عمران خان: تحریکِ انصاف کے کپتان کا سیاسی کریئر ’تضادات کا مجموعہ‘

بی بی سی اردو  |  Aug 05, 2023

Getty Images

عمران خان بالآخر عدمِ اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت گرائے جانے کے تقریباً 18 مہینے کے بعد توشہ خانہ کیس میں سزا وار ٹھہرے، انھیں تین سال کی قید سنائی گئی، ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوا اور سیاست میں حصہ لینے کے لیے پانچ سال کے لیے نا اہل قرار پائے۔

یہ عمران خان اور ان پر اندھا اعتماد کرنے والے ان کے حامیوں کے لیے تو شاید نئی بات ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔

ماضی میں بھی سابق وزیرِ اعظموں کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور پھر نواز شریف، سب ہر مقدمات کی زد میں آئے۔ اگر نواز شریف کے ساتھ ایسا پانامہ یا اقامہ کی وجہ سے ہوا تو عمران خان کے ساتھ توشہ خانہ کی وجہ سے۔ سکرپٹ تاہم وہی پرانا ہے۔

پاکستانی سیاست میں اس طرح کی سزائیں قانون کی بالادستی کی طرف نہیں بلکہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس وقت طاقت کس کے پاس ہے۔ اور اس بات کا ادراک اب عمران خان اور ان کے حمایتیوں کو شاید ہو چکا ہو۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب ختم ہو گیا، سیاستدانوں کو جیلیں ہوتی رہتی ہیں۔ تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

لیکن دوسری طرف اگر کسی کو اس کے متعلق ذرا بھی ابہام ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کو اس سے کوئی بہت زیادہ فرق پڑے گا یا ان کا 'کراؤڈ پُل' کرنے یا ہجوم کو اپنی طرف کھینچنے کا 'کرزما'، تو وہ بظاہر پاکستانی سیاست سے نابلد ہے۔

عمران خان کا ایک بہت وسیع فین کلب ہے جو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے سے 2022 میں جیب سے نکالا ہوا خط لہرانے اور پھر اس کے بعد کسی مقبول ٹک ٹاکر کی طرح تقریباً روزانہ ٹی وی کی سکرین پر انھیں دیکھتا ہے اور اُن کے سحر میں مبتلا ہے، اُن کی آواز پہ لبیک کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کپتان جو بھی کہہ رہا ہے وہی سچ ہے۔ چاہے کپتان اس کی تردید ہی کر دے، سائفر اور امپورٹڈ حکومت کے نعرے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

عمران خان کرکٹ ہی کی اصطلاح میں انھیں ہمیشہ بتاتے رہے ہیں کہ وہ ڈٹ کے کھڑے ہیں اور آخری گیند تک کھیلیں گے۔ اور یہ حقیقت بھی کہ وہ آخری گیند تک کھیلے بس ان کی خواہش یہی رہی کہ امپائر بھی ہمیشہ ان کا ساتھ دیں۔ کم از کم پانچ اگست 2023 کی صبح ایسا نہیں ہوا۔

کپتان ہمیشہ اپنی ٹیم کے تھکے ہوئے کھلاڑیوں اور مداحوں کو بتاتے رہے ہیں کہ میچ ابھی ختم نہیں ہوا اس لیے انھیں 'ابھی گھبرانا نہیں ہے۔' دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی ایسا ہی اور بازی کوئی اور پلٹا کھا سکتی ہے یا پھر واقعی میچ ختم ہو گیا ہے اور کسی دوسرے میچ کی تیاری کرنی چاہیے۔ تماشائی کرسیوں پر واپس آئیں کہ ٹیم کے دوسرے پلیئرز کی طرح دل ہار کر میدان چھوڑ جائیں۔

عمران خان کی کہانی بھی پویلین سے پچ تک کی کہانی جیسی ہے اور اس دوران انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے وہ چھکے چھڑائے ہیں کہ وہ شاید اُن کے ساتھ کھیلی گئی اننگز کبھی نہ بھولیں۔

عمران خان نے، جب وہ حکومت میں تھے اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد زوروں پر تھی،ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہ اگر مجھے حکومت سے نکالیں گیں تو میں مزید خطرناک ہو جاؤں گا۔ اور وہ خطرناک بھی ہوئے۔ انھوں نے پہلے اشاروں کنایوں میں، پھر دبے دبے لفظوں میں اور آخر کار کھل کے اپنے مخالفوں، خصوصاً فوجی جرنیلوں اور سینیئر اہلکاروں کے نہ صرف نام لینا شروع کیے بلکہ ان پر روز بروز الزام لگانا شروع کیے۔ تاہم انھوں نے نہ کسی عدالت اور نہ ہی کسی پبلک فورم پر ان الزامات کے ثبوت پیش کیے۔ لیکن ان کے حمایتی کوئی ثبوت بھی نہیں مانگتے۔ عمران کا ہر حرف ان کے لیے حرفِ سچ ہے۔ اور یہی ہے ان کی شخصیت کا سحر، جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

عمران خان گذشتہ 27 سال سے باقاعدہ سیاست میں ہیں اور ان کی مقبولیت ان کے کرکٹنگ کریئر کی طرح بڑھتی گئی ہے۔

کرکٹ کا گراؤنڈ اور سیاست کا میدان

عمران خان کا مرکزی دھارے کی سیاست میں آنا کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا اور بقول اُن کے اس کے لیے انھوں نے کئی سال انتظار کیا اور محنت کی۔ سنہ 1987 کے ورلڈ کپ کے بعد جب عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا تو اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق نے انھیں دوبارہ کرکٹ میں واپس آنے کا کہا اور چند ماہ بعد عمران نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔

اسی طرح جنرل ضیا نے انھیں بعد میں سیاست میں آنے کا بھی کہا لیکن عمران نے صاف انکار کر دیا، کچھ اسی طرح کی پیشکش انھیں نواز شریف نے بھی کی، لیکن کپتان سیاست میں نہ آنے کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

مگر بالآخر عمران خان سیاست میں آ ہی گئے۔

عمران خان ملٹری انٹیلیجنس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کو ان کے جہادی نظریات کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور جب انھیں موقع ملا تو انھوں نے جنرل حمید گل اور محمد علی درانی کی بظاہر سوشل نظریات پر بنائی گئی تنظیم 'پاسبان' میں شمولیت اختیار کر لی۔ حمید گل اور درانی اسے ایک پریشر گروپ یا 'تھرڈ فورس' کہتے تھے جس کی، بقول اُن کے، پاکستان کو اشد ضرورت تھی کیونکہ سیاست دان اپنے فوائد کی خاطر ملک کو لوٹ کے کھا رہے تھے اور عوام ان کی آپس کی لڑائیوں میں پس چکے تھے۔

پاسبان کے بانی اسے سیاست کے بجائے معاشرتی تبدیلی کی طرف پہلا قدم کہتے تھے جو کئی سال بعد عمران کی تبدیلی کی سونامی کی لہر میں منظرِ عام پر آئی۔

یہ ایک بہت کارگر 'ٹرائیو' تھا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کے منصوبہ ساز نظریات، جماعت اسلامی سے آئے ہوئے درانی کی منظم کرنے والی بہترین صلاحیت اور ورلڈ کپ کے ہیرو عمران خان کی کرشماتی شخصیت۔ عمران کے سیاسی نظریات کی پختگی میں اس تنظیم اور اس کے ان دو رہنماؤں کا بظاہر بہت عمل دخل ہے۔

کئی سال بعد ایک اور جنرل مشرف بھی عمران کے قریب ہوئے اور عمران اُن کے ساتھ ملتے ملتے رہ گئے۔ بقول جنرل مشرف پی ٹی آئی کے رہنما ان سے پارٹی کی حیثیت سے کہیں زیادہ سیٹیں مانگ رہے تھے۔

کینسر ہسپتال اور انصاف کا ترازوGetty Imagesشوکت خانم ہسپتال کی ایک تقریب عمران خان اپنی سابق اہلیہ جمائمہ خان اور آنجہانی لیڈی ڈیانا کے ہمراہ

عمران خان بلاشبہ عبدالستار ایدھی کے بعد پاکستان میں فلاحی کام کرنے والی سب سے اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی والدہ کے نام پر بنائے گئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ذریعے پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے کی خدمت کی ہے۔ لیکن یہاں بھی 'پاسبان' کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ محمد علی درانی ہی تھے جنھوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور بزنس کمیونٹی میں اپنے روابط کو استعمال کر کے عمران خان کے لیے بہت بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کیے۔ اس طرح کے فنڈ ریزنگ کے ایک ایونٹ میں عمران خان کی ملاقات ارب پتی تاجر عبدالعلیم خان سے بھی ہوئی تھی جنھوں نے وہیں کھڑے کھڑے شوکت خانم کے لیے چھ کروڑ کے عطیے کا اعلان کیا۔

اخبار ڈان سے منسلک صحافی منصور ملک جو پی ٹی آئی کور کرتے ہیں اس تقریب میں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تحریکِ انصاف بنانے سے پہلے عمران خان کا سب سے بڑا پراجیکٹ شوکت خانم کینسر ہسپتال تھا اور وہ دن رات اس کے لیے کام کرتے رہتے تھے۔ شوکت خانم ایک ایسا پراجکیٹ تھا جس کے لیے انھیں پاکستان کے عوام کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہوئی۔ اس میں نوجوان تھے، خواتین تھیں، کاروباری طبقہ تھا اور بعد میں پاکستان تحریکِ انصاف کی 'اے ٹی ایم' کہلائے جانے والے علیم خان بھی اس میں شامل ہوئے۔'

علیم خان کے عطیات اور ان کی شوکت خانم کے لیے خدمات کی وجہ سے ہی لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کے تیسرے فلور پر ایک وارڈ کا نام اُن کے والد عبدالرحیم خان اور پشاور میں شوکت خانم میں ایک فلور کا نام ان کی والدہ نسیم خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ علیم خان 'عبدالحلیم خان فاؤنڈیشن' کے تحت خیراتی اور فلاحی کام کرتے ہیں۔

29 دسمبر 1994 کو شوکت خانم میموریل کینسر ریسرچ ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کا افتتاح ہوا اور دو سال بعد 25 اپریل 1996 کو عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جس کا منشور بھی 'پاسبان' کی بنیادوں پر ہی رکھا گیا تھا جن میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام، احتساب کا نعرہ اور ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل اولین ترجیحات میں شامل تھیں۔ اگرچہ شروع میں اسے صرف 'ون مین شو' کہا جاتا تھا لیکن بعد میں اس قافلے کے ساتھ اور لوگ جڑتے گئے۔

منصور ملک کہتے ہیں گو کہ پارٹی 1996 میں بنی تھی لیکن اس کا پہلا بڑا شو 2011 میں نظر آیا جب اس نے 30 نومبر کو لاہو ر کے مینارِ پاکستان میں اپنا پہلا بڑا جلسہ کیا۔

'اس وقت تک نظریاتی لوگوں کے علاوہ کچھ الیکٹیبلز بھی اس میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو صرف ایک سیٹ ملی اور وہ بھی عمران خان کی تھی جو انھوں نے میانوالی سے جیتی تھی۔ پھر 2013 کا الیکشن آیا۔ اس وقت پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو گراس روٹ کی سطح تک منظم کرنا شروع کیا، کہ اس کے امیدوار کون کون ہوں گے، کون پیسہ خرچ کرے گا، کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا۔'

پارٹی بنتے ہی ٹوٹ پھوٹ شروع

نو مئی 2023 کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں بری طرح ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور تقریباً ساری لیڈرشپ آہستہ آہستہ عمران خان کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا کر پارٹی چھوڑ گئی۔ اس سے پہلے تحریک عدم اعتماد کے وقت بھی ارکین منحرف ہوئے اور اتحادی ناراض ہو کر انھیں چھوڑ گئے۔ کبھی منحرفین کو 'غدار' کہا گیا اور کبھی ان پر کرپشن کا الزام لگایا گیا۔

لیکن کیا ایسا پی ٹی آئی میں پہلی مرتبہ ہوا تھا؟ بالکل نہیں۔ پارٹی جب بنی تھی اور انتخابات میں حصہ لیا تھا تب ہی سے پارٹی میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے ناراض رہے اور کئی ایک نے پارٹی چھوڑ بھی دی تھی۔

عمران خان نے جب 1996 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بنائی تھی تو اس وقت انھیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ گیارہ کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے اور ملکی سطح پر ایک سیاسی جماعت چلانے میں کیا فرق ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جو بھی ان کے بہت قریب آتا ہے وہ کچھ عرصہ بعد ان سے دور ہو جاتا ہے۔ حامد خان سے لے کر ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین تک اور جہانگیر ترین سے لے کر علیم خان اور فواد چوہدری سے لے کر پرویز خٹک تک پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی کسی نہ کسی موقع پر عمران خان سے ناراضی کی فہرست بہت لمبی ہے۔

اکثر عمران خان کے اپنے فیصلے ہی اس کھینچا تانی کی وجہ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر2013 کے انتخابات سے پہلے اچانک فیصلہ کیا گیا کہ گراس روٹ پر تنظیم سازی کرنے کے لیے 'نومینیشن کی بجائے الیکٹڈ لوگ لانے چاہییں' جو کہ پارٹی کے بنیادوں اصولوں کی ہی خلاف ورزی تھی۔

منصور ملک کے مطابق پہلے کہا گیا کہ پارٹی الیکشن کرائیں گے، لیکن اتنی پولرائزیشن ہو چکی تھی کہ گروپس آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ اس دوران 2013 کے الیکشن سر پر آ گئے۔ اس وقت پی ٹی آئی نے محسوس کیا کہ ہم الیکشن میں مخالفین سے لڑنے کی بجائے اپنے آپ سے ہی لڑ رہے ہیں۔ جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو سب کو پتہ چل گیا کہ غلطیاں کہاں ہوئی ہیں۔'

ملک کہتے ہیں کہ اب پارٹی سے منحرف ہونے والے وہی لوگ ہیں جو پہلے بھی اپنی آواز اٹھاتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ وہ پارٹی سے پہلی مرتبہ ناراض ہوئے ہیں۔

نو مئی 2023 کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں نے فوجی اور سویلین عمارتوں کو جلانا اور توڑنا شروع کیا، جن میں کور کمانڈر لاہور کا گھر اور پنڈی میں جی ایچ کیو بھی شامل تھا، تو سکیورٹی ایجنسیاں حرکت میں آئیں۔ پی ٹی آئی کی قریباً تمام لیڈرشپ سمیت سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ دنوں بعد تمام بڑے سیاسی رہنما رہا کیے گئے اور تقریباً سبھی نے میڈیا کے سامنے آ کر پارٹی چھوڑنے اور عمران خان کے ساتھ راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا۔

کچھ نے ان پر ملک میں انتشار پھیلانے کے الزامات بھی لگائے لیکن عمران ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اگرچہ سیاسی اعتبار سے اب الیکٹیبلز ان کے ساتھی نہیں تھے۔ لیکن ان کے حمایتی اب بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر عمران کسی 'کھمبے' کو بھی انتخابات میں کھڑا کر دیں گے تو وہ بھی جیت جائے گا۔ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔

عمران، ارطغرل اور یوتھ

چاہے کرکٹ ہو یا سیاست عمران خان رسک لینے سے کم ہی ڈرتے ہیں۔ ان کا حساب کتاب غلط ہو سکتا ہے، جنرل باجوہ کے حوالے سے یہ ہوا بھی ہے، لیکن ان کا داؤ نہیں۔

عمران خان نے اکتوبر 2022 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپنے دوسرے سیاسی رہنماؤں کی قابلیت پر انحصار نہیں کیا اور سات نشستوں پر اکیلے انتخاب لڑا جس میں چھ پر وہ کامیاب بھی ہوئے۔ یہی ان کی مقبولیت تھی۔

اس طرح 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں 116 نشستیں حاصل کیں اور عمران خان پاکستان کی تاریخ میں پہلے سیاستدان بنے جنھوں نے پانچ نشستوں پر انتخاب لڑا اور پانچوں کی پانچوں جیتیں۔ جیت کے بعد اپنی تقریر میں عمران خان نے اپنی مستقبل کی حکومت کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ وہ ملک کو مکمل فلاحی ریاست بناتے ہوئے اسے ریاستِ مدینہ کے اصولوں پر چلانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے سادگی اور ایک چھوٹی کابینہ والی حکومت کی بات کی لیکن ماضی کی طرح یہ وعدہ بھی کچھ ہی دنوں میں ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ کابینہ بھی پھیلتی گئی اور اخراجات بھی بڑھتے گئے۔ نہ تو وزیرِ اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنا اور نہ ہی منسٹر سائیکلوں پر آئے۔ بڑی بڑی اور مہنگی گاڑیوں کی لائن لگ گئی اور وزیرِ اعظم ہیلی کاپٹر پر دفتر آنے لگے۔ اگرچہ ان کے چاہنے والے ووٹرز کو بُرا تو لگا لیکن عمران کی محبت اور ماضی کے سیاست دانوں سے بیزاری ان کے دلوں میں ایسی بھر چکی تھی کہ انھیں نہ چاہتے ہوئے کپتان کا یہ روپ بھی قبول تھا۔

سنہ 2020 میں عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی مشہور ترک سیریز ڈیریلس: ارطغرل دیکھیں۔ یہ عمران خان کا ایک مظبوط اسلامی ریاست کی بنیاد کی طرف اشارہ بھی تھا یا شاید وہ اپنے آپ کو بھی اسی روپ میں دیکھ رہے تھے۔ ترک تاریخی کردار ارطغرل سلطنت عثمانہ کے بانی عثمان غازی کے والد تھے جنھوں نے اپنی زندگی منگولوں، غداروں اور صلیبی جنگیں لڑنے والے مسیحیوں کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری تھی۔ ان کے بیٹے نے بعد میں سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی جو 600 سال قائم رہی۔

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی ڈائریکٹر اور سینیئر صحافی فرح ضیا کے مطابق عمران خان کا وعدہ پرانی سیاست کو رد کر کے نئی سیاست لانے کا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 'وہ انصاف سے شروع ہوئے تھے لیکن آپ انصاف کا حال دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقت میں تو کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکے۔ کیونکہ وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکے اس لیے آسان طریقہ اسلامی افکار یا ارطغرل ڈرامے پر لوگوں کو لگانے کا ہی رہ گیا تھا۔'

Getty Images

اسلام ازم اور نیشنل ازم کا تڑکا

عمران خان پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ سکینڈینیویا کے فلاحی ڈھانچے، برطانیہ اور امریکہ کی جمہوریت اور چین کی طرز کے نظامِ حکومت کی بھی توقع کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ترکی کے طیب رجب اردوغان اور ملیشیا کے مہاتر محمد کی مثالیں دیتے ہوئے ان کی طرح کی سربراہی بھی چاہتے ہیں۔ کسی بھی سیاست کے طالب علم کے لیے ان سب کو جوڑنا مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے، کیونکہ ان میں مطلق العنانی بھی ہے اور جمہوریت بھی، فسطائیت بھی ہے اور اسلامی اقدار بھی۔ یہ سب ایک دوسرے کو مقناطیس کے ایک جیسے سروں کی طرح ایک دوسرے سے پرے کرتی ہے۔

لیکن عمران خان کا اپنا ایک نظریہ ہے کہ ان میں سے چن چن کے چیزیں لی جا سکتی ہیں یا شاید وہ انھیں ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔

حال ہی میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اپنے چینل پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں آزادی ہو۔ انھوں نے مغربی اور مشرقی جرمنی اور جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کی مثالیں دیں۔ کہ کس طرح مغربی جرمنی ترقی کر گیا اور مشرقی جرمنی پیچھے رہ گیا، اسی طرح کس طرح شمالی کوریا غربت اور افلاس کی دلدل میں دھنس گیا اور جنوبی کوریا انتہائی آگے نکل گیا۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ جن دو ممالک کا وہ ذکر کر رہے ہیں وہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایک لمبے عرصے تک امریکہ زیرِ اثر رہے ہیں بلکہ وہاں امریکی فوجی اڈے بھی ہیں۔ یہی عمران خان کی کنفیوژن ہے۔ وہ کہتے کچھ ہے کرتے کچھ یا پھر کچھ کہہ کر بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے یہ کہا ہے۔

مثالیں تو سینکڑوں ہیں لیکن حالیہ دور میں سائفر شاید اس کی سب سے بڑی مثال۔ پہلے امریکہ پر رجیم جینج کا الزام لگا، جس میں ان کے سب کے سب منحرف اراکین کے متعلق کہا گیا کہ انھوں نے امریکیوں کے کہنے پر ایسا کیا، پھر کہا گیا کہ انھیں پی ڈی ایم کی قیادت نے پیسے دیے، پھر بیان بدلتا گیا اور ہولے ہولے رجیم چینج کے آخری کردار سابق جنرل قمر جاوید باجوہ ٹھہرے۔ اور یہ سب کچھ کوئی اور نہیں خود عمران خان اپنے بیانات اور تقاریر میں کہتے رہے ہیں۔ آخری کہانی کچھ اس طرح سے بتائی گئی کہ جنرل باجوہ نے امریکہ کو بتایا کہ عمران غلط ہے اور پھر امریکہ نے امریکی اہلکار اور پاکستانی سفیر کے ذریعے جنرل پاجوہ کو سائفر کی شکل میں پیغام بھجوایا کہ عمران کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ عمران نےکہا کہ سائفر 'میرے لیے نہیں بلکہ جنرل باجوہ کے لیے تھا۔'

تاہم ان کے حمایتیوں کو اس میں کچھ نیا یا برا نہ لگا اور عمران کی حمایت میں ڈے رہے۔

عمران جب وزیرِ اعظم تھے اس وقت بھی ان کی خارجہ پالیسی میں اس کنفیوژن کی جھلک موجود تھی۔ وہ اسلاموفوبیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم پر تو ہر فورم پر بات کرتے لیکن جب ان سے پوچھا جاتا کہ چین میں مسلمان اویغور کے متعلق ان کا کیا خیال ہے تو وہ کہتے کہ اس کے متعلق انھیں علم نہیں حالانکہ بقول ان کے وہ ہر چیز کو ہر کسی سے زیادہ جانتے ہیں، چاہے وہ برطانیہ ہو، انڈیا ہو یا سیاست۔

اسی طرح وہ جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ گئے تو انھوں نے پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی بہت تعریف کی اور جب وہ پاکستان واپس لوٹے تو بڑے ناز سے کہا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے بہت انتظار کیا کہ وہ ان سے رابطہ کریں اور کچھ انٹرویوز میں تو انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں معلوم نہیں کہ فون کیوں نہیں آیا لیکن ساتھ ہی حال ہی میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔

عمران خان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو مغربی بلاک سے نکال کر مشرقی بلاک کی طرف لے جانے کی خواہش رکھتے تھے اور ساتھ ساتھ اسلامی بلاک کے بارے میں بھی سوچتے تھے۔ لیکن اب جا کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سی پیک میں رکاوٹ کی وجہ سے نہ چین ان سے خوش تھا، نہ ہی ان کی مبہم خارجہ پالیسی کی وجہ سے اسلامی بلاک۔

عمران کے اس دن روس جانے کو جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا، سیاسی مبصرین ایک غلط فیصلہ کردانتے ہیں۔ اس سے پاکستانی معیشت کو چاہے کچھ فرق نہ پڑا ہو لیکن سیاسی طور پر پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔

عمران کے 'ٹائیگر' اور 'نازیبا زبان' کی سونامیGetty Imagesپی ٹی آئی کے ووٹر خان کے ہر بات پہ لبیک کہنے کو تیار رہتے ہیں

جب عمران خان کو نو مئی کے واقعات کے بعد مختصر عرصے کے لیے گرفتار کیا گیا تو ان کے حمایتیوں نے ایک دم ملک کے کئی حصوں میں پرتشدد مظاہرے کیے اور سوشل میڈیا پر ایسی مہم شروع کی جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دوسری طرف حکومت نے بھی عمران خان کے خلاف مقدمات کی ایسی مہم شروع کی کہ اس کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔

عمران خان جب سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے اور کہا تھا کہ ان کے نوجوانوں کی سونامی 'کرپٹ' سیاستدانوں کو خاک کر دے گی تو شاید بہت سوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ سونامی کے بعد تباہی کا بہت زیادہ گند بھی باہر آ جاتا ہے جسے سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ اور عمران کی سونامی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

جس نے بھی عمران کی مخالفت کی، عمران خان کے حامیوں اور خود عمران نے انھیں بلند آواز میں برا بھلا کہا۔ ایک دن ان کی پارٹی میں چہیتا سمجھے جانے والا، کل خان پر تنقید کے بعد بُرا بن گیا، 'غدار' اور 'بکاؤ' کہلایا گیا۔ بظاہر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں جو کہ جمہوریت کی روح سمجھی جاتی ہے اور خان کے خلاف مقدمات میں حکومت بھی اسی سمت نکل گئی ہے۔

لیکن مخالفوں کے خلاف بری زبان کا استعمال صرف عمران کے دور میں ہی نہیں ہوا، اس سے پہلے مسلم لیگ نواز اس کی داغ بیل ڈال چکی تھی اور عوامی جلسوں میں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے مخالفوں کے خلاف جو جملے استعمال کیے تھے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے دور میں ایک نیا زوال دیکھا گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت عمران کے ٹائیگر ہر اس آواز کو بری زبان استعمال کر کے دبانا چاہتے ہیں جس نے ان کی پالیسی یا لیڈر پر کوئی تنقید کی۔ کبھی خلاف فیصلہ دینے والے ججوں کو دھمکیاں لگائی گئیں تو کبھی پولیس کے افسران کو مستقبل میں کڑی سزاؤں کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا۔

عمران تضادات کا مجموعہ

عمران خان نے اگرچہ شاید اپنی تقاریر میں اپنی ہر بات کی نفی کی ہو، لیکن اگر وہ کسی ایک بات پر قائم رہے تو وہ ان کی نواز شریف اور سابق صدر زرداری کے خلاف نفرت تھی۔ انھوں نے ہمیشہ سے ہی یہ رویہ رکھا کہ وہ ان 'چوروں' سے بات نہیں کریں گے۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہتے لیکن ساتھ ساتپھ ان سے ہی مذاکرات کی بات کرتے۔

گرفتاری سے ایک دن پہلے تاہم انھوں نے کہا تھا کہ ملک کے لیے سب کو مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ شاید انھیں پتہ چل چکا تھا کہ اب فیصلہ ان کے خلاف آنے والا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو عمران خان کوئی روایتی سیاستدان بھی نہیں ہیں، جو کچھ لو اور دو کے أصول یا پھر سیاست میں لچک دکھانے پر یقین کرتے ہیں۔ عمران کی لغت میں باہپمی صلح مشورے کی گنجائش نہیں، وہ جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ چاہے پارٹی چلانی ہو یا ملک، ان کے قریبی لوگوں کے مطابق ان کو کسی کی ضرورت نہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں وہی کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے پہلے فعل سے ایک سو اسی ڈگری دوسری طرف ہو۔

ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارنے والے ایک سرکاری ملازم نے بی بی سی کو بتایا کہ 'میں نے نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور عمران خان کے ساتھ بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر سرکاری معاملات پر بات چیت کرتے ہوئے نواز شریف کا 'اٹینشن سپین' پندرہ منٹ تھا تو عمران خان کا دو ڈھائی منٹ۔ اگر نواز شریف کو چائے یا کھانا یاد آ جاتا تو عمران خان اتنے بیزار نظر آنا شروع ہو جاتے کہ آپہ کو صاف پتا چل جاتا کہ آپ کی کوئی بات نہیں سنی جا رہی۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More