پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلعے اٹک کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پہلے انھیں ہیلی کاپٹر کی مدد سے اسلام آباد منتقل کرنے کی خبریں گردش کرتی رہیں تاہم بعدازاں پولیس انھیں موٹر وے کے راستے لاہور سے اٹک لے گئی۔
عمران خان کے جیل جانے سے پہلے کیا ہو گا؟Getty Images
پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کے ایک افسرنے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جیل منتقلی کے بعد معمول کے طریقہ کار کے مطابق ان کی گرفتاری کے وارنٹ کو چیک کیا جائے گا۔
اس کے بعد ان کا اگر کوئی سابقہ میڈیکل ریکارڈ یا رپورٹ ہے تو اس کی جانچ کی جائے گی جس کے بعد جیل میں ہی ان کا ایک تازہ میڈیکل ٹیسٹ کروایا جائے گا۔
جیل حکام کے مطابق جیل پہنچنے پر کسی بھی قیدی کا میڈیکل ٹیسٹ کروانا لازمی ہوتا ہے۔
جس کے بعد عمران خان کے پاس موجود ان کی ذاتی اشیا ان سے لے کر حکام کے حوالے کر دی جائیں گی اور وہ جیل کے مال خانے میں رکھی جائیں گی۔ ان اشیا کو رہائی کے وقت واپس کر دیا جاتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے میڈیکل ٹیسٹ اور ان سے قیمتی اشیا لینے کے بعد انھیں بیرک میں منتقل کر دیا جائے گا۔
قیدیوں کی درجہ بندی کیسے ہوتی ہے؟Getty Images
پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کو تین کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے۔
سی یا کامن کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے اور معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔
بی یا بیٹر کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوں تاہم اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔ گریجویشن پاس قیدی بھی بی کلاس لینے کا اہل ہوتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اے کلاس کیٹگری اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وفاقی وزرا اور ان قیدیوں کو دی جاتی ہے جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔
جیل کے قوانین کے مطابق عمران خان کو سابق وزیراعظم ہونے کی وجہ سے ’اے کلاس کیٹیگری‘ دی جا سکتی ہے لیکن اٹک کی جیل کے وارڈن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس جیل میں اے یا بی کلاس کیٹیگری کی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 42 جیلوں میں سے صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں پر قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ان دونوں جیلوں میں بہاولپور جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل شامل ہے۔
اے، بی اور سی کیٹیگری کے قیدیوں کو ملنے والی سہولیاتGetty Images
جیل مینوئل کے مطابق جن قیدیوں کو اے کلاس دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ سے بیرک دی جاتی ہے جس کے ایک کمرے کا سائز نو ضرب 12 فٹ یعنی لمبائی نو فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہوتا ہے۔
قیدی کے لیے بیڈ، ایئرکنڈیشن، فریج اور ٹی وی کے علاوہ الگ سے باورچی خانہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اے کلاس کے قیدی کو جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اے کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی (کام کرنے والے) بھی دیے جاتے ہیں۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ اے کلاس کیٹگری میں جن مجرموں کو رکھا جاتا ہے اگر وہ گھر سے کھانا منگوانا چاہیں تو اس سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوتی ہے، اس کے علاوہایسے مجرموں سےان کے عزیز واقارب یا ان کے وکلا کی ملاقات کا ہفتے میں ایک دن مقرر ہوتا ہے تاہم اس کا تعین بھی حکومت کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اگر قیدی چاہے تو دونوں مشقتی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
جیل قوانین کے مطابق جن قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے ان کو ایک الگ سے کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے تاہم اگر جیل سپرنٹنڈنٹ چاہیے تو مشقتیوں کی تعداد ایک سے بڑھا کر دو بھی کر سکتا ہے۔
بی کلاس کے حصول کے لیے کچھ شرائط متعین ہیں جن کی بنیاد پر محکمۂ داخلہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
سی کیٹیگری جیل میں عام قیدیوں کے لیے ہوتی ہے جنھیں نہ تو گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سہولیات میسر ہوتی ہیں جن کا تعلق اس کی تعلیم یا عہدے کی مناسبت سے ہو۔
پنجاب کی ایک جیل میں اعلیٰ عہدے پر تعینات افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ عثمان بزدار کی حکومت نے سی کلاس کے قیدیوں کو گدا، کولر اور 10 چینل والی کیبل لگوانے کی سہولت دی ہے جس کے لیے سپرٹنڈنٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی سیاسی قیدی کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر سی کلاس میں بھی عام قیدیوں کے ساتھ نہیں بلکہ الگ کوٹھری میں رکھا جاتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اے اور بی کلاس کے قیدیوں کے لیے بطور خدمت گزار جن افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ معمولی جرائم میں ملوث قیدی سی کیٹیگری کے ہی ہوتے ہیں۔
اٹک جیل کہاں واقع ہے اور اس شہر کی کیا تاریخی اہمیت ہے؟
اٹک پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آخری شمالی شہر ہے جو سنہ 1904 میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں کیمبل پور کے نام سے آباد کیا گیا تھا۔
دریائے سندھ کے بائیں کنارے جہاں 120 سال پرانا شہر اٹک موجود ہے وہاں تھوڑے ہی فاصلے پر 'اٹک خورد' یعنی چھوٹا اٹک کے نام سے ایک گاؤں اس کہیں پہلے وجود رکھتا ہے۔
16ویں صدی میں جب مغل بادشاہ اکبرِ اعظم نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر جب قلعہ تعمیر کرایا تو اس کا نام بھی اٹک قلعہ رکھا تھا۔ اس تاریخی قلعے کا ایک حصہ آج بھی پاکستانی فوج کے 'سپیشل سروسز گروپ' یعنی کمانڈوز کے زیرِ انتظام ہے۔
اسی قلعے میں سابق فوجی صدر ضیاالحق کے خلاف مبینہ طور پر بغاوت کے مقدمے سمیت بینظیر بھٹو کے خلاف مبینہ سازش کرنے والوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔
1999 میں ملک میں فوجی بغاوت کے بعد سابق وزیرِاعظم نواز شریف بھی اس قلعہ میں قید رہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی اسی تاریخی قلعے میں ہوتی رہی ہے۔
اٹک کی ضلعی جیل شہر کے قیام کے ایک برس بعد 1905 میں قائم کی گئی اور پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں 539 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت وہاں اس سے کہیں زیادہ یعنی 804 افراد قید ہیں۔
اس جیل میں ماضی میں بھی سیاست دانوں کو قید کیا جاتا رہا ہے۔ رواں برس فروری میں تحریکِ انصاف نے جب جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تھا تو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو ایک مہینے کے لیے اٹک جیل بھیجا گیا تھا۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اور ایفیڈرین کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے حنیف عباسی بھی کچھ عرصہ اس جیل میں قید رہ چکے ہیں۔ انھیں ابتدائی طور پر اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا تاہم جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں ن لیگ کے قائد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے ساتھ ملاقات کی خبریں سامنے آنے کے بعد انھیں اٹک جیل منتقل کردیا گیا تھا۔