سپرنٹر صاحب اسرا کو تحفے میں ملنے والے سپائکس پر 68 ہزار ٹیکس کا سامنا

اردو نیوز  |  Jul 23, 2023

پاکستان کی سپرنٹر صاحب اسرا کو تحفے میں ملنے والے سپائکس پر بڑے ٹیکس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اپنے ویڈیو پیغام میں صاحب اسرا نے بتایا کہ انہیں بیرون ملک سے سپائکس بطور تحفہ بھیجے گئے جس پر 68 ہزار روپے کا ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’تھوڑے دنوں پہلے میں نے باہر (بیرون ملک) سے سپائکس آرڈر کیے تھے جو کسی نے بطور تحفہ مجھے بھجوائے تھے۔ یہ سپائکس (کا برانڈ) میں اپنی رننگ کے لیے استعمال کرتی ہوں۔‘

’میرے پہلے سپائکس خراب ہو چکے تھے۔ میں جب کوریئر کمپنی سے سپائکس لینے گئی تو انہوں نے مجھے بتایا آپ کے سپائکس پر 68 ہزار روپے ٹیکس ہے۔ تو میں پریشان ہو گئی کہ ان سپائکس کی اصلی قیمت 55 ہزار روپے ہے تو اُن پر اتنا ٹیکس کیوں لگا ہے؟‘

26 سالہ ایتھلیٹ کا کہنا تھا کہ ’اس پر کوریئر کمپنی والوں نے کہا کہ ٹیکس کسٹم والوں نے لگایا ہے جبکہ (حقیقت میں) ٹیکس کورئیر والوں نے لگایا ہے۔‘

صاحب اسرا نے کورئیر کمپنی کے مالک سے درخواست کی کہ انہیں سپائکس دیے جائیں کیونکہ انہوں نے ٹریننگ کرنی ہے۔

اسی سلسلے میں اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے صاحب اسرا نے بتایا کہ ان سے کورئیر کمپنی کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا نہ ہی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا رابطہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ پریشانی ہے کہ سپائکس اگر نہ لیے تو انہیں کورئیر کمپنی کی جانب سے کہیں کنٹینر میں نہ پھینک دیا جائے اور کوئی انہیں نہایت کم داموں نہ خرید لے۔‘

صاحب اسرا 34 ویں نیشنل گیمز میں واپڈا کی نمائندگی کرتے ہوئے سونے کے دو تمغے اپنے نام کر چکی ہیں۔ (فوٹو: صاحب اسرا انسٹاگرام)پاکستانی ایتھلیٹ کا کہنا تھا کہ ’کوریئر کمپنی والوں کو لگا ہو کہ کسی امیر شخص نے سپائکس منگوائے ہوں گے تو اس نے ان کی قیمت ادا کی ہے تو وہ ٹیکس بھی دے گا۔ سپائکس کو کوریئر کمپنی والوں نے لگژری آئٹم میں ڈال دیا ہے۔‘

صاحب اسرا نے اپنی ٹریننگ کے حوالے سے بتایا کہ نئے سپائکس پر ٹیکس کے مسئلے کے باعث وہ اپنے پرانے سپائکس میں ہی ٹریننگ کر رہی ہیں۔

صاحب اسرا کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے ہے۔ وہ رواں برس کوئٹہ میں کھیلے گئے 34 ویں نیشنل گیمز میں واپڈا کی نمائندگی کرتے ہوئے سونے کے دو تمغے اپنے نام کر چکی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More