7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفر

بی بی سی اردو  |  Aug 04, 2023

یزیدی مذہب کا سب سے مقدس مقام ’لالش‘ شمالی عراق میں خودمختار علاقے کردستان کے دارالحکومت اربیل سے 125 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔ پوری دنیا میں اس مذہب کے قریب سات لاکھ ماننے والے ہیں۔

اس مقام پر آنے والے سیاحوں کے لیے ڈائریکٹر آف وزیٹر ریلیشنز لقمان محمود نے کہا کہ ’یزیدیوں کے لیے لالش اتنا ہی مقدس ہے جتنا مکہ اور یروشلم اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے ماننے والوں کے لیے ہے۔‘

اس چار ہزار سال پرانے مقام پر کوئی بھی آ سکتا ہے۔ یہاں متعدد عبادت گاہوں کے ساتھ یزیدیت کے بانی شیخ عدی بن مسافر کا مقبرہ بھی ہے۔

یزیدیت کی شروعات کہاں سے ہوئی، یہ معاملہ متنازع ہے۔ تاہم خیال ہے کہ یہ مذہب سات ہزار سے زیادہ برس پرانا ہے۔ وقت کے ساتھ اس میں زرتشتی، صوفی تصوف، عیسائیت اور یہودیت کے مختلف عناصر شامل کیے گئے ہیں۔

اس مذہب کا مرکزی عقیدہ یہ ہے کہ ایک خدا ہے جس نے انسانوں کو تخلیق کیا جبکہ باقی جاندار سات فرشتوں نے بنائے جن کی سربراہی مور فرشتہ ’ملک طاؤس‘ کرتے ہیں۔

محمود نے بتایا کہ ’یزیدیت کا اہم عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہم قدرتی دنیا کے ساتھ جڑے ہیں۔ قدرت کی قدیم عبادتوں میں بھی اس کی بنیادیں ملتی ہیں۔¬

’عبادت گاہ کے دروازے پر سیاہ سانپ قدرت کے احترام کی علامت ہے۔ ہم کبھی سانپ کو مارتے نہیں، خواہ وہ زہریلا ہو۔‘

یزیدیوں کے لیے سانپ ایک اہم علامت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب حضرت نوح کی کشتی کوہ ارارات پر ٹھہری تو ایک سانپ نے اپنے جسم سے اس کے سوراخ کو بھر دیا اور کشتی پر سوار تمام جانداروں کو ڈوبنے سے بچایا۔

جیسے مسلمان مکہ کی زیارت کرتے ہیں ویسے ہی یزیدی زندگی میں کم از کم ایک بار لالش کا دورہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عراق یا کردستان میں رہنے والے سال میں کم از کم ایک بار یہاں کی زیارت کرتے ہیں۔

عقیدت مندوں اور دیگرافرادکو اس عمارت میں داخلے کے لیے سادہ لباس پہننا ہوتا ہے اور مقدس مقام کے احترام میں ننگے پاؤں چلنا ہوتا ہے۔

یزیدی روایت کے مطابق عمارت کے ستونوں اور درختوں پر ریشم کے کپڑے کی گرہ باندھی جاتی ہے۔ مختلف رنگ سات فرشتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ہر گرہ عبادات کو نمایاں کرتی ہے۔ یزیدیوں کا ماننا ہے کہ پچھلے عقیدت مندوں کی گرہ کھولنے کا مطلب ہو گا کہ اس کی تمام خواہشات پوری ہوئیں۔

لالش میں 25 مستقل رہائشی ہیں۔ اس میں ایک پادری، مختلف راہب، نن اور ’گھر کے غلام‘ شامل ہیں جو صفائی ستھرائی، مرمت، باغات کی دیکھ بھال سمیت مختلف کاموں کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اخروٹ اور زیتون کے درختوں کا خیال رکھتے ہیں اور زیارت کرنے والوں کے لیے مٹی جمع کرتے ہیں۔

یہ کہا جاتا ہے کہ ہر یزیدی کے پاس لالش کی مٹی ہونی چاہیے جو وہ خوش قسمتی کی علامت کے طور پر اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ یہ مٹی یزیدیوں کی آخری رسومات کا بھی حصہ ہیں۔ مٹی اور مقدس پانی کا مرکب بنا کر اسے مرنے والے شخص کے منھ، کانوں اور آنکھیں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ تابوت میں سکے بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ مرنے کے بعد ایک شخص کے پاس جنت میں خرچ کرنے کے لیے پیسے ہوں، جو کہ بابل دور کی قدیم روایت بھی ہے۔

گھر کی دیکھ بھال کرنے والے ’غلام‘ بیماروں کے لیے شفا، مرنے والوں کی مغفرت اور زندگی میں خوش قسمتی کے لیے سفید دھاگے جلاتے ہیں۔

لالش کے جنگلات سے حاصل کردہ زیتون کو لڑکی کے بیرلز میں پیروں سے پیسا جاتا ہے اور اس کا تیل یہاں موجود غاروں میں مٹی کے برتنوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اسزیتون کا تیل مقدس عبادات کا حصہ ہے۔

یزیدی لوگ دن میں کم از کم دو بار سورج کی جانب رُخ کر کے عبادت کرتے ہیں، صبح اور مغرب کے اوقات ہیں۔ مغرب کے وقت زیتون کے تیل کے 365 چراخ جلائے جاتے ہیں، ہر چراخ سال کے ایک دن کی علامت ہے۔ یہ چراغ سورج اور خدا کی روشنی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اس مذہب میں روشنی کا بھی اہم کردار ہے۔ مرنے پر بھی یزیدیوں کو سورج کی جانب رُخ کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔

یزیدیوں کے عقائد کو غیر روایتی جان کر ان پر تشدد کی طویل تاریخ بھی ہے۔ محمود بتاتے ہیں کہ ’یہ سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے دور میں شروع ہوا۔ ہم اس کے بعد سے نسل کشی کے 70 سے زیادہ مختلف ادوار گن سکتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں صدام حسین اور (نام نہاد) دولت اسلامیہ نے ایسا کیا۔‘

محمود بتاتے ہیں کہ یزیدی مرد جو ’جمادانی‘ نامی پگڑی پہنتے ہیں وہ سفید رنگ کی ہوا کرتی تھی مگر جب لالش میں یہ سرخ اور سفید رنگ کی ہے جو یزیدیوں کے قتل عام کی علامت ہے۔ ’روایتی لباس سے ہم ان کا احترام کرتے ہیں جنھیں ہم نے کھو دیا۔ یہ ہماری روایات کو قائم رکھنے کا بھی طریقہ ہے۔‘

یزیدیوں کے لیے جمعے کا دن مقدس ہے۔ اس روز لالش میں لوگ وسیع پیمانے پر جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں اور سماجی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ لقمان کی بیوی عدی محمود نے کہا کہ وہ کھانا انھیں ایک ساتھ جمع کرتا ہے۔ انھوں نے مجھے ہی دوپہر کے کھانے کی دعوت پر مدعو کیا۔

کھلے کچن میں انھوں نے ایک دوسری خاتون کی مدد کے ساتھ مٹن کے کھانے تیار کیے۔

عدی نے مہمان نوازی کے دوران بتایا کہ یزیدی برداری میں مذہب کی تبدیلی یا دوسرے عقائد میں شادی کی اجازت نہیں۔ ’ہم اسی صورت اس مذہب کو خالص رکھ سکتے ہیں اور اپنے انداز زندگی کو قائم رکھ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہماری روحیں پُرمن رہتی ہیں اور ہم حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ گہری بنیایں نہ ہوں تو درخت گِر جاتے ہیں۔ یزیدیت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More