Getty Images
کورونا کی وبا کے بعد دنیا بھر کے شہروں میں زندگی کا معیار ایک بار پھر سے بہتر ہو رہا ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی سالانہ گلوبل لیویبلٹی انڈیکس کے مطابق، جس میں دنیا کے 173 شہروں کو استحکام، صحت، ثقافت اور ماحولیات سمیت تعلیم اور انفراسٹرکچر کے پیمانوں پر پرکھا گیا ہے، مجموعی لحاظ سے رہائش کا معیار 15 سال کی بلندی پر پہنچ چکا ہے۔
اس اضافے کی وجہ ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ میں صحت اور تعلیم کے میعار میں بہتری بتائی جا رہی ہے اگرچہ کہ یوکرین کے تنازع سے جنم لینے والے عالمی افراط زر کے بحران کی وجہ سے استحکام کا سکور کم ہوا ہے۔
لیکن دوسری جانب کورونا کی وبا کے دوران عائد پابندیوں کے ختم ہونے کے بعد ثقافتی اور ماحولیاتی سکور بہتر ہونے کہ وجہ سے مجموعی طور پر بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔
اس انڈیکس کے تحت اعداد و شمار کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی شہر رہائش کے لیے کتنا موزوں ہے تاہم حقیقت میں اس شہر میں رہنے والے ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے تجربات کیسے ہیں۔
ہم نے اس رینکنگ میں سب سے اعلی 10 شہروں کے رہائشیوں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس مخصوص شہر میں کیوں رہائش پذیر ہوئے۔
Getty Imagesویانا، آسٹریا
آسٹریا کا دارالحکومت اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہی رہا ہے اور اس درجے میں صرف 2021 میں اس وقت تنزلی ہوئی تھی جب کورونا کی وجہ سے یہاں کے میوزیم اور ریسٹورنٹس بند ہو گئے تھے۔
تاہم ویانا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ شہر استحکام، نظام صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے اعتبار سے بہترین ہے۔
مینویلا فیلیپو دو ایسے ریسٹورنٹ کی مینیجر ہیں جن کو مشیلن سٹار مل چکا ہے۔ وہ اپنے شوہر کی مدد سے ان کو سنبھالتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اپنی تاریخ، قابل اعتبار پبلک ٹرانسپورٹ، کیفے، تھیٹر اور دیگر تفریحی مقامات تک آسان رسائی چند ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ویانا ایک دائمی تفریحی مقام کا درجہ رکھتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی ہم بہت کام کرتے ہیں اور بہت عرصے تک کہیں جانے کا وقت نہیں ملتا تو ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہم اپنی تمام تفریحی ضروریات شہر کی سرحد کے اندر ہی پوری کر سکتے ہیں۔‘
رچرڈ ووس ویانا کے ہوٹل ڈاس ٹگرا کے سیلز اور مارکیٹنگ مینیجر ہیں۔ ان کے خیال میں شہر کا رہائشی معیار ثقافتی تاریخ اور دستیاب سرگرمیوں کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ویانا میں کافی متاثرکن تاریخی عمارات ہیں جیسا کہ شونبرن محل، ہوفبرگ اور ویانا سٹی ہال۔ یہ شہر اپنی موسیقی کی روایات کی وجہ سے بھی مشہور ہے کیونکہ موزارٹ، بیٹہوون اور سٹراس یہاں رہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ شہر کے متعدد میوزیم، تھیٹر اور اوپرا ہاوس رہائشیوں کو ان ثقافتی روایات سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔
وہ تجویز دیتے ہیں کہ لوگوں کو ویانا کی خوارک کی ثقافت سے بھی بہرہ مند ہونا چاہیے۔
Getty Imagesمیلبورن، آسٹریلیا
آسٹریلیا کے شہر میلبورن اور سڈنی، دونوں نے اس بار رینکنگ میں تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے جو کورونا کی وبا کے دوران ان سے چھن گئی تھی کیونکہ آسٹریلیا میں نظام صحت کافی دباؤ کا شکار ہو گیا تھا۔
تاہم اس بار خصوصی طور پر میلبورن نے ثقافت اور ماحولیات کے معاملے میں اچھا سکور حاصل کیا ہے اور یہاں کے باسی ان پر فخر کرتے ہیں۔
جین موریل کیرر سولوشنز کی سی ای او ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میلبورن کھانے، ثقافتی سرگرمیوں، تقریبات کے علاوہ بین الاقوامی کھیلوں جیسا کہ آسٹریلیا فارمولا ون اور آسٹریلین اوپن کی وجہ سے اعلی شہر ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’شہر میں سفر کرنا بھی کافی آسان ہو چکا ہے‘ جس کی وجہ ٹرامز ہیں جن پر باآسانی چڑھا اور اترا جا سکتا ہے۔ میلبورن دنیا کے مشہور ساحلوں سے بھی کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔
کمی کونر کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی بلاگر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دیگر شہروں کے مقابلے میں میلبورن کچھ وقت لیتا ہے۔
’سڈنی بہت خوبصورت ہے کیونکہ وہاں کافی اچھے نظارے ہیں، ساحل اور تاریخی عمارات ہیں لیکن میلبورن عمارات کا شہر نہیں، یہ ثقافت کا شہر ہے اور اسے دریافت کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میلبورن کی نبض دریافت کرنے کے لیے آپ کو کسی کیفے میں بیٹھ کر اپنی زندگی کی سب سے اچھی کافی پینا ہو گی، آپ کو شہر میں موجود ریسٹورنٹ میں مختلف کھانے کھانا ہوں گے اور ایسی چھپی ہوئی بار تلاش کرنا ہوں گی جو کسی پراسرار دروازے یا الماری کے پیچھے موجود ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ میلبورن کے لوگ سڈنی سے زیادہ اچھے ہیں۔ جین موریل بھی رہائشیوں کے مثبت رویے کو ایک نکتہ بتاتی ہیں جس کی وجہ سے شہر کا سکور اچھا رہتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میلبورن کے لوگ کافی دوستانہ ہیں۔‘
Getty Imagesوینکوور، کینیڈا
اس فہرست میں کینیڈا کے تین شہر پہلے 10 شہروں میں شامل ہیں جن میں وینکوور، کیلگری اور ٹورنٹو شامل ہیں۔
تاہم ان میں وینکوور سب سے اوپر پانچویں نمبر پر ہے جس کی وجہ اس کا ثقافت اور ماحولیات میں سکور ہے۔ یہاں کے باسی بھی اسی وجہ سے وینکوور سے محبت کرتے ہیں۔
ٹونی ہو ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وینکوور جنگل، سمندر اور آسمان تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارا ٹرانزٹ نظام کسی خوبصورت انگلش ساحل سے شہر کے بلند پہاڑ تک ایک ہی دن میں لے جا سکتا ہے، اب چاہے آپ بس پر سفر کریں، سائیکل پر یا کشتی پر۔‘
وہ شہر کے متنوع پکوانوں سے بھی رغبت رکھتے ہیں جو اس شہر کی کثیر الثقافتی شناخت کا حصہ ہے۔ یہاں ایتھوپیا کی انجیرا سے لے کر تبت کے مومو تک مل جائیں گے۔
ٹونی ایک چھوٹے بچے کے باپ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی لیے وہ شہر کے لاتعداد پارک اور ساحلوں کے معترف ہیں جو شہر کے مرکز سے 20 منٹ سے کم فاصلے پر موجود ہیں۔ ’یہ ایسی چیز ہے جو میں اپنے بچے کی ساری زندگی تک رسائی میں رکھنا چاہوں گا۔‘
دنیا کے مختلف ممالک سے کاروبار کرنے والے بھی یہاں کی امیگریشن پالیسی کی وجہ سے کھچے چلے آتے ہیں۔
جو ٹولزمان راکٹ پلان نامی موبائل پلیٹ فارم کے سی ای او ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا تعلق کرویشیا سے ہے اور میں کسی ایسے شہر کی تلاش میں تھا جو ترقی کو فروغ دیتا ہو لیکن متحرک ہو اور لوگوں کو قبول کرتا ہو۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کاروبار شروع کرنے کے لیے وینکوور کی سب سے اچھی بات یہاں کے لوگ ہیں۔ ’آپ اپنے سفر کے دوران پر موقع پر کسی سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں کی کاروباری کمیونٹی بہت مدد کرنے والی ہے۔‘
کاروبار کے علاوہ یہاں کے نظارے بھی کافی خوبصورت ہیں۔ جو کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے وقفے کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک جانب سمندر ہے اور گلی کی دوسری جانب پہاڑ۔‘
Getty Imagesاوساکا، جاپان
اوساکا اس انڈیکس میں 10ویں نمبر پر ہے اور یہ ایشیا کا واحد شہر ہے جو پہلے 10 شہروں میں شامل ہے تاہم اوساکا نے استحکام، نظام صحت اور تعلیم میں 100 فیصد سکور حاصل کیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، یہ ایک ایسا شہر ہے جو کافی سستا ہے اور یہاں کے باسی بھی اس خوبی سے خوش ہیں۔
شرلی زینگ وینکوور سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اب جاپان کے شہر اوساکا میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اوساکا میں کرایہ جاپان یا دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح بہت زیادہ نہیں۔ میرا کرایہ تقریبا 410 یورو یا 700 کینیڈین ڈالر فی ماہ بنتا ہے جس میں پانی، انٹرنیٹ اور باقی سہولیات شامل ہیں۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا اپارٹمنٹ ہے لیکن یہ نیا اور صاف ستھرا ہے۔ اگر آپ وینکوور میں ایسی جگہ لیں تو اس کا کرایہ کینیڈین ڈالر میں 1200 سے کم نہیں ہو گا۔‘
یہاں باہر کھانا بھی مقامی لوگوں کے نزدیک ایک اہم چیز ہے۔ جیمز ہلز کا کہنا ہے کہ ’میرا تعلق برطانیہ سے ہے جہاں باہر کھانا جیب پر بھاری پڑتا ہے لیکن اوساکا میں اچھے معیار کے ریسٹورنٹ میں کافی سستا کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ اور آپ روزانہ باہر کھا سکتے ہیں۔‘
یہ شہر باقی شہروں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ بھِی تصور کیا جاتا ہے۔ شرلی زینگ کا کہنا ہے کہ ’میں رات میں بھی پیدل چلتے ہوئے خود کو محفوظ تصور کرتی ہوں۔‘ ان کو کبھی اپنا پرس چوری ہونے کی فکر نہیں ہوئی۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں کا قابل اعتماد پبلک ٹرانسپورٹ نظام بھی کافی فائدہ مند ہے۔ جوناتھن لوکاس کا کہنا ہے کہ ’شہر اور ارد گرد کے علاقوں میں ٹرین کا وسیع نظام موجود ہے۔ شہر سے باہر کیوٹا، نارا اور کوبے جیسے شہروں تک جانا کافی آسان ہے۔‘
Getty Imagesآکلینڈ، نیوزی لینڈ
اوساکا کے ساتھ 10ویں نمبر پر براجمان آکلینڈ شہر نے گزشتہ ایک سال میں 25 درجے ترقی کی ہے۔
ستمبر 2022 تک اس شہر میں کورونا کے بعد عائد ہونے والی پابندیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں تھیں۔
تاہم تعلیم کے ساتھ ساتھ اس شہر نے ثقافت اور ماحولیات میں بھی کافی اچھا سکور حاصل کیا ہے۔ ان اعداد و شمار پر یہاں کے رہائشی بھی اعتماد کرتے نظر آئے۔
میگن لارنس ایک بلاگر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آکلینڈ میں رہنے والوں کے لیے ایک خوبصورت ساحل 20 منٹ کی دوری پر ہے۔
’شہر کے گرد بہت خوبصورت سبزہ ہے اور آپ آسانی سے وہاں جا کر شہر سے فرار حاصل کر سکتے ہیں۔‘
یہ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں عالمی سطح کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ 2023 کا فیفا وومین ورلڈ کپ بھی یہیں ہو رہا ہے۔
گریگ ماریٹ ایک ٹریول کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس سب سے بہترین کنسرٹ، شو اور کھیلوں کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اگلے ہفتے میں آکلینڈ میوزیم میں مصر کے فرعون کے بارے میں تقریب منعقد ہو رہی ہے۔‘
وہ شہر کے ساحل کی بھی تعریف کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسے ’سٹی آف سیلز‘ کا نام دیا گیا ہے۔
نیوزی لینڈ کافہ متنوع ملک ہے اور اسی لیے یہاں دنیا بھر کے پکوان بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ لارنس کا کہنا ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود یہاں کی سب سے اچھی بات لوگوں کا دوستانہ رویہ ہے۔
’زیادہ تر لوگ ہمیشہ مدد فراہم کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور جب آپ پیدل چل رہے ہوتے ہیں تو لوگ آپ کو ہیلو کہتے ہیں۔ مجھے اس بات سے پیار ہے کہ یہاں لوگ کس طرح مسکرا کر آپ کو ہیلو کہتے ہیں۔‘