Getty Images
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے رواں ہفتے صارفین کے آن لائن ڈیٹا کے تحفظ اور سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے چند مجوزہ قوانین کی منظوری دی ہے۔
ان بلوں میں آن لائن ہراسانی، سائبر بُلئنگ اور بلیک میلنگ جیسے جرائم کے متاثرین کی داد رسی کے لیے نئی اتھارٹی کے قیام کا اعادہ کیا گیا ہے۔
تاہم ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیموں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ متعلقہ تنظیموں اور افراد سے مشاورت کیے بغیر ’غیر شفاف انداز‘ میں کی جانے والی قانون سازی سے انٹرنیٹ سینسرشپ میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ اس ضمن میں حکومتی اختیارات مزید وسیع ہو سکتے ہیں۔
ان کے مطابق غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ڈیٹا مقامی سطح پر سٹور کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جس سے معاشی مشکلات سے دوچار ملک کی ڈیجیٹل اکانومی اور صارفین کی سروسز تک رسائی متاثر ہو سکتی ہیں۔
ان خدشات پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر آئی ٹی اور ٹیلیکام سید امین الحق نے کہا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن بل کا مسودہ گذشتہ تین سال کے دوران اس شعبے کے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد بنایا گیا جبکہ ای سیفٹی بل پر مشاورت ابھی جاری ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں سے ’تمام ڈیٹا‘ پاکستان میں سٹور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، بلکہ صرف ’کریٹیکل پرسنل ڈیٹا ملک کے اندر سٹور کرنا لازم ہوگا۔‘
ای سیفٹی اور ڈیٹا پروٹیکشن کے مجوزہ قوانین کیا ہیں؟
بدھ کے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سفارش پر صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ اور انفارمیشن سسٹم کے ناجائز وغیر قانونی استعمال کی روک تھام کے لیے ای سیفٹی بل 2023 کی اصولی منظوری دی۔
اس بل کا مسودہ تاحال عوامی سطح پر شیئر نہیں کیا گیا تاہم سرکاری سطح پر جاری کردہ بیان کے مطابق اس مجوزہ قانون کے تحت ملک میں تمام قسم کی آن لائن سروسز، آن لائن خریداری، مختلف کمپنیوں کو دیے جانے والے کوائف اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ بنایا جائے گا جبکہ آن لائن ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ایک ’جامع فریم ورک بنایا جائے گا۔‘
بیان کے مطابق ’بل کی منظوری کے بعد آن لائن ہراسانی، سائبر بُلئنگ، بلیک میلنگ جیسے گھناؤنے جرائم کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکے گا۔‘
وفاقی کابینہ نے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کی سفارش پر پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل 2023 کی بھی اصولی منظوری دی ہے۔
اس بل کے تحت حکومت، مختلف ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں ’صارف کے ذاتی کوائف اور ڈیٹا کی حفاظت یقینی بنائیں گی۔ اُن کی اجازت کے بغیر کسی بھی کمپنی، فرد یا حکومتی ادارے کو صارفین کے کوائف اور ڈیٹا دینے پر پابندی لگائے گی۔‘
قانون کے تحت صارفین کے نجی کوائف، ڈیٹا کو محفوظ کرنے اور شکایات کے ازالے کے لیے نیشنل کمیشن فار پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو ایک دیوانی عدالت کی حیثیت کا حامل ہو گا۔
وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کی وفاقی کابینہ سے اصولی منظوری کے بعد قواعد کے تحت اسے کابینہ کمیٹی برائے امور قانون سازی بھیجا جائے گا جس کی منظوری کے بعد اسے دوبارہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
وفاقی کابینہ کی حتمی منظوری کے بعد بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور منظوری کے بعد یہ قانون بن کر فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق قانون سازی پر اعتراض کیوں؟
ڈیجیٹل رائٹس کی کارکن فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ ان مجوزہ قوانین کے حوالے سے جو اطلاعات انھیں موصول ہوئی ہیں اُن کے مطابق یوٹیوب اور سوشل میڈیا سمیت انٹرنیٹ پر مواد کی نگرانی کے لیے ایک نئی اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
فی الحال پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) آن لائن مواد کی نگرانی کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کے کارکنان اور وکلا کو خدشہ ہے کہ اس نئی اتھارٹی کو میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر دیگر پلیٹ فارمز کے مواد پر بھی اختیار حاصل ہو گا۔
اس سوال پر کہ کیا حکومت اس کے ذریعے انٹرنیٹ سینسرشپ بڑھانا چاہتی ہے، فریحہ نے کہا کہ اس وقت پی ٹی اے قابل اعتراض مواد پر صارفین کو نوٹس بھیجتا ہے یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اسے حذف کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ ایف آئی اے قابل اعتراض مواد پر باقاعدہ کارروائی کرتا ہے اور اس ضمن میں مقدمہ درج کر کے کارروائی کی جاتی ہے۔ اُن کی رائے میں ایک اضافی اتھارٹی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بظاہر آن لائن مواد کے حوالے سے ریاستی اختیارات وسیع تر ہو جائیں گے۔ یعنی یہ مجوزہ قوانین نہ صرف صحافیوں بلکہ یوٹیوب پر کونٹینٹ کریئیٹرز، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے انفلوئنسرز کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایسا نہیں کہ ملک میں انٹرنیٹ سینسرشپ اور آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے سخت فریم ورک نافذ العمل نہیں، اور نہ ہی بات سیاسی یا دیگر متنازع موضوعات تک محدود ہے۔
فریحہ نے ٹک ٹاک کی بندش اور عدالت کے ذریعے بحالی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ایپس کئی لوگوں کی آمدن کا ذریعہ ہیں۔ یعنی اگر سوشل میڈیا پر کسی کو کوئی چیز ناگوار لگے اور وہ اسے رپورٹ کر دیں تو اس سے آن لائن مواد سے آمدن حاصل کرنے والوں کے لیے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پیکا 2016 کے ترمیمی بل کے مسودے، جسے جلد پارلیمان میں پیش کیا جائے گا، کے مطابق جعلی معلومات کی صورت میں پانچ سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس کا اطلاق اس صورت میں بھی ہو گا کہ اگر کسی خبر سے معاشرے میں خوف، پریشانی اور بد امنی پیدا ہو۔ ایف آئی اے کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ جعلی خبر پھیلانے کے ناقابل ضمانت جرممیں کسی کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
فریحہ کا کہنا ہے کہ صحافی اور سوشل میڈیا صارفین ’پی ٹی اے کے نوٹس یا ایف آئی اے کی طلبی سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ لوگ اپنا مواد ہٹانے پر مجبور ہوتے ہیں اور آئندہ کچھ بھی شائع کرنے سے جھجھکتے ہیں۔‘
ان کی رائے میں حکومت انٹرنیٹ کی مزید سخت نگرانی کے لیے سائبر بُلئنگ اور ہراسانی جیسے سنگین مسائل کو بطور جواز پیش کر رہی ہے۔ ’پیکا پر بھی یہی ہراسانی کا بیانیہ بنایا گیا، نیشنل ایکشن پلان کے وقت ویب سائٹس کی بندش کے لیے انتہا پسندی کا جواز دیا گیا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ کسی اچھے اقدام کی آڑ میں حکومتی ادارے اپنے اختیارات کو وسیع کرتے ہیں۔ ’پیکا کی دو، چار مخصوص شقیں ہیں جنھیں بار بار (دبانے کے لیے) استعمال کیا جاتا ہے۔‘
’ٹیکنالوجی ایپس پر پابندی لگے یا وہ ملک چھوڑ دیں تو پاکستانی صارفین متاثر ہوں گے‘Getty Images
آن لائن مواد کے علاوہ صارفین کا ڈیٹا بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ مجوزہ قوانین کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ نیٹ فلکس اور یوٹیوب جیسی غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیاں مقامی سطح پر اپنے سرورز قائم کریں تاکہ صارفین کا ڈیٹا ملک سے باہر نہ جائے۔
تاہم ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے مطابق ایسے قوانین کا مقصد شہریوں کی خودمختاری ہونا چاہیے تاکہ حکومتیں، کمپنیاں یا کوئی بھی ان کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔
حال ہی میں ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) - جس کے ارکان میں گوگل، میٹا، ٹوئٹر سمیت بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں شامل ہیں – نے ان مجوزہ قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی قانون سازی ڈیٹا کے تحفظ کے عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ایک بیان میں اے آئی سی نے کہا کہ ’اس سے ایسی غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس سے کاروباری لاگت بڑھے گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری رُک جائے گی۔‘
اس کا کہنا ہے کہ بل کے مطابق ٹیکنالوجی کمپنیوں کو صارفین کا ’حساس‘ ڈیٹا مقامی سطح پر سٹور کرنا ہو گا، یعنی اس سے تمام ذاتی ڈیٹا کی سرحد پار منتقلی روکی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستانی صارفین عالمی ڈیجیٹل سہولیات تک رسائی کھو دیں گے۔‘
’ایک ایسے مشکل وقت میں جب پاکستان کو معاشی پیداوار بڑھانی ہے، یہ بل ڈیجیٹل تجارت میں اضافی رکاوٹیں پیدا کرے گا۔‘
اے آئی سی نے کہا ہے کہ پاکستانی صارفین، کاروباروں اور ملکی پیداوار کے لیے یہ ایک اہم قانون سازی ہے جس کے لیے حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شفاف انداز میں مشاورت کرنا ہو گی۔
فریحہ عزیز نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں متنبہ کر چکی ہیں کہ ڈیٹا لوکلائزیشن اور سرور رجسٹریشن جیسی شرائط کی صورت میں ان کے لیے اپنی سہولیات پاکستان میں فراہم کرنا مشکل ہوجائے گی۔
انھوں نے کہا کہ مقامی کمپنیاں بھی کلاؤڈ بیسڈ سروسز جیسے ایمیزون اور مائیکرو سافٹ پر انحصار کرتی ہیں۔
’یا آپ انھیں بات نہ ماننے پر بند کر دیں گے یا وہ خود ہی ملک چھوڑ دیں گے۔ اس سے نقصان پاکستانی صارف کا ہی ہو گا۔۔۔ عالمی معیار کا انفراسٹرکچر اور مارکیٹ نہ ہونے پر آپ خود کو تنہا کر دیں گے۔‘
فریحہ نے کہا ہے کہ اگر حکومتی قوانین نافذ ہونے کے بعد غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیاں یہاں اپنے سروسز نہیں لائیں گی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مقامی صارفین کے پاس آن لائن سروسز تک رسائی ختم ہو جائے گی، اور ایسے میں پاکستانی صارفین ہی متاثر ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ مجوزہ قوانین ڈیجیٹل رائٹس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی روک لگا سکتے ہیں۔
مجوزہ ڈیجیٹل قوانین پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے آن لائن سروسز اور انٹرنیٹ سینسرشپ پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم گلوبل نیٹ ورک انیشیٹو نے کہا ہے کہ اس کے معاشی و سماجی نتائج ہو سکتے ہیں لہذا حکومت ایسی کسی بھی قانون سازی پر نظر ثانی کرے اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے۔
’صرف کریٹیکل پرسنل ڈیٹا کو ملک کے اندر سٹور کرنا لازم ہوگا‘
وفاقی وزیر آئی ٹی اور ٹیلیکام سید امین الحق نے بی بی سی کو دیے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران ڈیٹا پروٹیکشن بل پر مقامی و بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز سے کئی بار مشاورت کی گئی ہے جس کے بعد بل میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔
ان کے مطابق یہ کہنا غلط ہوگا کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں سے ’تمام ڈیٹا‘ پاکستان میں سٹور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، بلکہ ’صرف کریٹیکل پرسنل ڈیٹا ملک کے اندر سٹور کرنا لازم ہوگا۔‘
وزیر آئی ٹی نے مزید کہا کہ ای سیفٹی بل پر اہم سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔ اس بل کو ’کابینہ نے اصولی منظوری دی ہے اور تفصیلی غور و فکر کے بعد اسے مسودے کی شکل دی جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پہلے سے ہی سائبر بُلنگ، آن لائن ہراسانی اور بلیک میلنگ کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جا چکی ہے۔