اسلام آباد میں دہائیوں سے کلفی بیچنے والے ریڑھی بان کو پانچ لاکھ جرمانہ اور تین ماہ قید کیسے ہوئی؟

بی بی سی اردو  |  Jul 23, 2023

فرمان اللہ پچھلے 30 سال سے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فیصل مسجد کے سامنے قلفی کی ریڑھی لگا رہے ہیں۔

یہی ریڑھی سردیوں میں چھلی کی ریڑھی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس سے وہ اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

ان کے پانچ بچوں میں سے چار جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کے علاج کا خرچہ بھی اسی کمائی سے نکلتا ہے جو ماہانہ تقریبا آٹھ ہزار روپے بنتے ہیں۔

اسلام آباد کی لہتراڑ روڈ پر ایک کچے مکان کے رہائشی فرمان اللہ اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کے ادارے سی ڈے اے کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکاروں نے انھیں 11 جولائی کو گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ فیصل مسجد کے گرد و نواح میں ’بلا اجازت ریڑھی لگا کر تجاوزات کے مرتکب ہوئے۔‘

صرف ایک دن بعد فرمان اللہ کو سی ڈی اے کے سینیئر سپیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ملزم نے ’اعتراف جرم‘ کیا اور درخواست کی کہ ان کو معاف کر دیا جائے۔

بیان کے مطابق فرمان اللہ کا کہنا تھا کہ وہ یہ ’غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔ میں غریب آدمی ہوں، مجھے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہے۔ میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘

تاہم سینئر سپیشل مجسٹریٹ سردار محمد آصف نے سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے سیکشن 46 اے اور مارشل لا ریگولیشن نمبر 63 کے تحت پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تین ماہ قیدِ بامشقت کی سزا سناتے ہوئے حکم دیا کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں فرمان اللہ کو ایک ماہ کی اضافی قید کاٹنا ہو گی۔

اس کیس کے بارے میں جب بی بی سی نے سی ڈی اے کے ڈائریکٹر محمد کامران سے رابطہ کیا تو پہلے انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں ہمارا ادارہ قانون کی پیروی کرتا ہے۔ اگر ہمارے ادارے کے لا ڈیپارٹمنٹ نے گرفتار کیا ہے تو کچھ دیکھ کر کیا ہو گا۔‘

سی ڈی کے ایک اور افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’فرمان اللہ بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں اور اب اس فیصلے پر مزید جو بھی بات چیت ہو گی وہ عدالت میں ہو گی۔‘

بی بی سی نے اسلام آباد کے چیف کمشنر اور چیئرمین سی ڈی اے نور الامین مینگل سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب فرمان اللہ کے وکیل عمر اعجاز گیلانی کا ماننا ہے کہ ’ایک قلفی کی ریڑھی کو تجاوزات قرار دینا اور فرمان اللہ کو اس جرم میں جیل بھجوانا سی ڈی اے کی جانب سے بے حسی کی انتہا ظاہر کرتا ہے۔‘

عمر اعجاز کو فرمان اللہ کے علاقے کے نزدیک بنی کچّی آبادی کے لوگوں سے ان کی گرفتاری کا پتا چلا۔

انھوں نے سب سے پہلے ٹوئٹر پر اس کیس کے بارے میں پوسٹ کیا اور پوچھا کہ ’کس قانون کے تحت ایک ریڑھی لگانے والے فرد سے اس قسم کا برتاؤ کیا جارہا ہے؟‘

انھیں مزید دستاویزات نکلوانے کے بعد پتا چلا کہ فرمان اللہ پر سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کی شِق A-46 کے تحت بغیر لائسنس کے ریڑھی لگانے پر سزا سنائی گئی ہے جس کے بعد انھوں نے فرمان اللہ کے مقدمے کی پیروی کرنے کی حامی بھری۔

اب عمر اعجاز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سپیشل مجسٹریٹ سی ڈی اے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایک غریب آدمی کو صرف قلفی بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے ’تفتیش‘ کے دوران بیان لیا جاتا ہے جس میں وہ ’قبول‘ کرتا ہے کہ اس نے ریڑھی لگائی ہے۔ اور ان 24 گھنٹوں کے دوران نہ اسے وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی فیئر ٹرائل کی امید ملتی ہے۔‘

اپنی درخواست میں انھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ فرمان اللہ کا مبینہ اعتراف جرم انھیں اپنے لیے وکیل کرنے کا موقع فراہم کیے بغیر لیا گیا۔

انھوں نے درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’ریڑھی زمین پر قبضہ یا تجاوزات شمار نہیں کی جا سکتی کیوں کہ ریڑھی کھوکا نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی چلتی پھری گاڑی کی طرح ہے جو فیصل مسجد کی اطراف میں کافی تعداد میں موجود ہوتی ہیں۔‘

وکلا کے مطابق قانوناً کسی بھی ممنوعہ جگہ پر ریڑھی لگانے کا زیادہ سے زیادہ جرمانہ 400 روپے ہوتا ہے۔ لیکن فرمان اللہ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگایا گیا ہے۔

عمر اعجاز کے مطابق اسلام آباد کی تاریخ میں کبھی ’سی ڈی اے نے کسی گاڑی والے کو اسی جرم میں تین ماہ قید اور ہانچ لاکھ جرمانے کی سزا نہیں کی لیکن ریڑھی والوں کے ساتھ باقاعدگی سے ایسا کیا جاتا ہے جو غربا کے خلاف سی ڈی اے کے امتیازی سلوک کی مثال ہے۔‘

واضح رہے کہ پچھلے کچھ سال سے اسلام آباد میں تجاوزات کے خلاف کارروائی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شہلا رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے 15 سال میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں مزدور پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد نے ملک بھر میں نقل مکانی کی۔

’ایسے لوگوں کو کبھی کچی آبادیاں ہٹائے جانے یا پھر محنت مزدوری کرنے کے نتیجے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سرکار کا مزدور پیشہ افراد کے لیے نہ تو کوئی واضح پروگرام ہے اور نہ ہی برداشت۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مزدوروں اور محنت کش افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنا قدرے آسان ہے لیکن اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ہونے والی امیر لوگوں کے پراپرٹی میں غبن کرنے کے اور تجاوزات کے واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔‘

عمر گیلانی کہتے ہیں کہ ’اسلام آباد صرف امرا کے لیے نہیں بلکہ ہر طبقے کے لوگوں کے لیے ہے اور ان کا بھی اتنا ہی حق ہے ان سڑکوں پرمحنت مزدوری کرنے کا جتنا کہ کسی اور کا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More