نسل پرستی اور امتیازی سلوک، یارکشائر کرکٹ کلب کو چار لاکھ پاؤنڈ جرمانہ

اردو نیوز  |  Jul 29, 2023

17 برس کی مدت میں کلب پر نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے الزامات کے نتیجے میں انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے کرکٹ ڈسپلن کمیشن نے یارکشائر پر چار لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور رواں برس کی کاؤنٹی چیمپیئن شپ میں اس کے 48 پوائنٹس کی کٹوتی کی ہے۔

برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق یارکشائر کلب اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گا۔ کرکٹ ڈسپلن کمیشن کے اس فیصلے سے اس ہنگامہ آرائی کا خاتمہ ہو گیا ہے جو کرکٹر عظیم رفیق کے ستمبر 2020 میں پہلی بار عوامی سطح پر کلب میں اپنے تجربات بتانے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

کلب نے چار الزامات کا اعتراف کیا، جن میں سے ہر ایک پر اسے الگ الگ جرمانہ عائد کیا گیا۔ عظیم رفیق کے تجربات کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کی وجہ سے 80 ہزار پاؤنڈ جرمانہ ہوا۔ اس رپورٹ سے متعلق ای میلز اور دستاویزات کو جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر حذف کرنے پر 50 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا گیا۔ نسل پرستانہ رویے کے الزامات پر بار بار کارروائی کرنے میں ناکامی اور 2004 اور 2021 کے درمیان ’نسل پرستانہ یا امتیازی زبان کے استعمال‘ کو روکنے میں ناکامی پر ان پر 135 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا گیا۔

کرکٹ ڈسپلن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یارکشائر کو گذشتہ تین برسوں کے دوران ’پہلے ہی مالی، تنظیمی اور شہرت کے لحاظ سے نمایاں طور پر سزا دی جا چکی ہے۔‘

رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ’کلب کی موجودہ مالی حالت نازک ہے اور مناسب جرمانے پر غور کرتے وقت کلب کی موجودہ مالی حالت کو بہت زیادہ ذہن میں رکھا گیا ہے۔‘

کرکٹر عظیم رفیق نے ستمبر 2020 میں پہلی بار عوامی سطح پر یارکشائر کلب میں اپنے تجربات کا ذکر کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے کرکٹ ڈسپلن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ نازک مالی حالت کی وجہ سے تین لاکھ پاؤنڈ ہیڈلائن جرمانے کو دو برس کے لیے معطل کر دیا جائے گا، لیکن اگر یارکشائر کو کرکٹ کے ضوابط کی مزید سنگین خلاف ورزی کا قصوروار پایا جاتا ہے تو اسے وصول کیا جائے گا، اور باقی ایک لاکھ پاؤنڈ جنوری اور ستمبر 2024 کے درمیان چار مساوی قسطوں میں ادا کیے جائیں گے۔ .

دوسری جانب یارکشائر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم پوائنٹس کی کٹوتی پر مایوس ہیں، اس سے کلب کے کھلاڑیوں اور عملے پر اثر پڑتا ہے جو اس صورت حال کے ذمہ دار نہیں تھے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More