Getty Images
پٹنہ کی رہنے والی سنجنا (فرضی نام) 22 سال کی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے انجینیئر سنجنا کہتی ہیں کہ ’پڑھائی کے دوران میں ایک ریلیشن شپ میں تھی۔ جب میرا بریک اپ ہوا تو میں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی رونے لگتی۔ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔‘
سنجنا کہتی ہیں کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے کمزور مرحلہ تھا۔ میں نے پہلے کبھی شراب نہیں پی تھی لیکن سب کچھ بہت تیزی سے ہوا تو جب بھی دباؤ ہوتا تھا، میں شرابپی لیتی۔‘
’کئی مہینے تک یہ ہوتا رہا۔ کھانے پینے کا نہ تو خیال رکھتی اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔‘
سنجنا نے بتایا کہ جب ان کے والدین کو ان کے دوستوں کے ذریعے اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔
’انھوں نے میرا مسئلہ سمجھا اور میرا علاج کروایا۔ میری کونسلنگ کی گئی اور پھر بحالی کے لیے میرا علاج شروع ہوا۔‘
سنجنا کہتی ہیں کہ ’کئی ماہ کے علاج کے بعد میں نشے کی لت پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی۔ اب میں نوکری کے لیے پونا جا رہی ہوں۔ یہ میری زندگی کی نئی شروعات ہے۔‘
سنجنا اکیلی ایسی لڑکی نہیں بلکہ ان جیسی سینکڑوں لڑکیاں ہیں، جو کبھی جذبات میں آ کر اور کبھی دوستوں کے دباؤ میں آکر کوئی نہ کوئی نشہ لینا شروع کر دیتی ہیں۔
’لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ عادی نہیں ہوں گے لیکن وہ پھنس جاتے ہیں‘
پٹنہ کے انسداد منشیات کے مرکز سے وابستہ ڈاکٹر پرتیبھا کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں یہ لت غیر ارادی طور پر شروع ہوتی ہے۔ ’آپ کو احساس تک نہیں ہوتا کہ آپ کسی نشے کا شکار ہو رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر پرتیبھا بتاتی ہیں کہ ’کئی بار لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے۔ وہ عادی نہیں ہوں گے لیکن وہ جلد ہی اس لت کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔‘
’پھر آپ کو اس کی خواہش ہونے لگتی ہے اور آپ کو اس کی لت لگ جاتی ہے لیکن اس لت سے نکلنا زیادہ مشکل نہیں۔ اگر آپ کو اپنے گھر والوں کا تعاون حاصل ہو تو آپ صرف چند ماہ کی مشاورت اور علاج میں اس لت سے نکل سکتے ہیں۔‘
Getty Images
کنگز کالج لندن کی پروفیسر شیلی مارلو کا دعویٰ ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں نشے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
اپنی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ انھیں بھی 25 سال کی عمر میں نشے کی لت لگ گئی تھی، جس کے بعد انھیں تھراپی لینا پڑی۔
شیلی مارلو ان خواتین کی مدد کے لیے کام کر رہی ہیں، جو جوئے اور منشیات کی لت کا شکار ہیں۔
وہ بتاتی ہے کہ ’اگر خواتین میں کسی بھی قسم کی لت ہوتی ہے تو انھیں مدد نہیں ملتی۔ وہ اس بدنما داغ کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔‘
انڈیا کی وزارت اطلاعات وہ نشریات کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 میں 18 سے 75 سال کی عمر کے 15 کروڑ سے زیادہ لوگ شراب کے عادی تھے۔
اس کے علاوہ لوگ بہت سی دوسری لت کا بھی شکار تھے۔ حکومت کے اِن اعداد و شمار سے معلوم نہیں ہو سکا کہ اِن میں خواتین کی تعداد کتنی ہے لیکن یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں۔
انڈین حکومت ایسے لوگوں کے لیے ’نشا مکت بھارت ابھیان‘ (منشیات سے پاک انڈیا) مہم چلا رہی ہے۔
’خواتین میں ابھی بھی بیداری نہیں‘
پٹنہ کی ایک معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر ورندا سنگھ کا خیال ہے کہ آج بھی خواتین میں کسی بھی قسم کی لت کے حوالے سے اتنی بیداری نہیں۔ ’ان کی ہچکچاہٹ ختم نہیں ہوئی اور نشہ صرف شراب، سگریٹ یا گانجے کا ہی نہیں ہوتا۔‘
سوشل میڈیا کے استعمال کی بڑھتی ہوئی لت اور زیادہ صفائی کی لت بھی خواتین کے روزمرہ کے معمولات اور صحت پر برے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ابھی میں ایک ایسی خاتون کی کونسلنگ کر رہی ہوں جو گھر کو ہر وقت صاف رکھنے کی عادی ہیں۔ جیسے ہی اس کے گھر کوئی مہمان آتا ہے، اس کے جاتے ہی وہ صفائی کرنے لگتی ہے۔ اس سے پریشان ہو کر اس کا شوہر اسے میرے پاس لے آیا۔‘
ڈاکٹر ورندا سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پٹنہ، رانچی، رائے پور، وارانسی جیسے شہروں میں نشے کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس آنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد میں بہت فرق ہے۔
ایک اوسط کے مطابق ہر 10 مریضوں میں سے خواتین کی تعداد صرف ایک ہے۔
Getty Imagesانڈیا کے بڑے شہروں میں کیا حالات ہیں؟
ممبئی میں خواتین کے لیے بحالی کا ایک سینٹر چلانے والی ڈاکٹر آشا لیمے کہتی ہیں کہ میٹروپولیٹن شہر میں خواتین چھوٹے شہروں کی نسبت زیادہ باشعور ہیں۔ ’وہ اپنے مسائل بتاتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی صحت بہتر ہوتی ہے۔‘
سینٹرل انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری، رانچی کے انسداد منشیات سینٹر کے ڈاکٹر روشن وی کھاننڈے کہتے ہیں کہ چھوٹے شہروں میں بھی نشے کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ان میں 18 سے 28 سال کی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ شراب، گانجا، منشیات یا اس جیسی دوسری چیزوں کی عادی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اچھی بات ہے کہ لڑکیاں بھی اپنے علاج کے لیے بحالی مراکز میں آ رہی ہیں لیکن خواتین کے زیادہ تر سامنے نہ آنے کی بڑی وجہ سماجی بدنامی ہے۔
نشے سے بچنے کا طریقہ
رانچی میں نشہ چھڑانے کے ایک مرکز کی سربراہ سسٹر اینا بارکے کہتی ہیں کہ کئی بار لوگ نشے سے چھٹکارا پانے کے بعد دوبارہ اس کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، خاص طور پر شراب اور سگریٹ کے معاملات میں۔
’ہم اکثر ایسے معاملات دیکھتے ہیں، جب ہمیں مریضوں کی دوبارہ کونسلنگ کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ دوبارہ نشہ شروع کر دیتا ہے۔‘
نشے کی لت سے بچنے کے لیے وہ کچھ تجاویز دیتی ہیں:
کسی بھی قسم کی پریشانی کی صورت میں اپنے گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ اپنے مسائل بیان کریں۔ نشہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ کوئی 30 ملی لیٹر شراب کا عادی ہو سکتا ہے، جبکہ کوئی زیادہ شراب پینے کے بعد اس کا شکار ہو سکتا ہے۔گفتگو میں مسائل کے حل تلاش کرنے سے آپ کو نشے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے بعد بھی اگر کسی قسم کی لت لگ جائے تو اسے چند ماہ کے علاج اور مشاورت سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔