گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں ملزمہ کی ضمانت میں توسیع: ’صورتحال بہتر نہ ہوئی تو بچی کو وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جا سکتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 01, 2023

Getty Imagesایف آئی آر کے مطابق متاثرہ بچی نے بتایا کہ ملزمہ اس پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور پھر کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ کی عبوری ضمانت میں سات اگست تک توسیع کر دی ہے۔

گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ اور اس کیس میں نامزد ملزمہ نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کی درخواست دائر کی تھی۔

ایڈشنل سیشنز جج عابدہ سجاد کی عدالت میں دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو یکم اگست تک حفاظتی ضمانت دی تھی جو آج ختم ہو رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ متاثرہ بچی ملزمہ کے گھر بطور ملازمہ کام کر رہی تھیں تاہم تشدد سے متعلق باقی باتیں ویسی نہیں ہیں جیسی ایف آئی آر میں درج ہیں۔

درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ درخواست گزار پڑھی لکھی خاتون ہیں اور انھوں نے کبھی متاثرہ بچی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا اس لیے ضمانت میں توسیع دی جائے۔

اس درخواست پر سماعت کے موقع پر ملزمہ کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔سماعت کے آغاز پر جج عابدہ سجاد نے دریافت کیا کہ ملزمہ کا اصل شناختی کارڈ کہاں ہے جس پر ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اصل شناختی کارڈ نہیں مل رہا جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کیا معلوم یہ ملزمہ ہیں بھی یا نہیں۔‘ عدالت نے کہا کہ جب تک ملزمہ کا اصل شناختی کارڈ نہیں آ جاتا تب تک اُن کی ضمانت کی درخواست پر سماعت نہیں ہو سکتی۔

عدالت کے اس حکم کے بعد سماعت میں مختصر وقفہ کیا اور وقفے کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ ملزمہ کو سات اگست کو متعلقہ ایڈیشنل اینڈ سیشنز جج فرخ حبیب بلوچ کی عدالت میں پیش کیا جائے۔

اس سے قبل پیر کے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے ملازمہ پر تشدد کی میڈیکل رپورٹ سامنے آنے کے بعد اس حوالے سے درج ایف آئی آر میں اقدام قتل سمیت مزید 9 دفعات بھی شامل کی تھیں۔

نئی وفعات میں اقدام قتل سمیت تشدد کے ذریعے کسی کو جرم قبول پر مجبور کرنا، زخمی یا مفلوج کرنا، ایسی کاری ضربیں لگانا جن سے ہڈیاں ٹوٹ جائیں اور بچوں پر وحشیانہ تشدد جیسی دفعات شامل ہیں۔ یاد رہے کہ میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں اس مقدمے میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 328 (اے) بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت طیبہ تشدد کیس میں ایک سابقہ جج اور ان کی اہلیہ کو کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کرنے کے جرم میں تین سال قید کی سزا دی گئی تھی۔

AFPپاکستان میں سنہ 2018 میں گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے کیس میں جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو مجموعی طور پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے بعد میں سپریم کورٹ نے کم کر کے ایک سال کر دیا تھا (فائل فوٹو)متاثرہ بچی کی طبعیت کیسی ہے؟

پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ لاہور کے پرنسپل پروفیسر فرید ظفر نے بی بی سی کو بتایا کے متاثرہ بچی کے زخموں کا بروقت علاج نہ ہونے کے باعث انفیکشن اس کے پورے جسم میں پھیل چکا تھا جس نے اس کے جسم کے مختلف اعضا کو شدید متاثر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خاص طور پر بچی کا جگر اور پھیپھڑے زیادہ متاثر ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہسپتال داخل ہونے کے بعد سے بچی کا جگر اب پہلے کے مقابلے میں کچھ بہتر کام کر رہا ہے مگر پھیپھڑے اب بھی متاثر ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات اُس کے خون میں آکسیجن کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔

پروفیسر فرید کے مطابق بچی کے ہسپتال داخل ہونے کے بعد دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ خون میں آکسیجن کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو جانے بعد بچی کو آکسیجن یعنی مصنوعی تنفس پر منتقل کرنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہی پیٹرن جاری رہا تو بچی کو وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جا سکتا ہے تاہم اس کا فیصلہ آئندہ 24 گھنٹے میں ہو گا۔

پروفیسر فرید کا کہنا تھا کہ بچی کی صحت کے حوالے سے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بچی کی حالت بدستور نازک ہے اور وہ ابتدا ہی سے آئی سی یو میں موجود ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ابتدا میں بچی کو ایمرجنسی میں لایا گیا تھا مگر ابتدائی معائنے کے بعد اسے آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ فی الحال انفیکشن پر کنٹرول کے لیے بچی کو اینٹی بائیوٹکس ادویات اور انجیکشن دیے جا رہے ہیں اور اگر صورتحال میں کچھ بہتری آئی تو وہ 48 گھنٹے کے بعد ہی یہ بتانے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ ریکوری کے کیا چانسز ہیں۔

ایف آئی آر اور میڈیکل رپورٹ میں کیا کہا گیا؟

اس کیس کی ایف آئی آر متاثرہ بچی کے والد کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ چھ ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کی والد کی جانب سے مذکورہ سول جج کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ اس پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔‘

مقدمے کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا ہے کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔

والد کے مطابق ملازمت پر جانے کے بعد ان کا کئی ماہ تک اس سے رابطہ بذریعہ فون ہوتا تھا تاہم چند روز قبل جب وہ بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔

ایف آئی آر میں والد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے ’جب ہم نے اس کمرے کا رخ کیا تو وہاں سے بچی زخمی حالت میں موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی۔‘

ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘

سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا تھا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم کے 15 مقامات پر زخموں کے نشانات ہیں۔ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘

میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More