سنہ 70 کی دہائی کے وسط میں بنگلہ دیش میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور سنیما ہالز پر نشر ہونے والے کچھ اشتہارات پر تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔
والدین اپنے بچوں کے سامنے یہ اشتہار دیکھنے سے شرما جاتے تھے، کچھ قدامت پسند گھروں میں تو ٹی وی پر ہی پابندی لگ گئی تھی۔
اور یہ سب کچھ اس لیے تھا کیونکہ بنگلہ دیش نے اس دور میں مانع حمل اور خاندانی منصوبہ بندی کی ادویات کی دستیابی کی ابتدا کی تھی اور یہ اشتہارات اسی مہم کا حصہ تھے۔
اُس وقت بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی یا مانع حمل والی دوائیوں کے بارے میں کھل کر بات کرنا انتہائی مشکل کام تھا، سمجھ لیں کہ یہ تقریباً ممنوع موضوع تھا۔
دریائے پدما کے کنارے راج باری کے علاقے سے ڈھاکہ شہر آنے والی ایک نوجوان عورت نے اس وقت معیوب سمجھے جانے والے اس موضوع کی وجہ سے معاشرے میں پائے جانے والی شرمندگی کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
ان کا نام رینو تھا۔ اس کی آنکھوں میں فلمی دنیا کی ہیروئن بننے کا خواب تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میرے والد کا گھرراج باری میں تھا، اس کے بالکل قریب ہی چترا نامی ایک سنیما ہال تھا۔ جب مجھے شعور آیا، میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ چھپ چھپ کر فلمیں دیکھتی تھی۔
’کبری میڈم، شبانہ میڈم کی پرفارمنس سے مجھ پر سحر طاری ہو جاتا تھا، اور میرا خواب تھا کہ ایک دن میں بھی ان جیسی بڑی اداکارہ بنوں گی۔‘
ایک دن رینو گھر والوں کے اعتراض کے باوجود اس خواب کو پورا کرنے ڈھاکہ پہنچ گئیں۔
پرانے ڈھاکہ میں وہ مقامی سالانہ تھیٹر اور کمرشل فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کر رہی تھیں۔ ایک دن انھیں ایک اشتہار میں ماڈل بننے کی پیشکش ہوئی۔
انھوں نے بالکل دیر نہیں کی اور بغیر زیادہ سوچے اس پر راضی ہو گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب میں اس اشتہار کے لیے ماڈل بنی تو مجھے زیادہ سمجھ نہیں آئی، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اشتہار میں کام کروں گی۔ میں فلم میں ہیروئن بننا چاہتی تھی، اس اشتہار کے لیے ماڈل بننے میں مجھے اچھا محسوس نہیں ہو رہا تھا لیکن اس اشتہار کے بعد میں مشہور ہو گئی۔‘
اس کمرشل کی شوٹنگ ڈھاکہ میں مدھومیتا سنیما ہال کے قریب ایک پرانے زمیندار کے گھر اور کچھ دیگر جگہوں پر کی گئی۔ اس وقت کے معروف کیمرہ مین سدھن رائے نے اس اشتہار پر کام کیا تھا۔
اس اشتہار کے شروع میں، رینو کو کمرے میں ایک شرمیلی دلہن کے طور پر دکھایا گیا، پھر اگلے سین میں دو بچوں اور ایک شوہر کے ساتھ ایک خوش بیوی کے طور پر دکھایا گیا۔ اشتہار کی دلکش دھن اور ماڈل کے دلکش چہرے نے ہلچل مچا دی۔
اس وقت ان کے اس اشتہار کو لے کر کافی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا لیکن ساتھ ہی اس اشتہار نے انھیں مشہور ہیروئن بننے کا اپنا خواب پورا کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔
بنگلہ دیش کی مشہور اداکارہ روزینہ برتھ کنٹرول گولی مایا باری کے اشتہار میں کام کرنے والی ماڈل رینو ہیں۔ ان کا نام اب رینو سے روزینہ ہو چکا ہے اور وہ اسی نام سے جانی جاتی ہیں۔
ممنوعہ اشتہار
1970 کی دہائی کے وسط میں اس وقت بنگلہ دیش مختلف بحرانوں کا شکار تھا۔ اس نئے ملک کو سیاست میں عدم استحکام، خراب معیشت اور ایک کے بعد ایک قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والے بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع کو حکومت کی طرف سے خاص توجہ مل رہی تھی۔
اس کام میں مدد کے لیے ایک امریکی تنظیم پاپولیشن سروسز انٹرنیشنل، بنگلہ دیش آئی۔ انھوں نے مانع حمل کی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے 1976 میں بنگلہ دیش میں ’سوشل مارکیٹنگ پروجیکٹ‘ یا ’ایس ایم پی‘ کے نام سے ایک مارکیٹنگ پروگرام شروع کیا۔
وہ بنگلہ دیش میں ’راجا کنڈوم‘ اور ’مایا باری‘ مانع حمل کی گولی جیسی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے والی پہلی تنظیم تھی۔
رامینڈو ماجومدار اس وقت ’بی ٹی پی‘ نامی اشتہاری ایجنسی کے ایگزیکٹو تھے۔ ان کی کمپنی کو ایس ایم پی کے مانع حمل ادویات کے لیے اشتہار بنانے کا کام دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’70 کی دہائی کے ابتدا میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کی تشہیر کی جاتی تھی پر مانع حمل کے مصنوعات دکھائی نہیں جاتی تھی۔ اس وقت خاندانی منصوبہ بندی، چھوٹے اور خوش گھرانوں کی ضرورت تھی لہٰذا اسے خاموشی سے کیا جاتا تھا۔‘
رامینڈو ماجومدار اور ان کے ساتھیوں کو کنڈوم اور مانع حمل کی گولیوں کے اشتہارات بنانے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انھوں نے بتایا ’اس وقت اس موضوع کو معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا تھا لہٰذا کوئی ماڈل اس اشتہار میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا تھا۔ ماڈل چاہے مرد ہوں یا عورت اس اشتہار کے لیے کام کرنے میں عار محسوس کر رہے تھے۔
’روزینہ اس وقت ایک ابھرتی ہوئی ماڈل تھیں ہم نے انھیں مایا باری گولیوں کی ماڈلنگ کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی۔‘
مایا باری کی گولی کے پیکٹ کی مارکیٹنگ کی گئی اور اس پر روزینہ کی تصویر لگی تھی۔ اس سے قبل ہاتھ سے بنائی گئی تصویریں استعمال ہوتی تھیں۔ اس کے بعد راجا کنڈوم اور مایا باری کے اشتہار اخبار میں چھپنے شروع ہو گئے۔
ریڈیو پر بھی اشتہار سنائے گئے۔ راجا کنڈوم کی تشہیر ٹی وی پر نہیں کی گئی لیکن مایا باری کا اشتہار ٹی وی پر چلایا گیا۔
رامینڈو ماجومدار نے کہا کہ مجھے یاد ہے جب یہ اشتہار چلنا شروع ہوئے تو بہت سے گھروں میں ٹیلی ویژن بند کر دیے جاتے تھے یا بچوں کو اسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
رامینڈو ماجومدار نے کہا کہ انھوں نے مانع حمل ادویات کے تقریباً 12 ٹیلی ویژن اشتہارات بنائے۔ ان میں سے کچھ نے اتنا تنازعہ کھڑا کیا کہ بنگلہ دیش ٹی وی پر چند بار دکھانے کے بعد اسے روک دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’مایا گولیوں کا اشتہار بہت اچھا تھا۔ اس میں دکھایا جاتا ہے کہ شادی کے بعد دلہن کو ڈولی میں گاؤں کی سڑک پر لے جایا جاتا ہے پھر وہاں جادو کی گولی کا ذکر ہوتا ہے۔
’ایک ہفتے تک یہ اشتہار چلا بعد میں بنگلہ دیش ٹیلی ویژن نے اچانک یہ کہہ کر اسے دکھانا بند کر دیا کہ اسے نہیں چلایا جا سکتا۔ ایک ٹیلی ویژن ایگزیکٹو نے کہا کہ یہ بنگلہ دیش میں خاندانی اقدار کو تباہ کر رہا ہے۔ آخر کار یہ خوبصورت اشتہار روک دیا گیا۔‘
’ثقافتی جھٹکا‘Getty Imagesبنگلہ دیش کے ایک گاؤں میں ہیلتھ ورکر خواتین کو کنڈوم کے استعمال کے بارے میں بتا رہی ہے
سنہ 70 کی دہائی میں دنیا کے سب سے مقبول سوشل مارکیٹرز میں سے ایک رچرڈ مینوف تھے۔ انھیں سوشل مارکیٹنگ کا گرو مانا جاتا تھا۔ انھیں بنگلہ دیش نے خاندانی منصوبہ بندی کی تشہیر اور مارکیٹنگ کے مُشیر کے طور پر ڈھاکہ بلایا۔
انھوں نے ایڈورٹائزنگ ایجنسی بٹ پیر کے عہدیداروں کے ساتھ پروموشن اور مارکیٹنگ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے میٹنگ کی۔
رامینڈو ماجومدار نے کہا ’وہ بنگلہ دیش کے کچھ ڈرامہ نگاروں سے بات کرنا چاہتے تھے۔ پھر میں سید شمس الحق اور عبداللہ المعمون کو ان کے پاس لے آیا۔
’ہم سب سونارگاؤں ہوٹل کے سوئمنگ پول کے پاس بیٹھ کر تین چار دن باتیں کرتے رہے۔ رچرڈ مینوف نے ہم سے پوچھا کہ انگریزی لفظ ’وائز‘ کا بنگالی مترادف کیا ہو سکتا ہے اور ’پھول‘ کو بنگالی میں کیا کہا جاتا ہے؟‘
ان کی اس ملاقات کے نتیجے میں خاندانی منصوبہ بندی پر بنگلہ دیش کی تاریخ کا سب سے کامیاب ٹی وی اشتہار کا مقبول ڈائیلاگ سامنے آیا: ’عقلمند انسانو، صحیح قدم اٹھاؤ۔‘
رامینڈو ماجومدار نے کہا ’ہم ثقافتی جھٹکا دینا چاہتے تھے۔ راجہ کنڈوم یا مایا گولیوں کا یہاں براہ راست ذکر نہیں تھا۔ خاندانی منصوبہ بندی کی بات ہو رہی تھی۔‘
خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ریڈیو پر ایک ڈرامہ 'دین بدلر پالا' شروع کیا گیا۔ اسے عبداللہ المعمون اور سید شمس الحق نے لکھا تھا۔ اس سیریل ڈرامے کی 250 قسطوں میں بنگلہ دیش کے تقریباً تمام مقبول فنکاروں نے کام کیا۔
خاندانی منصوبہ بندی اور اسقاط حمل کے مختلف طریقوں کے بارے میں جاننے میں لوگوں کی بہت دلچسپی تھی۔ ہر ہفتے سامعین کی طرف سے سینکڑوں خطوط موصول ہوتے تھے اور ڈرامے کے اختتام پر تین منٹ تک سامعین کے خطوط کا جواب دیا جاتا تھا۔
رامینڈو ماجومدار کے مطابق یہ مارکیٹنگ اس قدر کامیاب رہی کہ چند سالوں میں بنگلہ دیش کے دور دراز علاقوں اور گاؤں میں موجود دکانوں پر بھی راجا کنڈوم اور مایا گولیاں دستیاب ہونے لگیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی کامیابی کی وجہ سے بنگلہ دیش اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو کافی تیزی سے کم کرنے میں کامیاب رہا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے پاپولیشن سائنس ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر محمد معین الاسلام نے کہا کہ ’بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے بہت سے ان ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے کامیابی کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام چلائے ہیں۔
’دنیا میں کسی بھی ملک کے لیے آئیڈیل شرح تولید دو عشاریہ ایک ہے اور بنگلہ دیش اس شرح تولید کے قریب آ چکا ہے۔‘