جمعے کیدوپہر اربوں لوگوں کے خواب اور ایک روور کے ساتھ انڈیا کے چاند کے سفر کا کامیابی سے آغاز ہو گیا ہے۔انڈیا نے اپنے راکٹ سے چاند پر لینڈر اتارنے والےچندر یان تھری سیٹیلائٹ کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مطلوبہ مدار میں بھیج دیا ہے۔
چندریان 3 کو جمعہ کی دوپہر مقامی وقت کے مطابق 2.35 منٹ پر آندھرا پردیش میں سری ہری کوٹا کے خلائی مرکز سے روانہ کیا گیا۔
اس مشن کے آغاز پر وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ’چندریان 3 نے انڈیاکے خلائی سفر میں ایک شاندار باب کا آغاز کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ’یہ مشن انڈیا کے ہر فرد کے خوابوں اور عزائم کو لے کر بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہ اہم کامیابی ہمارے سائنسدانوں کی انتھک لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میں اس کے جذبے اور ہنر کو سلام کرتا ہوں۔‘
یہ خلائی گاڑی پانچ اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہو گی اور خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اسرو کے سائنسدانوں کے حوالے سے کہا ہے کہ لینڈر ماڈیول چاند کے جنوبی قطب پر23 یا 24 اگست کو اترسکتا ہے۔
اگر یہ روور کامیابی سے چاند کے جنوبی قطب تک پہنچ گیا تو انڈیا دنیا کا پہلا ملک ہو گا جو اس جگہ پہنچنے میں کامیاب ہو گا۔
چاند کے جنوبی قطب پر سطح پیچیدہ ہے، کافی بڑے گڑھے اور ڈھلوان ہے۔ کچھ گڑھوں میں تو اربوں سال سے سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچی لہٰذا وہاں کا درجہ حرارت منفی 203 ہے جس کی وجہ سے وہاں آلات کو چلانا کافی پیچیدہ عمل ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی تک چاند پر جانے والے خلائی مشن چاند کے وسط کے قریب لینڈ ہوتے ہیں جہاں سطح مشکل نہیں اور درجہ حرارت کام کرنے کے لیے ٹھیک ہے۔
انڈین سپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس مشن کی ناکامی کے امکانات کو کم کرنے کے لیے اقدام اٹھائے ہیں۔
انڈین سپیس کریسرچ آرگنائزیشن کے چیئرمین ایس سومناتھ کہتے ہیں کہ چندریان 2 کا ڈیزائن کامیابی کے لیے کیا گیا تھا جبکہ چندریان 3 کا ڈیزائن ناکامی سے بچنے کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا ’کیا غلط ہو سکتا ہے اور اسے کیسے بچایا جا سکتا ہے، یہ سوچ ہم نے رکھی ہوئی ہے۔‘
انڈیا چاند کی تاریک سمت کیوں جانا چاہتا ہے؟
انڈیا کے چاند پر پہلے مشن چندریان ون نے چاند پر پانی کی موجودگی کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی لاگت سات کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھی۔
دلی کے قریب شیو ندر یونیورسٹی میں سپیس روبوٹکس پڑھانے والے ڈاکٹر آکاش سنہا کہتے ہیں کہ ’کدھر اور کتنا پانی ہے اور کیا وہ سارا منجمند ہے، ہمیں مزید معلومات چاہیے۔‘
انھوں نے کہا ’مستقبل کے مشنز کی کامیابی کے لیے یہ جاننا بہت مفید ہو گا کہ یہ پانی کیسا ہے اور کہاں ہے، پانی کے ذخائر کے گرد آبادکاری کی حکمت عملی بھی بن سکتی ہے۔‘
چاند کے قطب، سطح پر موجود مٹی اور پتھروں پر تحقیق کر کے ہمیں نظامِ شمسی کے وجود کے سوالات کے جواب بھی شاید مل سکتے ہیں۔
انڈیا کے دوسرے چاند مشن کی لاگت دگنی تھی۔ چندریان ٹو پر 14 کروڑ ڈالر لگے تھے۔
اس کی لانچ سال 2019 کے اوائل میں ہوئی تھی لیکن یہ روور کو چاند تک نہیں پہنچا سکا تھا۔
انڈیا اس بار چندریان تھری پر آٹھ کروڑ ڈالر کا خرچہ کر رہا ہے، اس امید سے کہ روور چاند پر پہنچ کر سائنسی تجربات کرے گا۔
BBCکفایت شعار انجینیئرنگ
گذشتہ دو دہائیوں میں انڈین سپیس پروگرام میں کافی تبدیلی آئی ہے اور کم خرچے پر سپیس مشن کرنے کی وجہ سے اسے عالمی شہرت بھی ملی ہے۔
سپیس پورٹ سارا بھائی نامی آزاد تھینک ٹینک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سُشمتا موہانتی کہتی ہیں کہ ’2018 میں انڈیا نے ایک راکٹ کے ذریعے 104 سیٹلائٹس کو خلا میں پہنچا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔‘
’یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ ہمارے سائنسدانوں اور انجینیئرز کو 104 سیٹلائٹس بغیر کسی غلطی کے مداروں تک پہنچانے کا ہنر آتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر کوئی زمین کے قریب کے مدار میں اس قسم کا نفیس کام نہیں کر سکتا۔‘
انڈیا کے واحد مریخ مشن منگلیان پر سات کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے قریب لاگت آئی جو کہ ناسا کے ’میون مارس مشن‘ پر آنے والی لاگت کا دسواں حصہ تھا۔ یہ منصوبہ 48 کروڑ 50 لاکھ ڈالر میں بنا تھا اور اسے خلا تک پہنچانے میں مزید 18 کروڑ 70 لاکھ ڈالر لگے تھے۔
انڈیا کے تمام خلائی مشن کی یہ خاصیت رہی ہے کہ مقامی سطح پر تیار اور قابل تجدید چیزیں استعمال کی جاتی ہے۔
BBC
ماضی کے مشن کے برعکس چندریان تھری میں مدار میں رہنے والے سیٹلائٹ شامل نہیں۔
اس مشن کے لیے چندریان ٹو کی سیٹلائٹ کا استعمال ہو گا جو روور، لینڈر (خلائی گاڑی) اور کنٹرول روم کے درمیان رابطہ قائم کرے گی۔
انڈیا کم طاقتور راکٹس کا استعمال کر کے بھی ان مشنز پر آنے والی لاگت کو کم کرتا ہے۔
اسرو کے سابق چیئرمین کے سون بتاتے ہیں کہ ’ہم خلائی جہاز کو چاند کے مدار تک پہنچانے کے لیے چاند کی کشش ثقل کا استعمال کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’گو ہمیں چاند تک پہنچنے کے لیے 29 دن لگتے ہیں لیکن یہ سب سے زیادہ بچت والا طریقہ ہے۔‘
کے سون بتاتے ہیں کہ اسرائیل بھی اسی طریقے کا استعمال کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’2019 میں اسرائیل کی طرف سے لانچ کیا گیا بیریشیٹ مشن نے بھی اسی بچت والے طریقے سے چاند کا راستہ اختیار کیا۔‘
انڈیا کے خلائی پروگرام کا بجٹ ڈھائی ارب ڈالر ہے جہاں جدت سب سے اہم ہے۔
ڈاکٹر موہانتی کا کہنا ہے کہ خلائی دوڑ میں سب سے طاقتور ممالک میں سے انڈیا بہترین انداز میں نئے خیالات آزماتا ہے۔ مشن کے گرد معیشت ہمارے منصوبہ بندی کا مرکز ہوتی ہے۔‘
’چندریان ٹو کی مثال ہی لے لیں جس میں سائنسدانوں نے آربیٹل مکینکس (مدار کے گرد گھومنے) کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے ایندھن کی کھپت کم سے کم رکھی اور چند دنوں کے بجائے چاند پر 48 روز بعد پہنچے۔‘