عمران خان: ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ہی مجھے سزا دلوانا ہے

بی بی سی اردو  |  Aug 03, 2023

BBC

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا نافذ ہے اور حکومت اکتوبر میں انتخابات کروانے سے بھاگ رہی ہے۔

بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں انٹرویو دیتے ہوئےتحریکِ انصاف کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ہی انھیں سزا دلوانا ہے۔

رواں برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو کریک ڈاؤن کا سامنا ہے اور عمران خان کا دعویٰ ہے کہ خود ان پر دو سو کے قریب مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا انھیں لگتا ہے کہ ان کے گرد قانون کا شکنجہ تنگ ہو رہا ہے، عمران خان کا کہا تھا کہ جب انھیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ان کی جماعت پارہ پارہ ہو جائے گی لیکن نتیجہ ان عمومی اندازوں کے برعکس نکلا اور اب انھیں اس کھیل سے ہی باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ پارٹی ختم ہو جائے گی اور عموما اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ایسا ہوتا بھی ہے لیکن اس کے بالکل برعکس پارٹی کی مقبولیت پہلے سے بھی ذیادہ بڑھ گئی اور یہ پاکستان میں بہت غیر معمولی بات تھی۔۔۔۔تو جب یہ مجھے گیم سے نکالنے میں ناکام ہو گئے تومجھ پر دو بار قاتلانہ حملے کیے گئےاور اس کے علاوہ اب تک میرے خلاف درج مقدمات کی تعداد 200 کے قریب ہو گئی ہے۔ یہ تمام کوششیں اس لیے ہیں کہ یہ مجھے جیل میں ڈال سکیں یا نااہل کروا سکیں یا دونوں کام کر سکیں‘۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’اب یہ (میرے خلاف) فوجی عدالتوں کی تیاری کر چکے ہیں اور معاملہ سپریم کورٹ میں ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کے لیے اجازت دیتی ہے کہ نہیں اور ان فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ہی مجھے سزا دلوانا ہے‘۔

Reutersعمران خان کی جماعت کی سابقہ قیادت اور بعض قریبی رہنما انھیں نو مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں

اس سوال پر کہ عدالتوں کی جانب سے ممکنہ نااہلی کا معاملہ کیا ان کے لیے ’جو بوؤ کے وہی کاٹو گے‘ کے مصداق نہیں کیونکہ وہ ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی کے حامی رہے ہیں، تحریکِ انصاف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کا معاملہ نواز شریف کے معاملے سے بالکل مختلف ہے۔

’ایک لفظہوتا ہے اخلاقی برابری۔ آپ اس بات کو بالکل غیرمتعلق بات سے جوڑ رہے ہیں۔۔۔اس کا مجھ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ (نواز شریف کے برعکس) مجھ پر 200 میں سے صرف دومقدمے کرپشن کے ہیں اور میں ان کا سامنا کر رہا ہوں اور میں نے کرپشن کی ہی نہیں اس لیےانھیں اس میں سے کبھی کچھ نہیں ملے گا تو آپ اس کا موازنہ مجھ سےنہیں کر سکتے۔ان کا لندن میں کروڑوں ڈالر مالیت کا پرتعیش فلیٹ تھا (جسے چھپایا) انھیں اس لیے سزا ہو گئی۔ اس وقت کیا ہو رہا ہے آپ اس کو دیکھیں‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی سے یہ سوال کیا گیا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ 2018 میں فوج کی مدد سے برسرِ اقتدار آئے اور اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں وہ فوج کے بہت قریب بھی رہے تاہم جب فوج نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تو انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ سیاست میں فوجی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور کیا یہ کھلی منافقت نہیں۔

اس سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت وہ واحد سیاسی جماعت ہے جسے فوجی آمروں نے نہیں بنایا تاہم یہ درست ہے کہ 2018 میں فوج نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ 2013 میں فوج نے نواز شریف کی پشت پناہی بھی کی تھی۔

’اگر 2018 میں فوج نے ہمارا ساتھ دیا ہوتا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کھلم کھلا ہمارے خلاف کیسی جاتی اور ابہمیں ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔ہم فوج کی وجہ سے اقتدار میں نہیں آئے۔ جہاں آپ درست ہیں وہ یہ ہے کہ فوج نے 2018 میں میری مخالفت نہیں کی تھی لیکن 2013 میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی پشت پناہی کی، انھیں اقتدار میں لائے۔ اسی لیے ہم نے 126 دن تک احتجاج کیا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔‘

Getty Imagesعمران خان نے کہا کہ انھوں نے 2013 کے الیکشن میں فوج کی جانب سے نواز شریف کو اقتدار دیے جانے پر 2014 کے دوران 126 روز کا دھرنا دیا تھا’نو مئی کے واقعات ایک منصوبہ بندی کا نتیجہ تھے‘

عمران خان نے ایک مرتبہ پھر نو مئی کو اپنی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’27 برس کی سیاست میں کیا میں نے کبھی کسی کو تشدد کرنے کو کہا ہے؟۔ ہمارے تمام احتجاج آئین کے اندر رہتے ہوئے پرامن رہے ہیں۔ احتجاج کی اجازت تو ہمیں آئین میں دی گئی ہے۔ جب ہمیں کوئی ناانصافی محسوس ہوتی ہے تو احتجاج کرنا ہمارا حق ہے اور وہ ہم نے کیا۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان چار مقامات پر جہاں پرتشدد مظاہرے ہوئے، ان پرتشدد کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہییں۔‘

عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نو مئی کو ان کی جماعت کے کارکنوں کو احتجاج پر اکسانے کا عمل منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا۔

’جب انھوں نے دیکھا مجھے کمانڈوز اٹھا کر لے جا رہے ہیں کیا اس پر کوئی احتجاج نہیں ہونا تھا۔۔۔ یہ سب پری لینڈ تھا۔ پولیس مجھے اٹھا سکتی تھی انھیں کمانڈوز کی کیا ضرورت تھی کہ وہ مجھے اٹھاتے اور سب کو مارتے کیونکہ وہ ردعمل چاہتے تھے لیکن ردعمل ہمیشہ کی طرح پرامن تھا۔۔۔ اب بات یہ ہے کہ کیا ہم جلاؤ گھیراؤ میں ملوث تھے؟ جلاؤ گھیراؤ صرف چار عمارتوں میں ہوا۔ انھوں نے ہمارے دس ہزار کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا۔‘

یاد رہے کہ نو مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں میں پرتشدد احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب پاکستان رینجرز کے اہلکاروں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری کی خبر سامنے آنے کے بعد مشتعل مظاہرین نے مختلف شہروں میں فوجی املاک اور کنٹونمنٹ علاقوں پر دھاوا بول کر وہاں توڑ پھوڑ کی۔

پرتشدد احتجاج کے دوران راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) اور آئی ایس آئی آفس (حمزہ کیمپ) کے داخلی دروازوں پر توڑ پھوڑ کے علاوہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا تھا۔

’اگر میری جماعت ختم ہو چکی ہے تو یہ الیکشن کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟‘

اس سوال پر کہ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ نو مئی کے واقعات کے نتیجے میں ان کی جماعت اپنا اصل وجود کھو بیٹھی ہے، عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ اگر میری پارٹی کا وجود نہیں ہے تو وہ الیکشنز کا اعلان کیوں نہیں کرتے وہ انتخابات سے کیوں بھاگے۔ اگر میری جماعت ختم ہو گئی ہے تو انھیں تو گھبرانا نہیں چاہیے۔

’مسئلہ یہ ہے کہ جماعت قائم ہے۔ انھوں نے ہر قسم کے حربے استعمال کر لیے ہیں۔۔۔دباؤ میں آ کر کچھ لوگ ضرور چھوڑ گئے ہیں لیکن اکثریت پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ میری ساری سینیئر لیڈرشپ جو گرفتار نہیں ہوئی ان میں سے کچھ منحرف ہوئے ہیں لیکن باقی چھپے ہوئے ہیں۔ میرے کارکنان چھپے ہوئے ہیں۔ میں اور چند اور لوگ چھپے نہیں ہوئے لیکن ہم اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان کے لیے واحد حل آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہی ہیں۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم موجودہ گند سے نکل سکتے ہیں۔ عوام کو ان کے نمائندوں کا انتخاب کرنے دیں اور پھر انھیں پاکستان کے مسائل حل کرنے دیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں سیاست سے باہر رکھنے کے لیے ملک کی جمہوریت کو توڑا جا رہا ہے۔۔۔ بدقسمتی سے ملک پر فاشسٹس کا قبضہ ہو گیا ہے اور وہ انتخابات سے خوفزدہ ہیں۔ مجھے اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ ہم جیت جائیں گے۔‘

کیا عمران خان نواز شریف کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار؟Getty Imagesعمران خان نے کہا کہ وہ نواز شریف (دائیں) سے بات چیت کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے

سٹیفن سیکر کے اس سوال پر کہ کیا وہ ملک کو بحران سے بچانے کے لیے اپنے مطالبات اور مفادات ایک طرف رکھ کر نواز شریف جیسے سیاست دانوں سے بات کرنے کو تیار ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ ملک بڑے بحران کے قریب ہے، ہم واقعی تاریک دور کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر اس وقت پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ ہم تاریک دور کی جانب جا رہے ہیں۔ لیکن اس کا حل کیا ہے؟

’کیا حل یہ ہے کہ ان لوگوں سے ہاتھ ملا لیا جائے جنھوں نے اس ملک کو 30 سالوں تک لوٹا۔ کیا اب مجھے ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جانا چاہیے جو اس ملک میں قانون کی حکمرانی کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، کیوں؟ تاکہ مجھے اقتدار ملے اس سے بہتر ہے میں اپوزیشن میں ہی رہوں۔ اقتدار میں آنے کا کیا مقصد جب آپ یہاں انصاف نہیں لا سکتے۔‘

’عوام کی نمائندگی نہ ہو تو دہشتگردی میں اضافہ ہوتا ہے‘

تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے۔ ’جب ہم اقتدار میں تھے تو دہشتگردی کیوں نہ تھی؟ اچانک دہشتگردی میں اضافہ کیوں ہوا؟ کیونکہ اب ان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ پختونخوا میں نگران حکومت ہے جو ان کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ آٹھ ماہ سے جاری ہے اور یہ غیر قانونی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کا حل شفاف انتخابات ہیں۔ ’لوگوں کو ان کے نمائندے چننے دیں پھر انھیں پاکستان کے مسائل حل کرنے دیں۔ ہم پاکستان میں دہشتگردی نیچے لائے تھے۔‘

سٹیفن سیکر نے پوچھا کہ ملک میں حالات قابو میں لانے کے لیے وہ سیاست سے کنارہ کشی کیوں نہیں اختیار کر لیتے۔ عمران خان نے جواب دیا کہ ’کیا ہم غلامی قبول کر لیں؟‘

انھوں نے کہا کہ انتہا پسندی کے خلاف ایسی قانون سازی ہونے جا رہی ہے جس کے مطابق ’انٹیلیجنس ادارے کسی بھی گھر بغیر وارنٹ چھاپہ مار سکتے ہیں۔ وہ کسی کو بھی گرفتار کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس کا سامنا ہے۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’انتخابات سے ملک میں استحکام آئے گا۔۔۔ جب عوام کی نمائندگی نہیں ہوتی اور انھیں مرکز کی جانب سے کنٹرول کیا جاتا ہے تو دہشتگردی ابھرتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More