Getty Imagesنیورو سائیکیاٹرسٹ الوس الزائمر
سنہ 1901 کا سال تھا جب نیورو سائیکیاٹرسٹ الوس الزائمر کی ایک ایسی مریضہ سے ملاقات ہوئی جن میں مرض کی تشخیص نے انھیں طب کی دنیا میں معروف شخصیت بنا دیا۔ اُس مریضہ کا نام آگسٹے ڈیٹر تھا۔
ماہر نفسیات کے سامنے ایک ایسا عجیب و غریب کیس تھا جو انھوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’میرے سامنے وہ خاتون ایک بستر پر بیٹھی تھی۔ میں نے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب دیا آگسٹے۔ میں نے دریافت کیا کہ شوہر کا نام؟ اس نے جواب دیا ’میرا خیال ہے آگسٹے۔‘ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کو میرا سوال سمجھ نہیں آیا۔‘
یادداشت کا کھو جانا، بات سمجھ نہ آنا، پاگل پن، غیر متوقع رویہ اور نفسیاتی اعتبار سے معاشرتی معذوری ان چند علامات میں شامل تھے جو 51 سالہ جرمن خاتون میں ظاہر ہو رہی تھیں۔
ڈاکٹڑ الزائمر نے کافی عرصہ تک اُن کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک ایسے مرض کی تشخیص کی جو اس وقت نامعلوم تھا، لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ اس بیماری سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہیں۔
ڈاکٹر الزائمر نے اس کو ’بھول جانے والی بیماری‘ کا نام دیا تھا۔
آغازBBCآگسٹے ڈیٹر: وہ مریضہ جن کی وجہ سے الزائمر کی تشخیص ممکن ہو پائی
آپ نے بھی شاید اپنی زندگی میں ’الزائمر‘ کا لفظ کئی بار سنا ہو گا۔
لیکن اس بات کا بھی کافی امکان ہے کہ آپ نے اس ڈاکٹر کے بارے میں کبھی نہیں سُنا ہو گا جنھوں نے اس بیماری کو دریافت کیا اور جن کی وجہ سے اس بیماری کا یہ نام پڑا۔
الوس الزائمر جرمنی کی ریاست بویریا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں 14 جون 1864 میں پیدا ہوئے تھے۔
انھوں نے اپنے والد کی خواہش پر جرمنی کے دارالحکومت برلن میں طب کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد شعبے کے اعتبار سے ایک نوٹری تھے۔
سنہ 1887 میں وہ اپنے آبائی شہر واپس چلے گئے اور یونیورسٹی آف ورزبرگ سے تعلیم مکمل کی۔
ان کو نفسیات، نیورو پتھالوجی اور ذہنی صحت کی تعلیم میں دلچسپی تھی۔
23 سال کی عمل میں گریجوئیشن کے بعد ان کی خدمات ایک ایسی خاتون کے علاج کے لیے مستعار لی گئیں جن کو ذہنی مسائل کا سامنا تھا۔
اس مریضہ کے ساتھ انھوں نے پانچ ماہ کا وقت گزارا تاکہ وہ اس کی بیماری کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔
اس تجربے کے بعد ان کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ذہنی مسائل سے متاثرہ مریضوں کے میونسپل ہسپتال میں کام کرنے کا موقع ملا۔
اس ہسپتال میں انھوں نے ’سرییبرل کورٹیکس‘، جو دماغ کی سب سے باہر والی سطح ہوتی ہے، کی تحقیق میں مہارت حاصل کی۔
اسی ہسپتال میں ان کی ملاقات مشہور نیورو پیتھالوجسٹ فرانز نسل سے ہوئی۔ وہ دونوں ایک ہی لیبارٹری میں کام کرتے تھے اور ان کی گہری دوستی ہو گئی۔
ان دونوں نے مل کر ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار مریضوں پر مختلف تحقیقات کیں۔
سنہ 1894 میں ڈاکٹر الزائمر کی نتھالی گیزینحائمر سے شادی ہوئی اور دونوں کے تین بچے ہوئے۔ سنہ 1902 میں ڈاکٹر الزائمر کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔
آگسٹے ڈیٹر سے ملاقاتBBCالوس الزائمر نے ’سرییبرل کورٹیکس‘، جو دماغ کی سب سے باہر والی سطح ہوتی ہے، کی تحقیق میں مہارت حاصل کی
گویتھے یونیورسٹی فرینکفرٹ میں نفسیات کے پروفیسر ایمریٹس کونراڈ مائرر کا کہنا ہے کہ ’اس زمانے میں ڈاکٹر الزائمر کو اس تصور سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا کہ نفسیاتی بیماریاں دیگر بیماریوں جیسی ہی ہوتی ہیں۔‘
’ان کا خیال تھا کہ جس طرح جسم کو دیگر بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، ویسے ہی دماغ کی بیماریاں ہوتی ہیں۔‘
کونراڈ مائرر کے مطابق ڈاکٹر الزائمر اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کسی مریض کی تلاش میں تھے۔
یہی وہ وقت تھا جب ان کی ملاقات آگسٹے ڈیٹر سے ہوئی۔ سنہ 1901 میں آگسٹے کو ذہنی مسائل کا سامنا شروع ہوا تھا۔ وہ باتیں بھول جاتی تھیں اور اچانک رات میں اتھ کر گھنٹوں چیختی، چلاتیں اور رویا کرتی تھیں۔
کونراڈ مائرر کہتے ہیں کہ ’آگسٹے کو دیکھتے ہی ڈاکٹڑ الزائمر نے کہا کہ یہی وہ مریض ہے جن کی انھیں تلاش تھی۔‘
انھوں نے اس مریضہ کا تفصیلی طبی ریکارڈ رکھا جو 1990 میں کونراڈ مائرر اور ان کی ٹیم نے دریافت کیا جو اسی نفسیاتی ہسپتال میں کام کر رہے تھے جس میں کبھی ڈاکٹر الزائمر ہوتے تھے۔
ماہر نفسیات نے اس مریضہ سے متعلق اپنے تمام سوالات اور خیالات ہاتھ سے لکھے تھے۔
انھوں نے لکھا کہ ’میں نے اسے ایک پنسل، ایک قلم، ایک پرس، چند چابیاں، ایک ڈائری اور ایک سگریٹ دکھایا تو اس نے ان چیزوں کی بلکل ٹھیک شناخت کی۔‘
’جب اسے کہا جاتا کہ اپنا نام لکھو تو وہ مسز لکھ کر بھول جاتی اور ہمیں باقی لفظ اس کو یاد کروانا پڑتے۔‘
’مریضہ اپنی لکھائی جاری نہیں رکھ پاتیں اور بار بار کہتیں کہ میں بھول گئی ہوں۔‘
شناخت
آگسٹے نے ہسپتال میں پانچ سال گزارے جن کے اختتام پر وہ مکمل طور پر ذہنی توازن کھو چکی تھیں۔ آٹھ اپریل 1906 کو ان کا انتقال ہو گیا۔
BBC1990 میں کونراڈ مائرر اور ان کی ٹیم نے آگسٹے کی فائل دریافت کی
کونراڈ مائرر بتاتے ہیں کہ آگسٹے کی موت کے فوری بعد ان کے دماغ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
الزائمر کی بیماری ایسے سراغ چھوڑ جاتی ہے جن کو مائیکروسکوپ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر الزائمر نے آگسٹے کے دماغ میں جو سب سے اہم چیز دیکھی وہ یہ تھی کہ ان کا سیریبرل کارٹیکس عام افراد کے مقابلے میں سکڑ چکا تھا۔
انھوں نے دماغ پر ایک مخصوص مادہ بھی جما ہوا دیکھا جس کی مدد سے انھوں نے بیماری کی شناخت کی۔
کونراڈ مائرر کہتے ہیں کہ ’آج بھی ہمارا ماننا ہے کہ اس بیماری کی وجہ یہی ہے۔‘
آگسٹے کی موت کے چھ ماہ بعد ڈاکٹر الزائمر نے جرمن کانفرنس آن سائیکیاٹری کے سالانہ اجلاس میں اس کیس کی تفصیلات بتائیں۔
انھوں نے آگسٹے کی علامات اور بیماری میں شدت کی تفصیلات بتاتے ہوئے پہلی بار ڈیمینشیا کی ایک قسم کے طور پر اس بیماری کا تعارف کروایا اور ایک ساتھی کی تجویز پر اسے ’الزائمر‘ کا نام دیا۔
Getty Imagesآگسٹے کی موت کے چھ ماہ بعد ڈاکٹر الزائمر نے جرمن کانفرنس آن سائیکیاٹری کے سالانہ اجلاس میں اس کیس کی تفصیلات بتائیں
سنہ 1915 میں 51 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت وہ اس بات سے انجان تھے کہ ان کی دریافت ایک دن لاکھوں افراد کی زندگی بدل دے گی اور اس کی مدد سے ایک بین الاقوامی تحقیق کا آغاز ہو گا۔
سائنسدان اُن کو صرف بیماری کی شناخت کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کو اس تحقیقی طریقے کے لیے بھی سراہتے ہیں جس کی مدد سے انھوں نے اس کی شناخت کی۔ ڈیمینشیا کی تشخیص کے لیے آج بھِی وہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔