجی عمارتوں اور تنصیبات میں توڑ پھوڑ کر کے انھیں نذرِ آتش کر چکے تھے۔
لگ بھگ تین ماہ بعد جب سنیچر پانچ اگست کو عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے فوراً بعد گرفتار کیا گیا تو نہ ہی اس گرفتاری کا طریقہ کار نو مئی جیسا تھا اور نہ اس پر نو مئی کے مظاہروں جیسا کوئی ردعمل سامنے آیا۔
پانچ اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے چند لمحوں بعد لاہور میں پولیس کی نفری زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی جہاں انھوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
اگرچہ اس بار بھی عمران خان نے گرفتاری سے پہلے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اپنے سپورٹرز کو احتجاج کی کال دی ہے مگر پی ٹی آئی کی قیادت نے عوام کو پُرامن رہنے اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کا کہا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’پرامن احتجاج ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے۔‘
ان تین ماہ کے دوران پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جانب سے کریک ڈاؤن عمل میں آیا تھا جس کے بعد عسکری املاک پر مبینہ طور پر حملہ کرنے والے کارکنان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات فوجی عدالتوں میں اب بھی چلائے جا رہے ہیں۔
Getty Imagesپانچ اگست 2023: جب توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا پر لاہور پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے کے بعد زمان پارک سے روانہ ہوئیعمران خان کو کیسے گرفتار کیا گیا؟
ایک وہ وقت تھا جب نو مئی اور اس سے قبل عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کو روکنے کے لیے زمان پارک کے اردگرد سینکڑوں کارکنان جمع تھے اور پولیس سمیت کسی کو اس گلی میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا جہاں عمران خان کی رہائش گاہ ہے۔
مگر اب کی بار ایسا نہیں تھا۔ سنیچر کو عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر کارکنان سرے سے موجود ہی نہ تھے۔
عمران خان کی سکیورٹی پر مامور افراد نے نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا کہ عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے 10 منٹ بعد لاہور میں عمران خان کی گرفتاری عمل میں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت علاقے میں 400 سے 500 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ پہلے سول کپڑوں میں لوگ عمران خان کی رہائش گاہ آئے جس پر ان کے نجی سکیورٹی اہلکاروں نے اسلحہ نکالا۔ اس پر پولیس موقع پر پہنچی اور انھوں نے بھی اسلحہ نکال لیا۔
اتنی دیر میں پولیس گھر کے پچھلے دروازے سے اندر آچکی تھی جس کے بعد گرفتاری پر مزاحمت نہیں دکھائی گئی۔ عمران خان کے سکیورٹی کے عملے کے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان پر تشدد بھی کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’خان صاحب نے (پولیس سے) کہا میں نے ٹریک سوٹ پہنا ہوا ہے، میں کپڑے تبدیل کر لوں مجھے کچھ منٹ دے دیں مگر انھوں نے کہا آپ کو کوئی وقت نہیں دیا جائے گا۔‘
وہ عمران خان کو ’منھ پر کپڑا ڈال کر لے گئے‘ اور ویڈیو بنانے والوں کے کیمرے ضبط کر کے انھیں بھی ساتھ لے گئے۔
EPAعمران خان کو گرفتار کرنے کے بعد جب پولیس کا قافلہ لاہور سے اسلام آباد پہنچا’ہم ووٹ کے ذریعے خان صاحب کو سپورٹ کریں گے‘
نو مئی اور اس سے قبل پی ٹی آئی کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ موجود رہتی تھی، چاہے جب وہ عدالت پیشی کے لیے پہنچتے، طلبی نوٹس وصول کرتے یا کسی عوامی اجتماع سے خطاب کرتے۔
رواں برس مارچ میں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پولیس نے عدالت کے حکم پر عمران خان کی گرفتاری کو ناکام بنا دیا تھا اور کسی کو عمران خان تک پہنچنے نہیں دیا تھا۔
نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکلے تھے۔ لوگوں میں غصہ تھا جس کا اظہار انھوں نے مبینہ طور پر پُرتشدد مظاہروں کی شکل میں کیا تھا۔
Getty Imagesلاہور میں عمران خان کی گرفتاری پر کارکنان اور سپورٹرز کی ایک محدود تعداد نے سڑکوں کا رُخ کیا جن میں سے کچھ کو پولیس نے گرفتار کیا
مگر گذشتہ روز گرفتاری کے بعد زمان پارک کی رہائش گاہ کے اندر صرف ان کے وکلا اور سکیورٹی کے لوگ موجود تھے۔ باہر کچھ درجن افراد جمع ہوئے جو پُرامن رہتے ہوئے نعرے بازی کر رہے تھے مگر پولیس کے پہنچنے پر وہ بھی منتشر ہو گئے۔
لاہور میں ایک چھوٹے سے احتجاج میں شامل خواتین نے ہماری نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کا اب تک لوگوں کو علم نہیں ہو سکا اس لیے لوگ باہر نہیں نکلے۔
ایک کارکن نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کے بعد ’ہم ووٹ کے ذریعے خان صاحب کو سپورٹ کریں گے۔‘ وہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ عمران خان کو پاکستانی سیاست سے باہر کیا جا سکتا ہے۔
پولیس نے کئی گھنٹوں تک زمان پارک کے علاقے میں رکاوٹیں لگائے رکھیں اور یہاں پولیس کی بھاری نفری موجود رہی۔ بظاہر عمران خان کے خلاف آپریشن باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا جس کے امکان کا کارکنان کو بھی علم تھا۔
یہاں موجود بعض خواتین کارکنان کے ساتھ موجود مرد انھیں میڈیا پر بیان بازی سے ٹوک رہے تھے کیونکہ اس سے دوبارہ پی ٹی آئی کے لیے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
Getty Imagesنو مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر پُرتشدد مظاہرے کیے گئے تھے اور تحریک انصاف نے اسے اپنی ’ریڈ لائن‘ کہا تھاعمران خان کی دوبارہ گرفتاری پر نو مئی جیسا ردعمل کیوں نہ آ سکا؟
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری سے یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ تحریک انصاف کتنی طاقت دکھا سکتی ہے اور اداروں پر کتنا دباؤ ڈال سکتی ہے۔
مگر اب کی بار گرفتاری پر ایسا احتجاج دوبارہ نہیں ہو سکا کیونکہ ’نو مئی سے پانچ اگست تک تحریک انصاف اور پاکستان کی سیاست میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ تحریک انصاف دوبارہ ایسا دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت کے کئی رہنما یا گرفتار ہوگئے ہیں یا پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا چھپے ہوئے ہیں۔ ’پارٹی جس طرح منظرِعام سے غائب ہوئی اس کی مثال پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔‘
عاصمہ شیرازی کی رائے میں تحریک انصاف کے محتاط ردعمل کی وجہ نو مئی جیسے واقعات کو دہرانے سے روکنا ہے۔ ’نو مئی کا ردعمل کوئی سیاسی رویہ نہیں تھا، نہ ہی یہ سیاسی و جمہوری رجحان کی نشاندہی کرتا تھا۔‘
اس سے اتفاق کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’نو مئی کو مظاہرین کا رویہ غیر سیاسی تھا۔ گرفتاری کے ردعمل میں مظاہرین نے کسی مسلح جتھے جیسا روّیہ دکھایا تھا۔ انھیں یہ تربیت نہیں دی گئی تھی کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے۔‘
’سیاسی جماعتیں کئی مراحل طے کرنے کے بعد میچیور ہوتی ہے۔ اس کا تقاضہ پُرامن رہنا ہوتا ہے، خاص کر اسٹیبلشمنٹ سے کبھی براہ راست لڑائی مول نہ لیں۔ سیاستدان کا یہی کام ہے کہ لوگوں کو پُرامن رکھتے ہوئے اقتدار تک پہنچیں۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق اس بار مظاہرین اس لیے محتاط ہیں کیونکہ ’تحریک انصاف پر موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے جس کی ذمہ دار بظاہر تحریک انصاف خود ہے۔
’سیاست میں پُرتشدد کارروائیوں کی دراندازی کسی صورت قابل قبول نہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما محتاط احتجاج کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔‘
EPAپانچ اگست کو عمران خان کی گرفتاری پر ان کے بعض مخالفین نے مٹھائیاں تقسیم کیں’عمران خان اسٹیبشلمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کی آپشن کھو چکے‘
اس سوال پر کہ آیا گرفتاری سے قبل عمران خان کی بات چیت کی پیشکش کو موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سنجیدگی سے لیں گے، تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اگر پانچ اگست کا موازنہ نو مئی سے کیا جائے تو دونوں گرفتاریوں کے وقت عمران خان کے دبدبے میں فرق آیا ہے۔
’عمران خان نے اب جا کر پہلی بار یہ بات کہی ہے کہ ملکی قیادت میز پر بیٹھے وہ بھی تب جب انھیں یقین ہوگیا کہ ان کی گرفتاری ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی سیاسی روّیہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا ووٹر اور سپورٹر دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔‘
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری پر محدود ردعمل تحریک انصاف کے لیے مایوسی کی بات ہے مگر شاید ان کا سپورٹر ووٹ کے ذریعے ان کا ساتھ جانا چاہتا تھا۔
’عمران خان کے یکے بعد دیگرے بدلتے مطالبات نے سب سے زیادہ انھی کی انتخابی سیاست کو نقصان پہنچایا۔‘
ادھر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ نو مئی اور پانچ اگست دونوں گرفتاریاں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ ’ایک فریق عمران خان ہے تو دوسرا حکومت اور اسٹیبشلمنٹ، دونوں فریقین کا عمل دخل ہے۔۔۔ (مگر) اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے عمران خان کا نظریہ اب تک غیر واضح رہا ہے۔
’ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر حکومت کرنا چاہتا ہوں اور دوسری طرف وہ کہتے ہیں میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ یہ سب کرپٹ ہیں۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان کی گرفتاری پر ان کے سپورٹرز کا ردعمل مایوس کن اس لیے رہا کیونکہ بظاہر تحریک انصاف اپنی تمام آپشنز کھو چکی ہے۔
’ان کے پاس آخری راستہ یہی تھا کہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کریں۔ اس کی وجہ سے انھوں نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کی آپشن کھو دی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی قیادت میں پُرامن لوگوں کو سامنے لانا چاہیے جو لوگوں سے مذاکرات کریں تاکہ وہ آئندہ انتخابات کے لیے اپنی تنظیم نو کر سکیں۔