ورک لو بومبنگ: کمپنیوں کی چکنی چپڑی باتیں نئے ملازمین کے کام پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 12, 2023

Getty Imagesسبز باغ دکھا کر بہترین صلاحیتیں حاصل کرنا ان کا مقصد ہے

کمپنیوں کے ریکیوٹرز (نئے ملازمین بھرتی کرنے والے) آپ کو دن میں کئی بار ٹیکسٹ پیغامات، ای میلز، فون کالز کرتے ہیں۔ وہ فراخ دلی سے آپ کی تعریفیں اور خوشامد کرتے ہیں اور آپ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ آپ ہی تو ہیں۔

ابھی آپ کو ایک دوسرے سے ملے صرف چند ہی دن ہوئے ہوتے ہیں لیکن تب سے آپ مکمل توجہ اور وعدوں کے بھنور میں رہنے لگتے ہیں۔

اس قسم کے رویے کے لیے ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے ’لو بومبنگ‘ یا محبت کی بمباری کہا جاتا ہے۔ اسے عام الفاظ میں چکنی چپڑی باتیں بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر اس کا اطلاق ڈیٹنگ پر ہوتا ہے جب کوئی شخص تعریفوں کے پل باندھنے لگتا ہے، بڑے بڑے وعدے کرتا ہے اور اس کے ذریعے وہ اکثر ممکنہ ساتھی کو اپنا ممنون بنانے کا احساس دلاتا ہے۔

یہ محبت کی بمباری جیسا سلوک رومانوی تعلقات سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔

کچھ لوگ کام کی جگہوں یا دفاتر میں اس رویے کو پہچان سکتے ہیں۔ ایسا ان کمپنیوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں اچھے عہدوں کی دستیاب نوکریوں کے لیے امیدوار کھچے چلے آتے ہیں۔ یہاں نوکریوں کے متلاشی جلد ہی نوکری حاصل کرنے کے مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں اور یہاں ملازمت کی رسمی تفصیلات کی جگہ تعریفیں کی جاتی ہیں، اور ملازمت کے متلاشی افراد کو ایک مثالی صورتحال کا خواب پیش کیا جاتا ہے۔

اس کا مجھے کچھ تو علم ہے کیونکہ پچھلے سال ایک کمپنی کی ریکیوٹر نے مجھ سے ایک ملازمت کے حوالے سےرابطہ کیا جس کے لیے انھوں نے کہا کہ میں اس عہدے کے لیے بہترین اور مناسب ترین ہوں گی۔ انھوں نے میری تعریف کے پل باندھ دیے اور مجھے ان تمام مواقع اور سہولیات کے بارے میں بتایا جو مجھے کمپنی میں حاصل ہوں گے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ میں ’پرفیکٹ‘ ہوں۔ جب میں نے اپنے کردار اور کارپوریٹ کلچر کے بارے میں سوالات کیے اور اپنے تحفظات بتائے تو وہ انھیں مسترد کرتی رہیں اور مجھے بس یہ کہتی رہیں کہ مینیجرز مجھے جلد از جلد اپٹی ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ تنظیم میں کام کرنے میں میری دلچسپی ظاہر کرنے سے پہلے ہی انھوں نے مجھے نوکری کی پیشکش بھی کر دی۔

سان فرانسسکو میں مقیم کریئر کوچ سمورن سیلم اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس کا موازنہ رومانوی رشتوں کے ابتدائی مراحل سے کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر سخت مقابلے والے لیبر مارکیٹ میں جہاں ملازمین کی اب بھی بالا دستی ہے، اور کمپنیاں ہنرمند افراد کے حصول کے لیے آپس میں لڑ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ریکیوٹرز کا کام ہے کہ وہ کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ آپشنز فراہم کریں اور جب امیدوار کم ہوں تو انھیں ملازمت کے متلاشیوں کے لیے لڑنا پڑ سکتا ہے۔

سیلم مزید کہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر نوکریوں سے نکالنے کے اس دور میں بھی انتہائی ماہر اور ہنرمند امیدواروں کے پاس بہت سارے آپشنز ہوتے ہیں، اور وہ تنخواہ کے پیکجز کے علاوہ دوسری چیزوں پر بھی نظر رکھتے ہیں، جیسے کہ کمپنی کا کلچر۔ ایسے میں بھرتی کرنے والے سب سے زیادہ سازگار ماحول کے ساتھ انھیں آزادانہ رول پیش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور امیدواروں کو اسے قبول کرنے کے لیے خاص محسوس کراتے ہیں۔

یہ چیز اگرچہ عام طور پر بدنیتی پر مبنی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی یہ نقصان دہ اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ دباؤ اور چاپلوسی کارکنوں کو ناکام ہونے پر مجبور کر سکتی ہے کیونکہ ایسے اہداف اور کاموں کے لیے تیار رہنا جو کبھی پورے نہیں ہوں یا ایسی ملازمت میں پھنس کر رہ جائيں جہاں وعدے روزمرہ کے دفتری کلچر کی حقیقت سے میل نہیں کھاتے۔

Getty Imagesحد سے زیادہ دباؤ کے نامناسب اثرات بھی ہو سکتے ہیں’اپنا بہترین چہرہ‘ پیش کرنا

کچھ کمپنیاں ملازمین بھرتی کرنے والوں پر زور دیتی ہیں کہ وہ سختی کے ساتھ کمپنی کا بہترین عکس اور مثبت شبیہ پیش کریں۔ سیلم کا کہنا ہے کہ ملازمت کے لیے بھرتی کا یہ ابتدائی مرحلہ ممکنہ پارٹنر کے ساتھ پہلی چند ڈیٹس کی طرح ہے جس میں بھرتی کرنے والے اور کمپنیاں ’اپنا بہترین چہرہ‘ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ممکنہ کمیوں اور خامیوں کو چھپا لیتی ہیں۔

دوسرے الفاظ میں بہت سے ریکیوٹرزایک مسابقتی مارکیٹ میں امیدواروں کو آمادہ کرنے کے لیے کمپنیوں کا انتہائی مثبت رخ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ بالآخر ان کا کام ہی یہی ہے کہ کمپنی میں نئے لوگوں کو لائیں اور اس کے لیے ہر ممکن حد تک مؤثر طریقے استعمال کریں۔

تاہم، ضروری نہیں کہ یہ اقدام سوچ سمجھ کر یا مذموم عزائم کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔

سیلی ہنٹر برطانیہ میں مقیم عالمی ٹیلنٹ ایکوزیشن کمپنی سیلو کی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بہت سے بھرتی کرنے والوں کو شاید یہ احساس بھی نہ ہو کہ وہ محبت نچھاور کرنے والے رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ریکیوٹرزقدرتی طور پر سیلز کے لوگ ہوتے ہیں اور پرامید ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ ان کا طرز عمل ہوتا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ امیدوار ان کے پیش کردہ کردار سے متاثر ہوں، اسے قبول کریں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔‘

لیکن وہ خبردار بھی کرتی ہے کہ اس کا دوسرا رخ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ریکیوٹرز کم بنیادی تنخواہ پر یا کمیشن پر کام کر رہے ہیں تو وہ اس قسم کی محبت نچھاور کرنے کے مرتکب ہو سکتے ہیں تاکہ وہ اپنا کردار اچھی طرح نبھا سکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لا سکیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ایسے میں ایک ریکیوٹر جسے کسی تیسرے فریق کے ذریعے عہدوں کو پُر کرنے کے لیے رکھا گیا ہے وہ اپنے فائدے کے لیے زیادہ وعدہ کر سکتا ہے اور کم ڈیلیور کر سکتا ہے۔

Getty Imagesخوشامد مگر پھر ناکامی

کمپنی کی جانب سے ترغیب کچھ بھی ہو، نوکری کے امیدواروں کے لیے یہ دھچکہ ہو سکتا ہے اور اس کے اثرات ہو سکتے ہیں۔ بعض معاملات میں کوئی امیدوار پیشکش کے دباؤ میں کسی ایسے عہدے کو قبول کر سکتا ہے جو اس کے لیے مناسب نہ ہو۔

46 سالہ کرسٹین گریگس کہتی ہیں کہ وہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک کمپنی میں ایک عہدے پر زیادہ قیمت پر نوکری پر رکھی گئیں۔ بھرتی کرنے والے نے گریگس کو ان کی ’حیرت انگیز ساکھ‘ کے بارے میں بتانے کے بعد انھیں فوری طور پر نوکری کی پیشکش کردی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ خود ٹیلنٹ تلاش کرنے والے شعبے میں تھیں۔

گریگس کا کہنا ہے کہ انھیں ’فوراً نوکری کی پیشکش کی گئی۔‘ اس کے علاوہ ان سے کئی قسم کی مراعات کا بھی وعدہ کیا جن میں دفتر کے باہر گھر یا کہیں اور سے کام کرنے کی سہولت بھی شامل تھی۔

لیکن بھرتی کا عمل ختم ہونے کے بعد چیزیں بدل گئیں۔

نوکری کے پہلے دن انتظامیہ نے گریگس کو دفتر آنے کو کہا۔ جب وہ پہنچیں تو ان کا استقبال کرنے، انھیں ان کے کام کی جگہ بتانے یا ان کا ٹیم سے تعارف کرانے کے لیے وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ جب ان کا ایک مینیجر سے رابطہ ہوا تو گھر سے کام کرنے کی سہولت والا معاملہ ختم ہو گیا کیونکہ انھیں بتایا گیا کہ یہ کمپنی کی پالیسی نہیں ہے۔

وہ وہاں کام کے کلچر کو دیکھ کر بھی حیران رہ گئی تھیں۔ دفتری رویے کے ساتھ ساتھ، انھیں وہاں تضحیک محسوس ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک معذور امیدوار کی سکریننگ کے دوران غیر مناسب طرز عمل کا بھی مشاہدہ کیا۔ بہر حال انھوں نے آٹھ دنوں بعد وہ نوکری چھوڑ دی۔

سیلم کا کہنا ہے کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کچھ امیدوار اپنے آپ کو ایک ایسے کردار کے بارے میں بہت پرجوش پا سکتے ہیں جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے لیکن آخر میں یہ نوکری کی کسی پیشکش کے بغیر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کمپنیاں متعدد امیدواروں کو ممکنہ ملازمتوں کے لیے منتخب کرتی ہیں تاکہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ آپشن موجود ہو۔

سیلم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس قسم کا طریقہ کار بھی دیکھا ہے جس میں بھرتی کرنے والا فعال طور پر زیادہ وعدہ نہیں کرتا یا کسی امیدوار کو قائل کرنے کے لیے یا روکنے کے لیے غلط امید نہیں دلاتا وہ بس اس پوزیشن کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ تمام آپشنز کو کمپنی کے سامنے پیش کر سکے۔

اگرچہ وہ امیدوار کو یہ بتائے کہ وہ اس عہدے کے لیے سب سے موضوع ہیں پھر بھی اس کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہے کہ کمپنی اسے نوکری کی پیشکش کرے گی۔

یہ نہ صرف نوکری کے امیدوار کے حوصلے کو پست کرنے اور پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے، بلکہ کسی شخص کی مالی حالت بھی بگاڑ سکتا ہے، خاص طور پر اگر اس نے کوئی دوسری نوکری ٹھکرا دی ہو کیونکہ وہ سبز باغ دکھائے جانے کی وجہ سے اس کمپنی سے نوکری کی توقع کر بیٹھا ہے۔

AFPشکنجے میں آنے سے بچنا

بلاشبہ کمپنیوں کے لیے ملازمین بھرتی کرنے والے جس طرح سے نوکری کے متلاشیوں سے رجوع کرتے ہیں اس طریقے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بات کا علم ہونا کہ لو بومبنگ یا میٹھی میٹھی باتوں کا وجود ہے اور اس کے اثرات ہو سکتے ہیں یہ کام کے متلاشیوں کو مسائل سے بچنے میں مدد کر سکتا ہے۔

سیمرون سیلم نے زور دیا کہ امیدواروں کو خطرے کی گھنٹی کو سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ریکیوٹرز کے لیے یہ عام بات ہے کہ وہ امیدواروں کو بتائیں کہ ان کے پاس بہترین تجربہ ہے، اور یہ کہ ان کی ٹیم ان کے بارے میں بہت اچھا سوچتی ہے کیونکہ درحقیقت وہ چاہتے ہیں کہ ملازمت کے متلاشی افراد یہ محسوس کریں کہ ان کی قدر کی جا رہی ہے۔

لیکن امیدواروں کو انٹرویو کے عمل سے گزرتے ہوئے کسی بھی ایسی چیز سے ہوشیار رہنا چاہیے جہاں ’زیادہ وعدے‘ ہو یا شفافیت کی کمی ہو یا کوئی ایسی چیز جو کسی مسئلے کا اشارہ دے سکتی ہے۔

جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے وہ نوکری قبول نہیں کی حالانکہ کمپنی نے مجھے خوش کرنے کے لیے محبت کی بارش کر دی۔ یہ تجربہ سارے وقت میرے پیٹ میں کسی گرہ کی طرح بیٹھا رہا اور میں اس پیشکش کو قبول کرنے کے لیے اپنے آپ کو راضی نہیں کر سکی۔

مجھے یہ ہر وقت یہ لگتا رہا کہ مجھے ایک ایسی پوزیشن فروخت کی جا رہی ہے جو پوری نہیں ہو گی اور میرے ہنر کے مطابق نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو ایسی صورت حال سے بچا لیا جس کا ممکنہ طور پر نقصان ہو سکتا تھا۔

مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے اندر کی آواز پر بھروسہ کیا، کیونکہ بالآخر جبلتیں بھی انمول ہو سکتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More