’میری نانی نے اپنے والد کی جائیداد میں حصے کے حصول کے لیے اپنیآخری سانس تک کوششیں کیں لیکن بدقسمتی سے انھیں کامیابی نہیں مل سکی۔۔۔ اب یہ بیڑا میں نے اٹھایا ہے۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی وکیل فوزیہ مینگل کا جن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جائیداد میں اپنے خاندان کے حصے کے حصول کے لیے ناصرف قانون کی ڈگری حاصل کی بلکہ خود عملی طور پر وکالت بھی شروع کی۔
فوزیہ مینگل نے ابتدائی تعلیم خضدار ہی کے سرکاری تعلیمی اداروں سے حاصل کی جس کے بعد انھوں نے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا اور اسی دوران انھوں نے گریجویشن کی پرائیویٹ ڈگری حاصل کی۔
تاہم جلد ہی انھوں نے سرکاری ملازمت ترک کر کے لا کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد وکالت شروع کر دی۔
خضدار میں جو چند خواتین عملی طور پر وکالت کر رہی ہیں، فوزیہ ایڈووکیٹ اُن میں سے ایک ہیں۔
قانون کی ڈگری
فوزیہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کی نانی کے خاندان کی جائیداد خضدار شہر میں ہے۔ ’میری نانی کے والد نے وراثتی جائیداد سے متعلق دستاویزات میں میری نانی سمیت دونوں بیٹیوں کا نہ صرف نام شامل کیا تھا بلکہ ان کے حصے کا تعین بھی کیا تھا۔‘
فوزیہ کے مطابق نانی کے والد نے اپنی بیٹیوں کو بتایا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹیوں کا حصہ الگ کر رہے ہیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی وفات کے بعد وہ حصے سے محروم رہ جائیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ نانی کے والد کی وفات کے بعد ویسا ہی ہوا اور بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا گیا۔
’میں چھوٹی تھی تو میں نے دیکھا کہ نانی کس طرح لوگوں کو حصہ دینے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ جب وہ مایوس ہوتی تھیں تو مجھے کہتی تھیں کہ دیکھو یہ کس طرح مجھے تڑپا رہے ہیں۔‘
فوزیہ بتاتی ہیں کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اُن کے پاس دو راستے تھے: ایک نانی کی طرح قبائلی عمائدین سے درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتوں سے ریلیف کے لیے کسی وکیل کی فیس کے عوض خدمات حاصل کرنا جبکہ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ خود قانون کی ڈگری حاصل کر کے قانونی جنگ لڑیں۔
فوزیہ کے مطابق انھوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور ملازمت کو چھوڑ کر قانون کی ڈگری حاصل کی اور خود کیس لڑنا شروع کیا۔
’قبائلی معاشرے میں خواتین کو جائیداد کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے‘
فوزیہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ اسلامی اور ملکی قوانین میں خواتین کے حقوق ہونے کے باوجود معاشرے میں خواتین کو کیسے ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں ’لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین کا جائیداد میں کوئی حق نہیں بلکہ ان کا کام صرف گھروں میں جھاڑو دینا یا برتن دھونا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ پڑھی لکھی خاتون ہیں اور قانون کے شعبے سے منسلک ہیں مگر اس کے باوجود انھیں بعض اوقات اس قدر مشکلات پیش آتی ہیں کہ وہ بعض اوقات مایوس ہو جاتی ہیں۔ ’آپ اندازہ کریں کہ جو عام بلوچ خواتین ہیں ان کو کس قدر زیادہ مشکلات کا سامنا ہو گا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ پریشان ہوتی ہیں تو ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ’چھوڑ دو، تم ایک اکیلی خاتون ہو، یہاں انسانوں کی کوئی قدرنہیں، کہیں کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دے لیکن وقتی مایوسی کے بعد میں اپنے مشن پر دوبارہ لگ جاتی ہوں۔‘
’خواتین کے لیے ہر طرف مشکلات ہی مشکلات ہیں‘
فوزیہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ قبائلی سماج میں خواتین کو صرف جائیداد کے حصول میں ہی مشکلات کا سامنا نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ہر طرف مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
فوزیہ کے مطابق قبائلی معاشرے میں ویسے ہی تعلیم کے مواقع بہت زیادہ نہیں ہوتے اور اس پر ستم یہ ہے کہ مواقع میسر بھی ہوں تو آج بھی لوگ بچیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعلیم کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ وکالت کی تعلیم کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے باعث ہی انھوں نے خضدار سے کوئٹہ نقل مکانی کی تاکہ وہ تعلیم جاری رکھ سکیں۔
'میں نے پہلے خضدارمیں ایک پرائیویٹ ادارے میں ایل ایل بی کے لیے داخلہ لیا۔ ابتدا میں مجھے مالی حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں لوگوں کی طرح طرح کی باتیں سُن کر میں خضدار میں تنگ آ گئی جس کے باعث مجھے ایل ایل بی کے دوسرے سال میں کوئٹہ جانا پڑا۔‘
فوزیہ کے بقول خواتین کی تعلیم کے حصول کے حوالے سے خضدار کے مقابلے میں کوئٹہ کا ماحول زیادہ سازگار ہے۔
’جب میں نے پرنسیپل کو بتایا کہ میں خضدار سے قانون پڑھنے آئی ہوں تو وہ اس بات پر بہت زیادہ خوش ہوئے اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے میری فیس کوبھی معاف کیا۔‘
تعلیم کے بعد پریکٹس
فوزیہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ خضدار کے مقابلے میں کوئٹہ کا ماحول خواتین وکلا کے لیے بہت زیادہ بہترہے لیکن انھیں خضدار واپس آنا پڑا کیونکہ خضدار یہاں نہ صرف ان کا آبائی گھر تھا بلکہ انھوں نے اپنا مقدمہ بھی یہیں کی عدالت میں لڑنا تھا۔
’جب وکالت کی ڈگری کے حصول کے بعد پریکٹس کے لیے خضدار پہنچی تو کم لوگوں کو ہی اپنی موجودگی کے حوالے سے خوش دیکھا۔ بعض لوگوں کا طرزعمل بہت زیادہ عجیب تھا جس سے مجھے ایسا لگا کہ شاید میں پہلے والی فوزیہ نہیں ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ پریکٹس شروع کرنے کے بعد بعض لوگوں نے مجھے پریشان کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ میں یہ شعبہ چھوڑ دوں۔
فوزیہ کے مطابق پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت وہ علاقے جہاں قبائلی نظام ہے وہاں خاتون وکیل کو لوگ ایک عجیب مخلوق کی طرح دیکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’کورٹ اور گھرکے درمیان آمد و رفت کے دوران میں لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتی کہ یہ غیر مردوں کے ساتھ بیٹھتی ہے اور ان سے باتیں کرتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ سلوک صرف اُن تک محدود نہیں ہے بلکہ پریکٹس کی ابتدا کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ بعض خواتین وکلا کو ان سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’بلوچستان کے دور افتادہ علاقے کی ایک خاتون وکیل کے حوالے سے میرے علم میں یہ بات ہے کہ اُن کی شادی صرف اس لیے نہیں ہو سکی کیونکہ انھوں نے وکلالت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی طور پر پریکٹس شروع کر دی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خضدار یا بلوچستان کے دیگر اندرونی علاقوں میں خواتین کے لیے الگ بار رومز جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان سمیت چند خاتون وکلا نے متعلقہ حکام سے خواتین وکلا کو سہولیات کی فقدان کے حوالے سے درپیش مشکلات کے بارے میں بات کی لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
فوزیہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں خواتین وکلا کو بہتر سہولیات میسر ہیں اور کوئٹہ میں تو خواتین کے لیے وی آئی پی بار روم موجود ہے۔
ایک سوال پر انھوں بتایا کہ ان کو کلائنٹس کے حوالے سے مشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری رائے میں اگر خواتین وکلا زیادہ محنت کریں گی تو کلائنٹ ان کے پاس بھی جائیں گے، کیونکہ کلائنٹ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کون زیادہ محنت سے ان کا کیس لڑتا ہے۔‘