Reuters
نسلی فسادات سے متاثرہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں حکام کی جانب سے انٹرنیٹ تک رسائی محدود کرنے کی کوششوں کے باوجود وسیع پیمانے پر فیک نیوز شیئر کی جا رہی ہے۔
منی پور میں اکثریتی میتی اور قبائلی کوکی برادری کے درمیان تنازع اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا جب ایک ہجوم کی جانب سے خواتین کے برہنہ پریڈ اور جنسی تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی۔
انتباہ: اس تحریر میں بعض تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی ہیں۔
جنسی تشدد کے جعلی دعوے
منی پور میں مئی کے اوائل میں فسادات شروع ہوئے اور اس وقت سے خواتین پر حملوں سے جڑے جھوٹے اور غلط دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
حکام نے 3 مئی کو ’سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور جھوٹے دعوؤں‘ کی گردش روکنے کے لیے موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کی۔ ایک روز بعد پوری ریاست میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی۔
BBC
مگر اس وقت تک فیک نیوز پھیلنا شروع ہوچکی تھی۔ پلاسٹک بیگ میں لپٹی ایک خاتون کی لاش کی جعلی تصویر گردش کرنے لگی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ میتی برداری کی خاتون نرس تھیں جنھیں کوکی برادری کے مردوں نے ریپ اور قتل کیا۔
ضلع چورا چاند پور میں فسادات 3 مئی کو شروع ہوئے جس کے بعد یہ تصویر نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ واٹس ایپ گروپس میں بھی پھیلائی جانے لگی۔
تصویر سے جڑے دعوے اس لیے غلط ہیں کیونکہ اس کا منی پور سے کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔ یہ 21 سال کی ایوشی چوہدری کی تصویر ہے جنھیں گذشتہ سال نومبر کے دوران دلی میں قتل کیا گیا تھا۔
اسی طرح 5 مئی کو سوشل میڈیا پر 37 میتی خواتین کے ریپ اور قتل کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا۔ ایسی قیاس آرائیاں بھی سامنے آئیں کہ منی پور کے دارالحکومت امفل میں میتی برادری سے تعلق رکھنے والا سات سال کا بچہ مارا گیا جس کا ’شیجا ہسپتال‘ میں پوسٹ مارٹم بس ہونے لگا ہے۔
ٹوئٹر پر کئی صارفین نے اس دعوے کو دہرایا مگر ان کی پوسٹوں میں درج الفاظ ایک جیسے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد نئے صارفین کی تھی جن کے اکاؤنٹس سے یہ پوسٹیں کی گئیں۔
بی بی سی نے منی پوری زبان میں یہ پیغام دیکھا ہے جس میں ایسے غلط دعوے کیے گئے۔ منی پور کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ موبائل انٹرنیٹ کی معطلی کے باوجود ٹیکسٹ میسجز میں یہ پیغام پھیلانا ممکن تھا۔
یہ دعویٰ جھوٹا اس لیے ہے کیونکہ امفل کے شیجا ہسپتال نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک نجی ہسپتال ہے، جہاں پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت نہیں۔
BBCمیانمار کی ویڈیو جسے منی پور سے جوڑا گیا
سڑک پر ایک خاتون پر تشدد کی تکلیف دہ ویڈیو بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو منی پور کے حالیہ فسادات کی ہے۔
جون کے اواخر میں اس ویڈیو کو منی پور کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کیا گیا اور اس پر ہزاروں ویوز آئے۔ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس میں موجود خاتون کوکی برادری کی ہے جسے میتی کے مسلح افراد نے قتل کیا۔
کچھ ہفتے قبل یہ ویڈیو اسی دعوے کے ساتھ دوبارہ گردش کرنے لگی۔
جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ویڈیو منی پور کی ہے نہ اس میں موجود خاتون کا تعلق کوکی برداری سے ہے۔
دراصل یہ ویڈیو ہسمایہ مملک میانمار کی ہے۔ یہ واقعہ جون 2022 میں ہوا جب منی پور میں فسادات نہیں ہو رہے تھے۔ انڈیا میں فیکٹ چیکنگ کی ایک ویب سائٹ نے اس ویڈیو کی حقیقت سے پردہ اٹھایا۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ اس ویڈیو کو کس انتہا تک پھیلایا گیا تاہم یہ منی پور کی حد تک گردش کر رہی تھی کیونکہ یہاں کی پولیس نے متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر کسی نے اس ویڈیو کو شیئر کیا تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
BBCمسلم مرد کی گرفتاری کی گمراہ کن خبر
ریاستی اقدامات، انٹرنیٹ کی معطلی اور فیکٹ چیکنگ کے باوجود غلط معلومات کی گردش کا نظام جاری ہے۔
19 جولائی کو منی پور کے فسادات عالمی توجہ کا مرکز بنے۔ مئی کے دوران مشتعل ہجوم کی جانب سے کوکی برداری کی خواتین پر تشدد کی ویڈیو نے سب کی آنکھیں کھول دیں مگر اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے اگلے ہی روز یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث مسلم شخص گرفتار ہوا ہے۔
حکمراں بی جے پی کے سیاستدان تاجندر پال سنگھ بگا اس جعلی خبر کو شیئر کرنے والوں میں سے تھے۔ ان کے ٹویٹ پر لاکھوں ویوز اور ہزاروں ری ٹویٹس کیے گئے۔
اس پیغام میں درج تھا کہ ’منی پور کیس کا مرکزی ملزم‘ گرفتار ہوگیا ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں خواتین پر تشدد کی وائرل ویڈیو کا تذکرہ نہیں کیا مگر ’منی پور کیس‘ سے ان کا مطلب بظاہر یہی تھا۔
BBC
یہ پیغام گمراہ کن تھا کیونکہ منی پور کی پولیس نے درحقیقت ایک دوسرے معاملے میں ایک مسلم مرد کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے واضح کیا کہ یہ گرفتاری ایک دوسرے علاقے میں ہوئی اور اس کیس کا خواتین پر جنسی تشدد کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی نے غلط خبر دینے کے بعد خود ہی اپنی تصحیح کر لی اور اس غلط فہمی کو پولیس کے ٹویٹ سے جوڑ دیا۔
تاہم بی جے پی کے سیاستدان نے اپنے اصل ٹویٹ پر کوئی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی اسے حذف کیا۔ انھوں نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا بھی کوئی جواب نہ دیا۔
احمد نور کی اضافی تحقیق
https://twitter.com/ANI/status/1682253946650525698